"HAC" (space) message & send to 7575

دستور کا دوسرا باب

علمِ سیاسیات کا مسلمہ اصول ہے کہ ریاست کمزور ہونے لگے تو گروہ طاقتور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اگر ریاستی ضعف کا علاج نہ کیا جائے تو پھر ایک وقت آتا ہے کہ مختلف گروہ اپنے اپنے مفادات کے لیے ایک دوسرے کے سامنے آ جاتے ہیں۔ ریاستی ادارے جب ایسے تصادم کو روک نہیں پاتے تو اپنی بقا کے لیے کسی ایک گروہ کا حصہ بن جانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ جب کوئی ریاست ایسی صورتحال کا شکار ہو جائے تو اسے خانہ جنگی سمجھا جاتا ہے۔ ایسی ریاستیں اپنے پڑوسی ملکوں اور پوری دنیا کے لیے خطرہ بن جاتی ہیں۔ دوسری جنگ عظیم سے پہلے تک حالت یہ تھی کہ خانہ جنگی کا شکار ملک طاقتور ملکوں کے لیے تر نوالہ ہوا کرتے تھے اور یہ طاقتیں ایسی ریاستوں کو قبضے میں لے کر انہیں اپنا باجگزار بنا لیتی تھیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد براہ راست قبضہ نہیں ہوتا لیکن کبھی اقوام متحدہ کے نام پر، کبھی نیٹو کے بھیس میں اور کبھی کسی اور معاہدے کی آڑ میں عالمی طاقتیں ایسے ملکوں میں ڈیرے ڈال لیتی ہیں۔ برصغیر سے لے کر افغانستان میں پہلے سوویت اور پھر نیٹو افواج کی آمد تک کی تاریخ پر ایک نظر ڈالیں تو معلوم ہو جائے گا کہ کمزور ریاست کا انجام کیا ہوتا ہے۔ ریاست کمزور کیوں ہوتی ہے؟ دنیا بھر کی بنتی مٹتی تہذیبوں اور اجڑتے بستے ملکوں کی تاریخ کو کھنگال کر ماہرین سیاسیات نے ایک کلیہ دریافت کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ ’جب کوئی ریاست اپنی تشکیل کے بنیادی نظریے پر نہ چل پائے تو وہ خانہ جنگی کا شکار ہو کر ٹوٹ جاتی اور انجام کار ختم ہو جاتی ہے۔ یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ اگر وقت گزرنے کے ساتھ کسی ریاست کا نظریہ ناقابل عمل ثابت ہوا اور اس نے بروقت عملی تقاضوں کے مطابق اسے تبدیل کر کے اپنی بقا کا سامان کر لیا۔ دورِ حاضر میں اس کی مثال چین ہے جہاں سخت ترین سوشلزم میں جدید ضروریات کے مطابق ترمیم کرکے اسے حال سے ہم آہنگ بنا لیا گیا ہے۔ رنگ، نسل، زبان، مذہب، جغرافیہ اور معاشیات وہ بنیادیں ہیں جن پر ترتیب دیے گئے نظریات دنیا کے چھوٹے سے چھوٹے ملک میں بھی کارفرما نظر آتے ہیں اور ہر ملک کی حکومت ان نظریات کی کم از کم اپنی سرحدوں کے اندر ضرور ترویج کرتی ہے۔ نظریات کی یہی یکسانیت ملکوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے یا دور لے جانے میں فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے۔ جونہی کسی ملک کی نظریاتی بنیاد کمزور پڑتی ہے‘ ریاستی نظام میں کمزوری کے آثار نظر آنے لگتے ہیں۔ اپنے نظریات کی روشنی میں جب ریاست عمل کا کوئی نقشہ ترتیب دیتی ہے تو اسے آج کی زبان میں ریاستی بیانیہ (Narrative) کہا جاتا ہے۔ یہ بیانیہ طے کرتا ہے کہ دوستوں کی خصوصیات کیا ہیں اور دشمنوں کی پہچان کیا ہو گی، معاشرے میں کن اقدار کو فروغ دینا اور کن روایات کا قلع قمع کرنا ہے، کسی مشکل میں سب سے پہلے کسے پکارنا ہے اور کس کی امداد قبول نہیں کی جائے گی، خودمختاری کی تعریف کیا ہے اور خود سپردگی کی شرائط کیا ہوں گی۔ یہ سب کچھ پہلے ایک نظریے کی کوکھ سے جنم لینے والا بیانیہ بتاتا ہے اور پھر اسی کی روشنی میں ریاست کا ہر ادارہ اپنے اپنے دائرہ کار میں اہداف کا تعین کرکے آگے بڑھنا شروع کر دیتا ہے۔ پاکستان بنانے والوں، اس کے دستور سازوں اور لوگوں کے منتخب کردہ حکمرانوں نے نظریے اور پھر بیانیے کی اہمیت کا احساس کرتے ہوئے ان دونوں چیزوں پر مسلسل کام کیا اور انیس سو انچاس میں نظریے کو قراردادِ مقاصد میں سمو دینے کے بعد انیس سو تہتر کے دستور کے دوسرے باب میں پالیسی کے رہنما اصولوں پر مبنی بارہ آرٹیکل شامل کیے جو پاکستان کا بیانیہ ہیں۔ یہ بیانیہ طے کرتا ہے کہ پاکستانی ریاست کی شکل کیا ہو گی اور اس کی حکومتی مشینری کون سے اہداف کے حصول کے لیے کام کرے گی۔ ہمارے دستور سازوں نے اگرچہ اس بیانیے کو لچکدار رکھا تاکہ حکومت کے پاس ترجیحات کے تعین کی گنجائش رہے لیکن یہ بھی یقینی بنایا کہ عملیت پسندی کے نام پر اس کو کہیں سرے سے نظرانداز ہی نہ کر دیا جائے، اس لیے دستور کے آرٹیکل انتیس کی شق تین میں یہ طے کر دیا گیا کہ ہر سال صدرِ پاکستان اس بیانیے پر عملدرآمد کی ایک رپورٹ قومی اسمبلی کو پیش کریں گے تاکہ عوام کو آگاہ کیا جا سکے کہ ان کی منتخب کردہ حکومت بیانیے میں دیے گئے مقاصد حاصل کرنے میں کس حد تک کامیاب رہی ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو کبھی توفیق نہیں ہوئی کہ اس حوالے سے سالانہ رپورٹ اسمبلی میں پیش کر دیں لہٰذا ہمارے دستور کے اس اہم باب پر کبھی عمل ہی نہیں ہو سکا۔ چالیس سال پہلے لکھے گئے دستور کے اس باب میں تحریر ہے کہ ملک میں اسلامی طرز حیات کو فروغ دیا جائے گا، اقلیتوں کی حفاظت ہو گی، کسی سے تعصب نہیں برتا جائے گا اور امت مسلمہ میں اتحاد کے لیے کوشش کی جائے گی۔ اس متفقہ حکمت عملی کی تیاری میں پاکستان کے ہر طبقے نے شرکت کی۔ ملک میں کوئی ایسا گروہ نہ تھا جسے یہ شکوہ ہوتا کہ اتنی اہم دستاویز کی تیاری میں اس کی آواز نہیں سنی گئی۔ مسئلہ تب شروع ہوا جب حکمرانوں نے اس متفقہ راستے کو چھوڑ کر نئی پگڈنڈیوں پر چلنا چاہا۔ 1988ء سے 1999ء تک ہماری سیاست میں دائیں اور بائیں کا کچھ توازن پیدا ہونے لگا تو جنرل پرویز مشرف نے دستور توڑ کر ایک بار پھر روشن خیال اعتدال پسندی کے نام پر لبرل خیالات کو ریاستی نظریات کی شکل دے کر معاشرے پر تھوپنے کی کوشش کی۔ انہوں نے اسلام، شدت پسندی اور دہشت گردی کو آپس میں اس طرح ملا دیا کہ ہر صاحب ریش خودکش حملہ آور لگنے لگا اور ہر مدرسہ خوکش بمباروں کا گڑھ۔ پھر وہی ہوا جو ہونا تھا، اسلام پسندوں کو معاشرے سے الگ کرنے کی ریاستی کوشش کے نتیجے میں اس طبقے نے تشدد کی راہ اختیار کر لی۔ صورتحال یہ ہے کہ جنرل مشرف کی بے حکمتی کی وجہ سے معاشرے کا ایک فعال طبقہ‘ جس نے مدرسے سے پڑھ کر اور افغانستان میں لڑکر خود کو منوایا، ہماری روایتی حیلہ تراشیوں کی وجہ سے معاشرے کے مرکزی دھارے سے دور جا رہا ہے۔ کبھی ہم ان کی تعلیم کو ملازمت کے لیے ناکافی قرار دے دیتے ہیں اور کبھی ان کے نظریات پر جہالت کا فتوٰ ی لگا دیتے ہیں۔ اپنے ہی بنائے ہوئے اصولوں کو توڑ کر ہم ایک ایسے الجھاؤ کا شکار ہو چکے ہیں جس میں ہمیں امریکہ سے لے کر طالبان تک ہر کوئی دشمن دکھائی دیتا ہے۔ امریکہ سے بات کرنا چاہیں تو غلامی کے طعنے ملنے لگتے ہیں، طالبان سے بات کرنا چاہیں تو دہشت گردی سے ہار مان جانے کی دہائی دی جاتی ہے۔ دستور کا دوسرا باب ہمارے بہت سے ابہام ختم کر دے گا۔ ہمیں معلوم ہو جائے گا کہ ہمیں کیا کرنا ہے، کون ہے جس سے وعدے کرکے ہم نے بھلا دیے تھے، کیوں کوئی قافلے سے الگ ہو کر اپنا راستہ نکالنا چاہتا ہے۔ اگر چالیس سال پہلے لکھے گئے اس بیانیے سے ہمیں اتفاق نہیں تو ہم اسے تبدیل بھی کر سکتے ہیں لیکن ایک نقطۂ آغاز کے طور یہ اچھی ابتدا ہو سکتی ہے۔ شاید اسی طرح ہم یہ بھی سمجھ سکیں کہ عمران خان اور منور حسن ہمیں کیا سمجھانا چاہ رہے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں