"HAC" (space) message & send to 7575

مذاکرات کا گورکھ دھندا

کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے امن تک پہنچنا صرف ہماری ضرورت نہیں بلکہ خود طالبان کے لیے بھی پاکستان میں ان کے اگلے منصوبوں پر عمل درآمد کی بنیادی شرط ہے۔ اگر امن میں ان کی دلچسپی نہ ہوتی توعمران خان اور مولانا فضل الرحمن کی طرف سے مذاکرات میں شمولیت سے انکار ایک نئے ڈیڈ لاک کی پیدائش کا کافی سبب تھا۔ ان دونوں بڑے سیاسی رہنماؤں کے بغیر بھی محض تین رکنی کمیٹی کے ذریعے معاملات کو آگے بڑھانے کا فیصلہ ثابت کردیتا ہے کہ امن کی خواہش دو طرفہ ہے۔ مذاکراتی عمل میں شامل ہوکر وہ بالواسطہ یہ تسلیم کررہے ہیں کہ پاکستان کوئی طاغوتی قوت نہیں جس کے خلاف لڑنے کو لوگ جہاد سمجھنے لگیں اور نہ اتناکمزور ہے کہ اس کے کچھ دفاعی اثاثوں کو تباہ کرکے اس سے اپنی مرضی کی باتیں منوائی جاسکیں۔ یہ پاکستان کے دستور کو ماننے کے مترادف ہی ہے کہ سوائے مولانا عبدالعزیز کے ‘ان کی طرف سے سامنے آنے والے تمام نام وہ ہیںجنہوں نے اختلافات کو دستورکے دائرے میں رہتے ہوئے دورکرنے کی کوشش میں زندگیاں گزاری ہیں۔ اس کے علاوہ طالبان غیر محسوس انداز میں اپنے موقف میں نرمی بھی پیدا کرتے چلے جارہے ہیں۔ رجزاورتقریریں اپنی جگہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ شریعت کے نفاذ سے لے کر قیدیوںکی رہائی تک کوئی مطالبہ ان کی طرف سے ایسا پیش ہی نہیں کیا گیا جسے پورا کرنے کی گنجائش پاکستان کے آئین میں نہ ہو۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ طالبان نے اپنے نظریات سے رجوع کرلیا ہے بلکہ خطے میں آنے والی تبدیلیوں کے باعث ان کی نگاہ میں زمینی حقائق نظریاتی مسائل پر فوقیت حاصل کرگئے ہیں۔ 
زمینی حقائق میں آنے والی تبدیلیوں میں سب سے بڑی امریکہ اور ایران میں تعلقات کا بہتر ہوناہے۔ ماضی میںافغانستان میں ایرانی اثرورسوخ ہمیشہ طالبان کے خلاف استعمال ہوا ہے اور بعض اوقات اتنا خونخوار انداز میں ہوا ہے کہ چنگیز خان اور تیمور لنگ کے ظلم کے افسانے بھی ماند پڑگئے۔اس کے بعد جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو ایران نے اپنے تمام اختلافات نظر انداز کرکے خاموشی سے امریکی حکمت عملی کو سراہا اور جہاں جہاں ممکن ہوا مدد بھی کی۔ ایران کے حمایت یافتہ شمالی اتحاد کو افغانستان میں امریکی آشیرباد بھی حاصل رہی جس کے نتیجے میں طالبان کے بعد قائم ہونے والی حکومت کے سربراہ حامد کرزئی بنے لیکن فوج، بیوروکریسی اور پولیس میں شمالی اتحاد کے لوگوں کو بھرتی کرلیا گیا۔گزشتہ دس سال سے جاری اس امریکی پالیسی کے نتیجے میں افغان فوج کا ساٹھ فیصد اور بیوروکریسی کا اسی فیصد حصہ ان لوگوں پر مشتمل ہے جو شمالی اتحادکے باقاعدہ کارکن ہیں۔
شمالی اتحاد کے برعکس طالبان کے لیے امریکہ ایران تعلقات میں بہتری ایک منفی اتحاد ہے جس کا مقصد انہیں افغانستان میں بے اثرکرنا ہے۔ طالبان کا خیال ہے کہ افغانستان سے امریکہ کی روانگی کے بعد ایران شمالی اتحاد کے ذریعے اپنے اثرو رسوخ میں اضافہ کرے گا اور طالبان کی حکومت (اگر قائم ہوئی) کوغیر مستحکم کرنے کی سازشیں کرتا رہے گا، اس لیے افغانستان میں شمالی اتحاد کے ساتھ طالبان کی ایک جنگ ناگزیر ہے جس سے گزرکر ہی افغانستان میں امارت اسلامیہ کی بحالی ممکن ہے۔ اسی جنگ کی تیاری کے لیے افغان طالبان نے پاکستان کے ساتھ معاملات درست کرنے کی کوشش شروع کردی ہے جس کے پہلے قدم کے طور پر تحریک طالبان پاکستان کو مذاکرات کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ 
تحریک طالبان پاکستان بظاہر الگ وجود اور الگ مقاصد رکھنے کے باوجود افغان طالبان کی بی ٹیم کے طور پر ہی کام کرتی رہی ہے۔ افغانوں نے پاکستان سے بے وفائی کا بدلہ لینے کے لیے بھی اسے استعمال کیا اور فاٹا میں اپنے ٹھکانوں کی حفاظت کے لیے بھی اس کے ذریعے پاکستانی فوج کے ممکنہ حملوں سے خود کو محفوظ رکھا۔ پاکستان کے قانون نافذکرنے والے اداروںکو ٹی ٹی پی کے ساتھ الجھاکرافغان طالبان خاموشی سے پاکستان کو امریکہ کے خلاف اپنے گھرکے پچھلے صحن کی طرح استعمال کرتے رہے۔ ٹی ٹی پی کی یہی افادیت تھی جس کی وجہ سے افغان طالبان نے اس کے بارے میں ایک مبہم سی پالیسی اختیار کیے رکھی۔ کبھی تو یہ تاثردیا جاتا کہ یہ لوگ ملا عمرکے پیروکار ہیں اور کبھی یوں ظاہرکیا جاتا کہ ان کی دہشت پسندانہ سرگرمیوں سے افغان طالبان کا کوئی تعلق نہیں۔ عملی طور پر سراج الدین حقانی نیٹ ورک نے بیت اللہ محسود کے وقت سے ہی ٹی ٹی پی کی شورٰ ی میں اپنی موجودگی برقرار رکھی لیکن اس کا اعلان کبھی نہیں کیا۔ حالات کی تبدیلی نے ٹی ٹی پی کی ضرورت بھی ختم کردی ہے اور ایک بار پھر پاکستان کو اس خطے میں اہم کھلاڑی بنا دیا ہے۔
اب افغانستان میں ایران کی ممکنہ مداخلت کے مقابلے میں افغان طالبان کے پاس سوائے پاکستان کی حمایت حاصل کرنے کے کوئی اور آپشن موجود نہیں ہے ۔ اس مقصد کے لیے افغان طالبان ، حکومت پاکستان اور ٹی ٹی پی میں جاری مذاکرات میں اپنا وزن پاکستان کے حق میں ڈال رہے ہیں اور ٹی ٹی پی کو اپنے افغان سرپرستوں کی ضرورت کا احساس بھی ہے اس لیے وہ کئی سمجھوتے کرتے ہوئے ان مذاکرات میں اپنی بقاء کے سوا باقی سب کچھ نظر انداز کرنے کے لیے تیار ہوجائیں گے۔ 
افغان طالبان کی مجبوریوں کے ساتھ ساتھ پچھلے کچھ دنوں میں سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان ایک بار پھر تعلقات میںگرمجوشی کے اثرات پاک افغان معاملات پر پڑ رہے ہیں۔امریکی دباؤ کے تحت کل تک طالبان جو سعودی عرب کو ایک بوجھ محسوس ہونے لگے تھے اب ایران کو محدود کرنے کے لیے ایک بار پھر اثاثہ لگنے لگے ہیں۔ شام میں سعودی اور ایرانی مفادات کے ٹکراؤ کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ افغانستان میں ایرانی مفادات پر ضرب لگائی جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ایک بار پھر طالبان ، پاکستان اور سعودی عرب کی سرپرستی قبول کرلیں۔اس سعودی خواہش کا جواب طالبان نے ہمیشہ کی طرح سعادت مندی سے دیا ہے اور یوں بھی اس وقت ان کے پاس شمالی اتحاد سے نمٹنے کا کوئی متبادل راستہ نہیں ہے۔ان تمام عوامل کی موجودگی میں ٹی ٹی پی اور حکومت کے درمیان مذاکرات کو محض فاٹا اور پاکستان میں امن وامان کے مسائل حل کرنے کے ایک راستے کے طور پر ہی نہیں بلکہ اس خطے میں آنے والی تبدیلیوں کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ اسی طرح ان مذاکرات کی ناکامی کے لیے کی جانے والی کوششیں بھی محض مقامی نہیں بلکہ ان کا کچھ نہ کچھ تعلق ہماری سرحدوں سے باہر بھی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں