"HAC" (space) message & send to 7575

دہشت گردی کے خاتمے کا سری لنکن تجربہ

2002 ء میں جب سری لنکا کی حکومت نے ایل ٹی ٹی ایلام یعنی تامل ٹائیگرز کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کیا تو تامل ٹائیگرز کے سفاک سربراہ ولوپلائی پربھاکرن کا خیال تھا کہ اس نے دہشت گردی کے ذریعے جو کامیابیاں ملک کے شمالی حصے میں حاصل کی ہیں،انہیں عالمی سطح پر تسلیم کرلیا جائے گا۔ پربھاکرن کسی حد تک یہ سوچنے میں حق بجانب بھی تھا کیونکہ سری لنکن حکومت اور ٹائیگرز کے درمیان مذاکرات کا انعقاد ناروے کے تعاون سے ہورہا تھا۔ ایک تیسرے عالمی فریق کی موجودگی یہ ثابت کرنے کے لیے کافی تھی کہ اس کی چلائی ہوئی تحریک کو عالمی پذیرائی مل رہی ہے اورکسی معاہدے کی صورت میں ناروے عملدرآمد کی مناسب ضمانت بھی دے سکتا ہے۔ جب معاہد ہ ہوگیا تو ناروے اور آئس لینڈ نے تیس رکنی مانیٹرنگ کمیشن ترتیب دیا جس کے ارکان نے اس پر عمل درآمد یقینی بنانا تھا۔2008 ء تک چلنے والے اس چھ سالہ معاہدے پر دستخط ہوتے ہی بظاہر یوں لگا کہ پربھاکرن اور اس کی مسلمہ دہشت گرد تنظیم کو سری لنکا کی منتخب حکومت کے مساوی حقوق حاصل ہوگئے ہیں۔ ایک ہی ملک کے دومتحارب فریقوں کو ایک میز پر بٹھانا ناروے کے لیے کوئلوں کی دلالی ثابت ہوا۔ اقوام متحدہ تک کو یہ اعتراض رہا کہ ناروے اپنے کرائے ہوئے معاہدے کی کامیابی کے لیے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر آنکھیں بند کیے ہوئے ہے۔ سری لنکا کی حکومت کو یہ شکایت رہی کہ مانیٹرنگ کمیشن میں شامل نارویجین افسر تامل ٹائیگرزکے لیے جاسوسی کررہے ہیںاورتامل ٹائیگرزکو یہ گلہ رہا کہ حکومت کی طرف سے معاہدے کی خلاف ورزی پر یہ کمیشن خاموش رہتا ہے۔کئی شکایتوں کے باوجود تامل ٹائیگرز کے ساتھ معاہدے کو برقرار رکھنے میں خود سری لنکا کی حکومت نے بھی غیر معمولی لچک کا مظاہرہ کیا، حتٰی کہ 2005 ء میں اس کے وزیر خارجہ لکشمن کدریکمارکوپربھاکرن کے ہی ایک آدمی نے قتل کردیا لیکن کوئی کارروائی کرنے کی بجائے حکومت نے2006 ء میں اس معاہدے کی تجدید کر دی اور ملک میں کشیدگی بڑھانے سے گریز کیا۔ 
معاہدے کی تجدیدکرنے کے بعد بھی لکشمن کدریکمار کا قتل سری لنکا کی حکومت کو ہضم نہیں ہوسکا۔ اس قتل نے فوجی و سول قیادت کو یکسو کردیا کہ ولوپلائی بھاکرن کے ساتھ معاہدہ اسے قتل و غارتگری کی کھلی چھٹی دینے کے مترادف ہے اس لیے اگر ملک کو محفوظ بنانا ہے تو پربھاکرن اور اس کے تامل ٹائیگرزکا مکمل صفایا ضروری ہے مگر اس نتیجے پر پہنچنے میں سری لنکا کو دو سال لگے اور 2007 ء سے دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کی تیاری ہونے لگی۔ پہلے مرحلے میں خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے ان پندرہ ہزار افراد کی فہرست بنائی گئی جو پربھاکرن کی فوج میں شامل تھے۔ دوسرے مرحلے میں ان میں سے ایسے لوگوں کو چُن چُن کر پکڑا گیا جواس کے کمانڈاسٹرکچر کا حصہ تھے۔ اس کے علاوہ کسی بھی قسم کے ردعمل سے نمٹنے کے لیے شہری علاقوں میں حفاظتی اقدامات اتنے سخت کردیے گئے کہ دہشت گردوں کے لیے کوئی بھی کارروائی کرنا مشکل ہوگیا۔ تامل ٹائیگرز کے خلاف صف بندی مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ سری لنکن حکومت نے پاکستانی فوج کی مدد لے کرانتہائی رازداری سے منصوبہ بندی کی،
