پاکستان ریلوے کا سات ہزار سات سو اکانوے کلومیٹر لمباٹریک ساحل سمندر سے شروع ہوکر قراقرم کی ترائیوں میں جا رکتا ہے۔ سندھ کے ریگستان ،پنجاب کے میدان، خیبر کے پہاڑ اور بلوچستان کے بیابان میں بچھی یہ پٹڑی قرب و جوار میں پھرتے ہوئے چرواہے کوبھی احساس دلاتی ہے کہ وہ ایک بڑے ملک کا شہری ہے۔ یہ محکمہ بڑا بدحال ہے، اسے نااہلی اور بدعنوانی کا بھی سامنا ہے لیکن پھر بھی اس محکمے کے لوگوں نے اس ٹریک کو بچا رکھا ہے اور اس لمحۂ موجود میں بھی اس پر کئی ٹرینیں مسافروں کو لیے ہوئے ، شور مچاتی اپنی اپنی منزل کی طرف بڑھ رہی ہوں گی۔ ان کے راستے میں آنے والے ہزاروں پھاٹک گاڑی آنے سے پہلے بند ہورہے ہوں گے اور اس کے گزر جانے کے بعد کھل جائیں گے۔ کسی نامعلوم اسٹیشن سے گزرتے ہوئے کوئی شخص رات کو ہاتھ میں سبز روشنی اور دن میں ہری جھنڈی لیے انجن ڈرائیور کو پیغام دے گا کہ چلتے رہو، ابھی کچھ نہیں بگڑا۔ لمبے سفر پر جانے والی کوئی گاڑی کسی اسٹیشن پر رکے گی اور ایک تازہ دم ڈرائیور اس کو لے کر آگے بڑھ جائے گا۔ خدا نخواستہ کہیں کوئی خرابی ہوئی تو اسی موئی مُکی ریلوے کی امدادی ٹرین موقعے پر پہنچ جائے گی اور وہ سب کچھ کرے گی جو اس کے بس میں ہوگا۔ عید کے دن جب ہم سب قربانی میں مصروف ہوں گے تو کوئی نامعلوم شخص ایک خالی ٹرین کو پٹڑی پر دوڑا رہا ہوگا کیونکہ اسے بتایا گیا ہے کہ تم پاکستان ہو، تمہیں کسی قیمت پر نہیں رکنا،چلتے رہنا ہے، گھسٹ کر ہی سہی بس چلتے رہو۔ ہانپتے ہوئے انجنوں اورکانپتی ہوئی بوگیوں پر مشتمل یہ پاکستان ریلوے پھر بھی اتنی حوصلہ مند ہے کہ بلٹ ٹرین چلانے کی سوچتی ہے ۔ اسے سوچنا بھی چاہیے کیونکہ اس گئے گزرے حال میں بھی یہ دنیا کی ساتویں بڑی ریل سروس ہے۔
یہ سڑک جو آپ کے گاؤں کے قریب سے گزرتی ہے، یہ راستہ جو آپ کے گھر سے ہوتا ہوا ایک بڑی سڑک سے ملتا ہے دراصل دولاکھ ساٹھ ہزار سات سو ساٹھ کلومیٹر طویل ایسے نیٹ ورک کا حصہ ہے جسے استعمال کرتے ہوئے آپ پاکستان کے کسی بھی حصے میں جاسکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے آپ کی منزل کے عین دروازے تک یہ سڑک نہ جائے لیکن یہ طے ہے کہ جہاں یہ سڑک آپ کو چھوڑے گی وہاں سے آپ کی منزل چند فرلانگ سے زیادہ دور نہیں ہوگی۔ آپ کی سہولت کے لیے ان سڑکوں پر ایک کروڑ پانچ لاکھ چالیس ہزار گاڑیاں دوڑتی رہتی ہیں ۔ بڑے شہروں کے درمیان آپ اپنی سہولت کے مطابق کسی بھی وقت ان میں سے کوئی ایک گاڑی منتخب کرکے سفر کرسکتے ہیں، کسی دور دراز جگہ تک پہنچنے کے لیے تھوڑی سی منصوبہ بندی کرنی پڑے گی لیکن آپ نے کسی گلیشیر پر جانا ہے یا کسی صحرائی بستی میں اڑتالیس گھنٹے کے اندر اندر آپ کہیں سے بھی اپنے مطلوبہ مقام تک با آسانی پہنچ جائیں گے۔ صرف ایک فیصد امکان ہے کہ کہیں کوئی حادثہ ہوجائے لیکن خرابی کا اتنا امکان تو گھر
میں بیٹھے ہوئے شخص کو بھی ہوتا ہے۔ ہو سکتا ہے جس سڑک پر آپ کا آنا جانا ہو ، اس میں کمیشن کھایا گیا ہویا اس کی کوالٹی آپ کو اچھی نہ لگے لیکن ایک راستہ آپ کے لیے میسرہے جو آپ کے گھر کو دنیا میں سڑکوں کے بیسویں بڑے جال سے جوڑ دیتا ہے۔
معاشی اعتبار سے پاکستان دنیا کے کئی ملکوں سے بہت پیچھے ہے۔ یہاں درست پالیسیاں نہیں ہیں، امن و امان کی حالت ٹھیک نہیں ،لوڈ شیڈنگ ہے، ٹیکسوں کے نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے وغیر ہ وغیرہ وغیرہ۔ ان سب خرابیوں کے ساتھ ہم دنیا میں کپاس پیدا کرنے والے دس بڑے ملکوں میں سے ایک ہیں۔اس کپاس کا بڑا حصہ یہیں کی ٹیکسٹائل ملوں میں جا کر کپڑے میں تبدیل ہوکر دساور چلا جاتا ہے۔ کسی وجہ سے یہاں کپاس کی پیداوار کم ہو تو دنیا میں اس کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں اور زیادہ ہوجائے تو امریکہ کی اجناس منڈی میں بھی قیمت گرنے لگتی ہے۔ صنعت کے میدان میں پاکستان بہت کمزور ہے لیکن چند افراد کے خلوص نیت کو ایٹم بم میں ڈھال سکتا ہے، اسی کمزوری کے ساتھ میزائل بنا کر اپنی طاقت دکھا سکتا ہے۔ بغیر کسی بڑے صنعتی ڈھانچے کے ٹینک بنا سکتا ہے، بہت گیا گزرا ہوکر بھی ایسی بندوقیں بناتا ہے جنہیں اس کرہّ ارض پر ہر سپاہ پیشہ بہترین سمجھتا ہے۔ بہت سی خرابیوں کے بعد بھی پاکستان دنیا کی چوالیسویں بڑی اقتصادی قوت ہے۔
پاکستان کی فوج اپنی پیشہ ورانہ اہلیت کی بنیاد پر اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کو بھی خاک چاٹنے پر مجبور کرسکتی ہے۔ یہ ایسے ہتھیاروں سے مسلح ہے جن کی موجودگی اس کے دائرہ اثر کو کئی گنا بڑھا دیتی ہے۔عالمی سیاست میں ہماری کوئی قدروقیمت نہ سہی لیکن جنوبی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ میں ہمیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ہمارے جوان صحراؤں کی جلا دینے والی گرمی میں بھی لڑ سکتے ہیں اور پہاڑوں کی جما دینے والی سردی میں بھی۔ ان کے گھوڑے بحر ظلمات میں بھی اتر جاتے ہیں اور ان کے شاہین آسمان کی وسعتوں کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔اس فوج کے جوان مغرب میں دہشت گردوں کا مقابلہ کرتے نظر آتے ہیں تو مشرق میں اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کی آنکھوںمیں آنکھیں ڈالے بیٹھے ہیں۔یہ دنیا کی ایسی فوج ہے جس کا ایک سپاہی محاذ پر شہید ہوتا ہے تو دوسرا ہنستا ہوا اس کی جگہ لے لیتا ہے۔ ہم خود کو کچھ سمجھیں نہ سمجھیں، اہل ِزمانہ ہمیں ساتویں بڑی فوجی قوت تسلیم کرتے ہیں۔
یہ سب کچھ بتانے سے خدا نخواستہ یہ ثابت کرنا مقصود نہیں کہ ملک میں سب اچھا ہے، صرف یہ بتانا ہے کہ شاہراہِ دستور پر دھرنا دیے ہوئے لیڈروں کے پاکستان کے بارے میں فرمودات کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت نہیں۔ یہ لوگ پاکستان کی خرابیاں گنوا کر نئی نسل کو احساسِ کمتری میں مبتلا کرکے اس قوم سے آگے بڑھنے کا حوصلہ چھین لینا چاہتے ہیں۔ ایک دستور کی الٹی سیدھی تشریح کرکے عوام کے ذہنوں سے اس متفقہ دستاویز کی تقدیس محو کرنا چاہتا ہے تو دوسرا انتخابی عمل پر سوالیہ نشان لگا کر اس کے نتائج اپنی مرضی سے تحریر کرنے کے درپے ہے۔ ایک انقلاب کی آڑ میں اپنے اقتدار کے چکر میں ہے تو دوسرا دھاندلی کے نام پر وزارت عظمٰی کے خواب دیکھ رہا ہے ۔ ایک خود کینیڈا کے برف زاروں کا مکین ہے تو دوسرے کا خاندان تاج برطانیہ کا وفادار بن کر وہیں مقیم ۔نجانے وہ کون ہے جو ہر شام ان کی شکستہ امیدوں کو سہارا دیتا ہے کہ یہ پھر سے اس ملک اور نظام کو گالیاں دینے لگتے ہیں۔ کیا انہیں دن کی روشنی میں وہ پاکستان نظر نہیں آتا جس کو چلانے کے لیے کروڑوں لوگ دن بھر مزدوری کرتے ہیں؟ یہ تسلیم کہ دنیا میں پاکستانی جمہوریت کا ریکارڈ کچھ اچھا نہیں لیکن ہمیں اچھا لگے اگر یہ دونوں اپنی اپنی تقریروں میں آج ایک ایسے ملک کا نام بھی بتا دیں جہاں وہ قانون ساز وں کو گالیاں دے سکیں اور مقننہ کے سامنے بیت الخلا ء بنا سکیں۔ یہ عیاشی پاکستان میں ہی ہوسکتی ہے ، اسی لیے تو کہتے ہیںپاکستان زندہ باد!