"HAC" (space) message & send to 7575

بستیاں چاند ستاروں پہ بسانے والو!

چند دن پہلے کی بات ہے کہ سرگودھا شہر کے ایک محلے میں اچانک گٹر ابلنے لگے، یہاں رہنے والوں نے اس مصیبت کا سبب جاننے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ ایک قریبی سیوریج ڈسپوزل سے نکلنے والی پائپ لائن پھٹ جانے کی وجہ سے اس علاقے کے گٹروں کا پانی شہر کے سیوریج سسٹم میں نہیں ڈالا جاسکتا اور یہ لائن اسی وقت ٹھیک ہوگی جب سرکار کی طرف سے مطلوبہ رقم مہیا ہوگی۔ فطری طور پر متاثرین علاقہ نے پوچھا کہ یہ رقم کب ملے گی تو جواب میں ڈسپوزل پر مامور شخص نے آسمان کی طرف انگلی اٹھاکر سمجھادیا کہ اسے اس بارے میں کچھ پتہ نہیں۔ محلے کے سرکردہ لوگوںنے یہ جواب سن کر بھاگ دوڑ شروع کردی کہ متعلقہ سرکاری محکمہ انہیں اس مصیبت سے نجات دلانے کے لیے جاگ جائے۔ ایک وفد متعلقہ محکمے کے ذمہ داروں سے ملا، کچھ سفارشیں ڈلوائیں ، کچھ رمضان کا رونا رویا توانہوں نے کاغذات تیار کرکے فائل آگے بڑھا دی۔ اس اہم کامیابی کے بعد خیال تھا کہ ایک آدھ دن میںکام شروع ہوجائے گا اور محلے والوں کی اس غلاظت سے جان چھوٹ جائے گی، لیکن یہ خیال خام ہی نکلا۔ وفد ایک بار پھر متعلقہ محکمے پہنچا تو معلوم ہوا کہ اس کام کے لیے ضلعے کے ڈی سی او کی منظوری درکار ہے ، جیسے ہی وہ ملتی ہے کام شروع کردیا جائے گا۔ اب لوگوں نے ڈی سی او کے دفتر کا رخ کیا کہ صاحبِ ضلع سے مل کر درخواست کی جائے کہ وہ مطلوبہ فائل پر اپنے دستخط فرما دیں تاکہ اس پائپ لائن کی مرمت کا کام شروع ہوسکے۔ خیر جب یہ وفد ڈی سی او کے دفتر 
پہنچا تو معلوم ہوا کہ صاحب موجود نہیں۔ سوال کیا گیا کہ آنجناب کب تشریف لائیں گے،بتایا گیا کہ معلوم نہیں کیونکہ صاحب وزیراعلٰی کے حکم پر شہر میں لگے رمضان بازاروں کی نگرانی میں ہمہ تن مصروف ہیں۔لوگوں نے ہار ماننے کی بجائے اگلے روز پھر حاضری بھری لیکن صاحب رمضان بازاروں کے چکر میں دفتر نہ آسکے، اس سے اگلے دن بھی یونہی ہوا تو محلے کے نوجوان چھلکنے لگے۔ انہوں نے پروگرام بنایا کہ وہ عین اس وقت 'صاحب‘ کو جا لیں گے جب وہ رمضان بازار کی نگرانی فرما رہے ہوں گے۔ ابھی یہ پروگرام عمل میں نہیں آیا تھا کہ اسی محلے میں رہنے والے ایک صحافی نے ایک شام ڈھونڈ ڈھانڈ کر ڈی سی او کو اس کے دفتر میں جا پکڑا۔ کچھ تکرار اور کچھ پیار کی گفتگو کے بعدڈی سی او صاحب نے مطلوبہ کاغذ پر دستخط ثبت فرمائے اور سرکار پھٹی ہوئی پائپ لائن مرمت کرنے کے لیے حرکت میں آگئی۔ جب کام شروع ہوا تو چند گھنٹوں میں مکمل بھی ہوگیا اور اہل علاقہ کو دس دن بعد اس غلاظت سے نجات تو مل گئی لیکن یہ بات سارے شہر کو معلوم ہوگئی کہ رمضان کے دوران صوبے بھر میں کچھ بھی ہوجائے، سرکار اور اس کے اہلکار صرف اور صرف رمضان بازاروں کے نظام کو ہموار رکھنے میں ہی مصروف رہیں گے۔ اور پھر ایک سرگودھا پر ہی کیا موقوف ، کسی بھی شہرمیں کسی بھی صوبائی د فتر کی خبر لیجیے آپ کو معلوم ہو گا کہ خالی دفتر بھائیں بھائیں کررہے ہیں اور عملہ رمضان بازاروں میں آلو ، پیاز کے معاملات میں سرگرداں ہے۔ وزیراعلیٰ سے لے کر وزیر تک اور چیف سیکرٹری سے لے کر پٹواری تک ساری کی ساری پنجاب حکومت رمضان بازاروں سے باہر آہی نہیں رہی۔اس معاملے میں حکومتی عزم کی مضبوطی ملاحظہ ہو کہ ایک ضلع میں رمضان بازار میں لگے ٹماٹروں کے ٹھیلے سے گزرتے ہوئی 'سرکار‘ کی نظر ایک خراب ٹماٹر پر پڑی تو آپ نے فوری طور پر ساتھ موجود ڈی سی او کی سرزنش کی اور ان کا اندراج نا پسندیدہ افسران کی فہرست میں کر ڈالا... کیا حکومت یوں چلتی ہے؟ 