ضروری سازوسامان کا بندوبست کیا اورفضائی کارروائیوں کے لیے پاک فضائیہ کی مشاورت حاصل کرلی۔جب یہ سارے انتظامات مکمل ہوگئے تو2008 ء میں سری لنکا کی وزارت خارجہ نے ناروے کی حکومت کو بتادیا کہ تامل ٹائیگرز کے ساتھ سری لنکن حکومت اپنا معاہدہ ختم کررہی ہے۔ معاہدے کے خاتمے کے ساتھ ہی فوج نے بیک وقت کئی محاذوں پر دہشت گردوں کو الجھا لیا اور ولوپلائی پربھاکرن کو اس قابل نہ چھوڑا کہ وہ اپنے اردگرد زیادہ گوریلوںکو جمع کر سکے۔ یوں بھی دہشت گردوں کے خلاف دوسال سے جاری خفیہ کارروائیوں کی وجہ سے ان کے اہم کمانڈروں کو حکومت ٹھکانے لگا چکی تھی اور نئی کمان ایسے لوگوں پر مشتمل تھی جنہیں ایک باقاعدہ فوجی کارروائی سے نمٹنے کا تجربہ ہی نہیں تھا۔ امن معاہدے کا فائدہ اٹھا کر پربھاکرن نے اپنے زیر نگیں علاقے میں پختہ مورچوں کی دفاعی لائن تعمیر کرلی تھی جس کی تباہی کے لیے پاکستانی اسلحہ بہت مؤثر ثابت ہورہا تھا۔آپریشن کے آغاز سے ٹھیک ایک سال پانچ ماہ بعد ولوپلائی پربھاکرن سری لنکا کے ساحلی ٹھکانے پر حملے میں مارا گیا۔ یوں سری لنکا نے تین دہائیوں پر پھیلی ہوئی یہ جنگ جیت لی۔ 
پاکستان اگر چاہے تو سری لنکا کی کامیابی سے چار سبق سیکھ سکتا ہے۔ پہلا سبق تو یہ ہے کہ سری لنکا نے اپنے اندرونی معاملے کو حل کرنے کے لیے ناروے کی ثالثی قبول کرنے کی جو غلطی کی تھی ہم وہ نہ دہرائیں۔اس طرح سے تیسری قوت کی شمولیت سے دہشت گرد وں کو حکومت کے مساوی حیثیت مل جاتی ہے اور تیسرے فریق کی موجودگی میں حکومت اپنا پہل کاری کا حق بھی کھو بیٹھتی ہے۔اس تجربے کے پیش نظر حکومت اور طالبان مذاکرات کے درمیان اگر کوئی دوست ملک سہولت کاری کی کوشش کرے تو اسے محبت سے سمجھا دینا چاہیے کہ اس معاملے میں ہمیں آپ کی ضرورت نہیں۔تاریخ بتاتی ہے کہ حکومت اور باغیوں کے درمیان ثالثی کرانے والے خواہ کتنے ہی مخلص کیوں نہ ہوں آخرکار بغاوت کے خریدار بن کر اسے اپنے مفادات کے تحت استعمال کرنا شروع کردیتے ہیں۔ پاکستانیوں سے زیادہ یہ کسے معلوم ہوگا کہ کل تک ہمارے دوست جن لوگو ں پرسوویت یونین کے خلاف لڑنے کے لیے سرمایہ کاری کرتے تھے آج انہیںہمارے خلاف کارروائیاں کرنے پر انعام و اکرام سے نوازتے ہیں۔ 
دوسرا سبق یہ ہے کہ متاثرہ علاقے سے باہر شہری علاقوں اور اہم تنصیبات کی حفاظت کا انتظام غیر معمولی ہو تاکہ دہشت گرد حکومت کو دباؤ میں لانے کے لیے کچھ کرنا بھی چاہیں تو کرنہ سکیں۔ اس کے لیے ہمیں پولیس اور اندرونی سلامتی کے دیگر اداروں کومتحرک کرنا ہوگا ، انہیں سازو سامان اور تربیت دے کر اتنا مضبوط بنانا ہوگا کہ وہ دہشت گردوں سے نمٹ سکیں۔ اس حوالے سے ایک اہم بات یہ بھی پیش نظر رہے کہ مذاکرا ت کے آغازکا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ انہیں کامیاب ہی ہونا ہے۔ ناکامی کی صورت میں ہمیں دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی تیاری کرتے رہنا چاہیے اور اپنے قانون نافذ کرنے والے اداروں میں وہ تمام اصلاحات کرلینی چاہییں جن کا ذکرابھی کچھ دن پہلے قومی سلامتی کی پالیسی میں کیا گیا تھا۔ 
تیسرا سبق یہ ہے کہ حکومت طالبان سے مذاکرات کے درمیان ان کے خلاف فائر بندی کی صرف فاٹا تک ہی محدود رکھے ، یعنی یہ ضمانت تو دے دے کہ فاٹا میںموجود طالبان کے خلاف زمینی یا فضائی کارروائی نہیں ہوگی لیکن شہری علاقوں میں ان کے نیٹ ورک کو توڑنے کی کوششیں ظاہر و باہر ہونی چاہئیں۔ یہ ممکن نہیں کہ فاٹا میں تو مذاکرات چل رہے ہوں اور ملک کے دیگر حصوں میں بم پھٹ رہے ہوں۔ شہری علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی ہی دراصل فاٹا میں موجود ان کے ذمہ داروں کو مجبورکرے گی کہ وہ مذاکرات میں معقول رویہ اختیار کریں۔ 
چوتھا اور آخری سبق یہ ہے کہ دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائی اسی وقت مؤثر ہوتی ہے جب ان کے ذمہ دار عہدوں پر فائزافراد کو تاک تاک نشانہ بنایا جائے۔ ذرا تصور کریں کہ اگر آج سری لنکا میں ولوپلائی پربھاکرن زندہ ہوتا تو کیا وہاں دہشت گردی تھم سکتی تھی؟ ہم نے سوات میں ایک کامیاب آپریشن کیا لیکن وہاں دہشت پسندوں کے سرغنہ پر قابو نہ پاسکے، نتیجہ یہ نکلا کہ سوات اور فاٹا کے دہشت گردمتحد ہوکر پاکستان کے مقابلے پر آگئے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں