گولڑہ شریف والے پیر نصیرالدین نصیرؒ سے میری ملاقات ان کی وفات سے تین سال بعد ہوئی۔ ان کی زندگی میں ان سے ملنے کا اشتیاق تو رہا لیکن اتنا نہیں کہ ہر کام چھوڑ کر چلا جاتا۔ یوں بھی میں ان کے مریدوں میں شامل نہیں تھا البتہ میرے حلقۂ احباب میں ایسے لوگ موجود تھے جو ان کی شخصیت اور علمیت کا نقشہ کچھ اس انداز میں کھینچتے کہ میں کچھ متاثر تو ہوجاتا لیکن بات اس سے آگے کبھی بڑھ نہ سکی۔ملاقات کے شوق کو ہوا دینے میں میرے ہمنام حبیب الرحمٰن لک پیش پیش ہوتے لیکن ایسا کبھی نہ ہوا کہ وہ خود ان سے ملنے جا رہے ہوں اور مجھے ساتھ چلنے کو کہا ہو۔ ایک بار شکوہ کیا تو بولے کہ تمہیں اگر جانا ہے تو خود جاؤ ویسے بھی ان کے ارادت مندوں کی تعداد بڑھانے کا کام میں نہیں کرتا۔ دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ ایک صحافی کے لیے عقیدت و ارادت کے روگ پالنا بہت مشکل ہوتا ہے، اس لیے شاید میں نا دانستہ ہی سہی پیر صاحب کے مریدوں کی گفتگو کو ’پیراں نمی پرند، مریداں میں پرانند (پیر نہیں اڑتے، مرید انہیں اڑاتے ہیں) کے کھاتے میں ڈالتا رہا۔ پھر یوں ہوا کہ حبیب الرحمٰن لک اس دنیا سے چلے گئے اور ایک موہوم سا عقیدت کا رشتہ جو پیر نصیر الدین نصیر سے بنا تھا دنیا داری کی نذر ہوگیا۔۔ بہرحال پہلے ان کی زندگی میں ملنے کی خواہش ہولے ہولے سلگتی رہی اور 2009ء میں ان کی وفات کے بعد ہلکا سا ایک پچھتاوا بھی دل ودماغ میں موجود رہا۔ ان کی وفات کے تین سال بعد جب ان سے ملاقات ہوئی تو ہلکا سا پچھتاوا حسرت بن گیا کہ اکثر کام جو ان کی زندگی میں ان سے ملاقات کے مقابلے میں اہم لگ رہے تھے درحقیقت کتنے ہیچ اور بے فائدہ تھے۔اب اس ملاقات کی داستان بھی سن لیجیے جو ان کی وفات کے تین سال بعد ہوئی۔ پچھلے سال گرمیوں کی بات ہے کہ ایک دن انٹرنیٹ پر کچھ تلاش کرتے ہوئے نجانے کہاں سے نصیر الدین نصیر کا نام سامنے آگیا۔ ایک لمحے میں ذہن کے کسی نہاں خانے سے ان سے نہ ہوسکنے والی ملاقات کا پچھتاوا نکل آیا اور میں اپنی تلاش چھوڑ کر نصیر الدین نصیر کے بارے میں معلومات دیکھنے لگا۔ اسی کوشش میں مجھے آدھے گھنٹے کی ایک ایسی ویڈیوملی جس میں پیر صاحب کی کہی ہوئی نعتیں کچھ نعت خواں ان کے سامنے بیٹھے پڑھ رہے ہیں۔ان کے مرید دو زانو بیٹھے ہیں اور نعت خوان مجلس کی اگلی صف میں لحن کا جادو جگا رہے ہیں۔ ۔ پیر صاحب کے چہرے پر وہ ایک خاص کیفیت بھی نظر آتی ہے جو کسی شاعر پر اس وقت طاری ہوتی ہے جب اس کا کلام مغنی اس کے سامنے پیش کرے۔جو نعت پڑھی جارہی ہے اس کا ایک شعر ہے۔ ؎ ہے طُرفہ مزاج اِن کا، دیدار علاج اِن کا عیسٰی ؑ سے نہ اچھے ہوں، بیمار مدینے کے اس شعر پر داد و تحسین کا ایک طوفان برپا ہوجاتا ہے۔ پختہ کار نعت خوان اس شعر کودہراتے ہیں اور ایک بار پھر واہ واہ کی آوازیں آنے لگتی ہیں۔ پیر صاحب ہاتھ کے اشارے سے نعت خوانو ں کو روکتے ہیں اور دوسری نعت پڑھنے کا حکم دیتے ہیں۔ دوسری نعت شروع ہوتی ہے تو نعت خوان اس کی طرز نہیں پکڑ پاتے۔ اس پر پیر صاحب انہیں خاموش کرا کے لفظوں کے استعمال کے بغیر گنگنا کر طرز بتاتے ہیں ایک بار پھر مریدوں کی طرف سے واہ واہ کی آوازیں آتی ہیں کہ ان کا پیر فن موسیقی کا بھی ماہر ہے۔ نعت خوان انہی کے انداز میں نعت شروع کردیتے ہیں۔ اس پر ایک بار پھر پیر صاحب انہیں رکنے کا اشارہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایک سُر اوپر جاؤ۔ جب ایک سُر اوپر جا کر نعت ازسرنو شروع ہوتی ہے تو یہ ویڈیو دیکھنے والا اس مجلس کا حصہ بن چکا ہے۔ چھوٹی بحر کی اس نعت کا پہلا شعر ہے ؎ ماہِ مدینہ ، او شاہ والا ہے جس کے دم سے جگ میں اجالا اس شعر کا ترنم اتنا خوبصورت ہے کہ سیدھا دل میں ترازو ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد کا ایک شعر ہے ؎ امت میں جسﷺ کی ٹھیرا برابر ادنیٰ سے ادنیٰ، اعلیٰ سے اعلیٰ مرحوم نصیر الدین نصیرؒ اس عہدکے نابغہ تھے۔ عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ تقریر، تحریر، شاعری اور موسیقی میں انہیں جو کما ل حاصل تھا وہ کم لوگوں کانصیب ہوتا ہے ۔ میری بدقسمتی کہ میں مواقع اور وسائل ہونے کے باوجود ان کی حیات میں ان سے نہ مل سکا لیکن ان کی موت کے تین سال بعد ہی سہی یوٹیوب نے مجھے ان سے ملنے کا موقع دے دیا۔ یو ٹیوب پر پیر نصیرالدین نصیر مرحوم کی نعتوں سے لے کر تقریروں تک بے شمار ویڈیوز موجود ہیں۔ اگر کوئی شخص پیر صاحب کو دیکھنا اور سننا چاہتا ہے تو اس کے لیے یہ سب کچھ کسی نعمت سے کم نہیں۔پیر صاحب کے علاوہ بہت سے علماء کی نایاب تقریریں، نعتیں اور جلسے دنیا بھر کی تصویر ی یاد داشت کے اس خزانے کا حصہ ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یو ٹیوب پر ہی مسلمانوں کی دل آزاری کا وہ سامان بھی موجود ہے جس کی وجہ سے پچھلے سال ستمبر میں اس پر پابندی لگانا پڑی۔اس بندش کے باوجود یوٹیوب پوری آب وتاب کے ساتھ پاکستان میں دیکھی جاسکتی ہے کیونکہ انٹرنیٹ پر ایسے سافٹ ویئرز موجود ہیں جن کی مدد سے آپ یو ٹیوب تو کیا پابندی کی زد میں آنے والی ہر ویب سائٹ دیکھ اور پڑھ سکتے ہیں۔ یوں یہ پابندی حکومتی کتابوں میں تو موجود ہے لیکن عملی طور پر اس کا نفاذ کہیں نظر نہیں آتا۔ویسے بھی انٹرنیٹ پرموجود مواد پر پابندی لگانے کا مطلب ہے کہ آپ ہو ا کو پابند کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ ایک ملک سے دوسرے ملک کی طرف چلنے سے پہلے ویزا لے لے۔ سوشل ویب سائٹس کی اختراع نے دنیا میں انسانی معاشرے کو غیر معمولی انداز میں متاثر کیا ہے۔ اس وقت دنیا کی آبادی کا چھٹا حصہ ان سائٹس کے ذریعے ایک دوسرے سے منسلک ہے۔ ایک نادیدہ تعلق ہے جو جغرافیائی سرحدیں پھلانگ کر بنی نو ع انسان کے درمیان مکالمے کی بنیاد بن رہا ہے۔ ایک ایسا مکالمہ جو ازخود جاری ہے، جسے کوئی روک سکتا ہے نہ بات کے درمیان ٹوک سکتا ہے۔ ایک دوسرے سے فاصلے کے باوجود آپس میں ہم کلام ہوسکنے کی اس قابلیت کے اثرات اب پوری دنیا میں نظر آرہے ہیں۔ امریکی صدر کا انتخاب ہو یا پاکستان میں ملالہ یوسف زئی پر قاتلانہ حملہ، سوشل میڈیا ہر چیز پر بحث کررہا ہے۔ ہمیں پسند ہویا نہ ہو مذہب، نسل اور قومیت کے امتیاز کو سوشل میڈیا کے رندے نے مٹانا شروع کردیا ہے۔ کہتے ہیں کہ جس شخص کے ہاتھ میں ہتھوڑا آجائے وہ ہر مسئلے کو ایک کیل سمجھ کر اس پر چوٹ ماردیتا ہے۔ ہمارے ہاتھ میں سینکڑوں سال پرانے فتوے ہیں جن کی چوٹ ہم زمانے کی ہر حرکت پر لگا دیتے ہیں اور پیچھے رہ جاتے ہیں۔ زمانے کی اس نئی کروٹ پر ہم نے ایک بار پھراحتجاج کا ہتھوڑا چلا دیا ہے ۔ گندگی کو قالین کے نیچے دھکیل کر سمجھ رہے ہیں کہ طہارت کے سارے تقاضے پورے ہوگئے ہیں۔ غم وغصے کا باعث بننے والا مواد وہیں موجود ہے جہاں تھا، دنیا نے ہمارے فتوے کی پروا کی نہ احتجاج کی۔ہم سمجھے کہ ہم نے نظریں چرا کر میدان مار لیا، انہوں نے یہ سوچ کر نظر انداز کردیا کہ ان کے پاس دلیل ہے نہ طاقت، انہیں احتجاج کرنے دو ہمارا کیا جاتا ہے۔ مولانا جہانگیر محمود سے یوٹیوب کے موضوع پر بات ہوئی تو کہنے لگے ’یوں سمجھو کہ ایک بہت بڑی لائبریری ہے جس میں اچھی بری سب کتابیں موجود ہیں، اب یہ لائبریری میں جانے والے کے ذوق پر منحصر ہے وہ کونسی کتاب پڑھتا ہے۔ کسی بری کتاب کی موجودگی لائبریری کو بند کرنے کا جواز نہیں ہوسکتی‘۔ نصیرالدین نصیرؒ ہوتے تو وہ بھی شاید یہی کہتے اور جرأت سے اس مکالمے کا حصہ بنتے جو اس وقت بنی نوع انسان کے درمیان جاری ہے۔ ؎ مردہ دل ہیں جنہیں عشق میں ہے جان عزیز جو اپنی جان پہ کھیلے، نصیرـؔ کہلائے