مشکل یہ ہے کہ ہمارے پاس وزیر اعلیٰ ایک جبکہ مسائل لاتعداد ہیں، جن میں رمضان کے دوران قیمتوں کو مناسب سطح پر رکھنا بھی شامل ہے۔رمضان بازار حکومت کی طرف سے آزاد منڈی کی معیشت میں بلاوجہ دخل اندازی کی ایک ایسی کوشش ہیں جس کی حمایت کرنے والے لوگوں کی تعداد ہر گزرتے دن کے ساتھ کم ہوتی چلی جارہی ہے۔ جدید دنیا میں منڈی کے اندر حکومت کا کردار صرف اتنا ہے کہ وہ چند منتخب اشیائے ضرورت کی مصنوعی قلت نہ پیدا ہونے دے۔ اگر حکومت طاقت کے زور پر تاجروں کو ایک خاص قیمت پر مال بیچنے پر مجبور کرے گی تو اس عمل کو فی زمانہ مستحسن کہنا ایک مشکل کام ہے۔ پھر رمضان بازاروں کی مبلغ افادیت کا اندازہ یوں بھی لگا یا جاسکتا ہے کہ کوئٹہ میں بلوچستان کی حکومت کئی مضحکہ خیز کوششوں کے باوجود بھی رمضان بازار نہیں لگوا سکی لیکن وہاں کھلی منڈی میں اشیاء صرف کی قیمتیں تقریباََ وہی رہیں جو اس وقت پنجاب میں ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ رمضان میں خصوصی بازاروں کا انتظام کارِ فضول ہے لیکن عرض صرف اتنی ہے کہ اس کام پر صرف ہونے والی حکومتی توانائی اور اس کے نتیجے میں عوام کے دوسرے کاموں میں تاخیر کی بھی کوئی قیمت ڈال لی جائے تو میزان حکومت کے لیے کوئی حوصلہ افزا تصویر پیش نہیں کرتا۔ اس کے برعکس جتنی کوشش اور منصوبہ بندی ان بازاروں کے لیے کی گئی ہے اگر اتنے ہی دن پنجاب پولیس کو درست کرنے کے لیے لگا لیے جائیں تو شاید بغیر کسی سرمائے کے پنجاب کے عوام کو جو میسر آئے وہ کئی سالوں بلکہ دہائیوں تک کے لیے کافی ہو۔ ان خصوصی بازاروں پر صرف ہونے والی توانائی اگر صوبے میں تعلیم کے نظام کو درست بنیادوں پر استوار کرنے پر لگا دی جائے تو حکومت پنجاب کا یہ احسان کئی نسلیں یاد رکھیں یا اتنا کام بلدیاتی نظام وضع کرنے کے لیے کیا گیا ہوتا تو اب تک ہمارے وزیر اعلیٰ کے پاس ایک ایسی کامیاب ٹیم ہوتی جو ان کے سیاسی ویژن کو یونین کونسل تک میں نافذ کرکے دکھا دیتی۔ گویا ٹھوس انداز میں آگے بڑھنے کے کئی راستے ہیں جو ذرا سی توجہ کے منتطر ہیں ، لیکن...
یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ لاہور میں لاکھوں لوگوں کے لیے میٹرو کی سہولت، جگہ جگہ ٹریفک کے بہاؤ کو رواں رکھنے کے لیے بنائے گئے پُل اور دانش سکول (اگرچہ یہ بھی رمضان بازاروں جیسا ہی ایک منصوبہ ہے) ہمارے وزیراعلیٰ محمد شہباز شریف کی غیر معمولی قوتِ عمل کے ثبوت ہیں لیکن پنجاب کے رہنے والے ان سے کچھ اور بھی توقع کرتے ہیں۔ لوگ چاہتے ہیں کہ ان کے محبوب وزیر اعلیٰ کی عملیت پسندی کے ساتھ ان کی قوتِ فکر بھی نظام کی بہتری کے لیے بروئے کار آئے اور وہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے نظام کو ایک جہت عنایت فرما دیں۔ وزیر اعلیٰ کی سخن فہمی کی نذر احمد فراز کا ایک شعر ہے ۔ ؎
بستیاں چاند ستاروں پہ بسانے والو
کرّہ ارض پہ بجھتے چلے جاتے ہیں چراغ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں