اطلاع تھی کہ مطلوبہ شخص یہی ہے جو کراچی کے ایک پسماندہ علاقے کے بوسیدہ سے مکان میں رہتا ہے، لیکن متعلقہ ایس پی کچا ہاتھ نہیں ڈالنا چاہتا تھا، کیونکہ اگر یہ وہی تھا جس کی پولیس کو تلاش تھی تو پھراس کو پکڑنے کے لیے عام انتظامات ناکافی تھے۔ اس علاقے میں پولیس کی گاڑی کا داخلہ ہی اسے ہوشیار کردینے کے لیے کافی تھا اور پھر پولیس کے ہی کئی اہلکاروں پر اس کے کارندے ہونے کا گمان بھی تھا۔ایس پی کے سامنے راستے اور وسائل محدود تھے۔ اسے انہی لوگوں سے کام لینا تھا جن کی وفاداریوں پر بھروسہ تھا‘ نہ صلاحیتوں پراعتماد۔ابھی کچھ کرنے کا وہ سوچ ہی رہا تھا کہ خبر ملی کہ اس کا مطلوبہ شخص دہشت گردی کی کسی نئی واردات کی منصوبہ بندی کررہا ہے۔ کب، کہاں، کیسے، ان سب سوالوں کے جواب مخبر کے پاس نہیں تھے ۔ اس ادھوری اطلاع نے اس کے لیے مہمیز کا کام کیا۔ اب اسے روکنا ضروری تھا، کیونکہ اسے روکا نہ جاتا تو نجانے کتنے گھروں کو یہ درندہ بے چراغ کرڈالتا۔ اب سوائے اس کے کوئی راستہ نہیں تھا کہ اسے روکا جائے اور ہر صورت روکا جائے۔ معاملہ اتنا گھمبیر ہو چلا تھا کہ اب اعلیٰ افسران کوبھی اس میں شامل کرنا ضروری تھا۔سو اس نئے نئے ترقی پائے ہوئے ایس پی نے اپنے باس سے ملاقات کا وقت طے کیا اور اگلے دن اس کے پاس چلا گیا۔ اپنے افسر کے دفتر کے باہر نوجوانوں کا ہجوم دیکھ کر اس نے ڈیوٹی پر موجود پولیس والوں سے اس بارے میں دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ یہ سب لوگ پولیس میں بھرتی کے لیے منتخب ہوئے ہیں اور اپنی اپنی تقرریوں کے پروانے لینے آئے ہیں۔ ان نوجوان پولیس والوں کو دیکھ کر بجلی کے کوندے کی طرح ایک خیال اس کے ذہن میں آیا ۔ اس نے سوچ لیا تھا کہ اسے کیا کرنا ہے۔ اب اس کے پاس اپنے افسر کو دینے کے لیے معلومات بھی تھیں اور منظوری لینے کے لیے ایک منصوبہ بھی۔اس نے فیصلہ کرلیا کہ اپنے شکار کو دبوچنے کے لیے وہ اپنے کچھ با اعتماد ساتھیوں کے ساتھ تازہ بھرتی ہونے والے سپاہیوں کی نفری استعمال کرے گا تاکہ اس آپریشن میں رازداری برقرار رکھی جاسکے ۔ نئے سپاہیوں کے زور پر اتنے خطرنا ک آپریشن کا سنتے ہی اس کے اعلیٰ افسر نے انکار کردیا۔ اس کا کہنا تھا کہ ناتجربہ کار سپاہیوں کو اس خطرناک شخص کی گرفتاری کے لیے استعمال کرنا انہیں موت کے منہ میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔ ’سر ، یہ مجھے بھی اتنے ہی عزیز ہیں جتنے آپ کو لیکن مجھے کوئی دوسرا راستہ بتا دیجیے‘، اس نے التجا کی۔ اعلیٰ افسر کے پاس اس کی دلیل کا کوئی جواب نہیں تھا۔ ’سر میں ضمانت دیتا ہوں کہ ان میں سے کسی کو گولی چھو ئے گی بھی نہیں، کیونکہ میں انہیں رکھوں گا ہی ایسی جگہ جہاں آمنے سامنے فائرنگ کا امکان کم سے کم ہو‘ اپنے افسر کو خاموش دیکھ کر اس کا حوصلہ بڑھ گیا تھا۔ ’ٹھیک ہے، لے جاؤ لیکن خیال رکھنا کہ اگر ان میں سے کسی ایک کو بھی کچھ ہوا توتمہاری آئندہ سروس پولیس لائن میں ہی ہوگی‘، اسے اجازت مل گئی تھی۔ اگلے اڑتالیس گھنٹوں میں اس نے چالیس منتخب نوجوانوں کو پانچ پانچ کے گروپ بنا کر اپنی نگرانی میں کچھ مشقیں کرائیں اور اپنے شکار کوزندہ پکڑنے کی ہدایات دے کر ان کے ساتھ آپریشن کے لیے روانہ ہوا۔ سادہ لباس پہنے ہوئے یہ تمام لوگ رکشوں، ٹیکسیوں اور بسوں کے ذریعے اس جگہ تک پہنچے جہاں انہیں آپریشن کرنا تھا۔ چھوٹی چھوٹی ٹولیوں کی صورت میں ان لوگوں نے اس مکان کا غیر محسوس انداز میں محاصرہ کرلیا جہاں ان کا شکار عام آدمی کے بھیس میں رہ رہا تھا۔ اس آپریشن کی نگرانی کرنے والا ایس پی بذات خود ایک ٹیکسی ڈرائیور کا روپ دھارے ہوئے قریب ہی موجود تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں توقع کے عین مطابق ان کا مطلوبہ شخص اپنے گھر سے باہر نکلا تو ایس پی صاحب ایک عام ٹیکسی ڈرائیور کی طرح اپنی گاڑی آرام سے اس کے قریب لے گئے ، اس نے کسی ردعمل کا اظہار اس لیے نہیں کیا کہ وہ یہی سمجھ رہا تھا کہ ٹیکسی ڈرائیور سواری کی لالچ میں اس کے پاس آرہا ہے۔ قریب آتی ہوئی ٹیکسی جب خاصی قریب آکر بھی نہیں رکی تو اسے کچھ گڑ بڑ کا احساس ہوا۔ لیکن وقت گزر چکا تھا، ٹیکسی کی ایک ٹکر سے وہ زمین پر گر گیا۔ اس سے پہلے کہ وہ سنبھلتا نوآموز پولیس والے اس کے سر پر پہنچ چکے تھے۔ چند منٹوں بعد وہ قریبی تھانے کے ’ڈرائنگ روم ‘ میں بیٹھا پولیس کی تفتیش بھگت رہا تھا۔جب اسے اپنی بے بسی کا یقین آگیا تو اس نے معلومات کے خزانے کا دروازہ کھول دیا۔ کمین گاہیں، اسلحے کا حصول،ساتھی، سرپرست اور نجانے کیا کیا اس سے معلوم ہوا۔ ضابطے کی کارروائی کے تحت اس گرفتار شدہ درندے کو بلوچستان پولیس کے حوالے کرنا تھا۔ کچھ دنوں بعد جب بلوچستان پولیس اسے لینے کے لیے پہنچی اور اسے لے جانے کے لیے اچھی طرح باندھ لیا گیا تو اس نے ایس پی سے کہا: ’میرے لیے سب سے بڑی سزا یہ ہے کہ ایک گولی چلائے بغیر تم نے مجھے پکڑلیا، لیکن مجھے پکڑے رکھنا ان لوگوں کے بس میں نہیں جو مجھے لے جارہے ہیں‘۔ اس کا کہنا سو فیصد درست ثابت ہو ا اور وہ شخص جیل سے فرار ہوگیا۔ فرار ہوکر اس نے جو پہلا کام کیا وہ یہ تھا کہ کراچی کے اسی ایس پی کو فون کرکے کہا کہ ’اب میں تمہیں بھی دیکھ لوں گا‘۔ اس کی زندگی میں دھمکی کوئی نئی چیز نہیں تھی۔ دہشت گردوں کو پکڑنے کے لیے وہ بیس سال سے پاگلوں کی طرح اپنا کام کر رہا تھا۔ اپنی کارکردگی کی بنیاد پر ہی وہ ایک اے ایس آئی سے ترقی کرکے ایس پی بنا تھا،جان کے خوف سے وہ ایک نوجوان افسر کے طور پر اپنے کام سے رکا تھا‘ نہ اب ادھیڑ عمر ایس پی کے طورپر اسے کوئی ڈرا سکتا تھا۔ ایس پی نے یہ دھمکی آمیز فون سنا تو ضرور لیکن بغیر کوئی جواب دیے بند کردیا۔ کچھ ہی دیر گزری تھی کہ میز پر پڑے فون کی گھنٹی ایک بار پھر بجی۔ معلوم ہوا کہ اس کااعلیٰ افسر لائن پر ہے، ادھر ادھر کی باتوں کے بعد اس نے بڑ ی مشکل سے بتایا کہ ’اب تم ایس پی نہیں رہے ، بلکہ آؤٹ آف ٹرن (باری کے بغیر) ترقی پانے کے جرم میں تمہیں ایک بار پھر ڈی ایس پی بنایا جا رہا ہے‘۔ آؤٹ آف ٹرن کی صلیب پر لٹکنے کے باوجود وہ کچھ نہیں بولا البتہ بزبانِ خاموشی ایک سوال ضرور اٹھا دیا کہ اگر اہلیت، دلیری ، محنت اور دیانت کو پرکھنے کا پیمانہ صر ف نوکری میں گزارا ہوا عرصہ ہے تو پھر کوئی کیوں اپنی جان خطرے میں ڈالے گا؟ جب ترقی باری آنے پر ہی ملنی ہے تو کسی کو کیا پڑی ہے کہ وہ محنت کو اپنا شعار بنائے؟ جس ایس پی کی کہانی ابھی آپ کو بتائی گئی ہے وہ ان افسروں میں شامل ہے جنہیں ان کی ترقیوں سے محروم کردیا گیا۔ حالانکہ انہوں نے شورہ پشتوں کو قانون کے شکنجے میں کسنے کے لیے اپنی جانیں لڑا دیں۔ اسی لیے اعلیٰ حکام نے کارکردگی دیکھتے ہوئے انہیں اگلے عہدوں پر ترقیاں دے دیں۔ ان لوگوں نے کراچی کی سیاست کو اپنے سر پر سوار کیا نہ اپنے ماتحتوں میں سستی اور خوف برداشت کیا۔ کامیابی یا ناکامی اپنی جگہ یہ لوگ چاروں طرف سے برستی گولیوں میں بھی بکتر بند گاڑیوں میں بیٹھنے کی بجائے اپنے سپاہیوں کے ساتھ کھڑے رہے۔ دنیا بھر میں اہلیت وہ واحد پیمانہ ہے جس پر سربراہ حکومت کو بھی پرکھا جاتا ہے اور دکان پر کام کرنے والے لڑکے کو بھی۔ لیکن پاکستان میں غیر معمولی کارکردگی اور جاں سپردگی کسی غیر معمولی اعزاز کی مستحق نہیں۔ باری اہم لگتی ہے۔