"HAC" (space) message & send to 7575

کانٹوں کی کاشت

برطانیہ کے ایک شہر میںاپنی انتخابی مہم کے دوران لیبر پارٹی نے ایک جلسہ کیا جس میں لوگوں کی شرکت بھرپور تھی۔ حاضرین کے لیے نشستوں کا معقول انتظام تھا۔ موسم خوشگواراور مقررین بھی خوب تھے لیکن کئی تقریروں کے بعدبھی عوام میں وہ ولولہ نظر نہیں آرہا تھا جو انہیں نعرے لگانے پر آمادہ کرسکے۔ یوں لگ رہا تھا کہ جلسے میں جیتے جاگتے لوگ نہیں بلکہ کاٹھ کے بُت بیٹھے ہیں جن پر کسی فقرے کا ، کسی اعلان کا کوئی اثر ہی نہیں ہورہا۔ یہ صورت حال دیکھ کر منتظمین نے پروگرام میں کچھ تبدیلی کی اور مقررین کی تعداد میں کمی کرتے ہوئے بہترین تقریر کرنے والے لیڈر کو دعوت خطاب دے دی۔ اس نے ڈائس پر آکر گفتگو کا آغاز کیا لیکن پھر بھی مجمعے میں کوئی حرکت نظر نہ آئی۔ جلسے کا یہ رنگ دیکھ کر اس نے اپنی طرف سے شگفتگی پیدا کرنے کی کوشش کی، بولا : ''یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس جلسے میں ہماری حریف کنزرویٹو پارٹی کا کوئی آدمی موجود ہے‘‘۔ سوالیہ انداز میں کہے گئے اس فقرے کے جواب میں ایک بوڑھا شخص کھڑا ہوا اورکنکھارکرکہا:''ہاں میں ہو ں کنزرویٹو پارٹی میں‘‘۔ شوخ مقرر نے پوچھا:کیا وجہ تھی کہ آپ نے کنزرویٹو پارٹی میں شمولیت اختیار کی؟ '' اس لیے کہ میرا باپ بھی اسی پارٹی میں تھا‘‘، بوڑھے نے جواب دیا۔ ''یہ بتائیے اگر آپ کے والد چور ڈاکو ہوتے تو آپ کہاں ہوتے‘‘، مقرر نے طنزیہ انداز میںجملہ پھینکا۔ بوڑھے نے کہا: ''لیبر پارٹی میں‘‘۔ 
یہ واقعہ نما لطیفہ، لطائف کے اس ذخیرے کا ایک نمونہ ہے جو برطانیہ کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کی باہمی کشمکش کے نتیجے میں عوامی ادب کے طور پر وجود میں آیا۔ اس طرح کے لطیفے امریکہ میں بھی ڈیمو کریٹ اور ری پبلکن پارٹیوں کے کارکنوں نے ایک دوسرے کے بارے میں گھڑ رکھے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک دن ڈیموکریٹ پارٹی کے دفتر فون کرکے کسی نے پوچھا کہ فلاں ریاست سے سینٹ کے انتخابات لڑنے والا ری پبلکن پارٹی کا امیدوار کون ہے؟ فون سننے والے نے ایک لمحہ انتظار کرانے کے بعد اس کا مطلوبہ نام بتا کر پوچھا کہ جناب آپ نے ان معلومات کے لیے ری پبلکن پارٹی کے دفتر فون کیوں نہیں کیا؟ جواب ملا: ''میں ری پبلکن پارٹی کے دفتر سے ہی بول رہا ہوں‘‘۔
تھوڑا سا غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان لطیفوں میں بھی سیاسی جماعتوں نے اپنے حریف کو نشانہ تو بنایا ہے لیکن بڑی فنکاری سے اپنی اہلیت بھی واضح کر دی ہے۔ اس انداز میں بات کہنے کا ہنرگہری ریاضت مانگتا ہے، برطانوی اور امریکی سیاستدانوں کی یہ خوبی ماننا پڑے گی کہ وہ اپنے حریف کو گالی دیے بغیر بھی سخت سے سخت بات کہہ جاتے ہیں۔ اپنے مخالف کو حکومت سے باہر نکالنے کے مسلسل جتن کرنے کے باوجود ان میں سے کوئی بھی اس طرح کی زبان استعمال نہیں کرتا جو ایک ہی ملک میں رہنے والوں کو ایک دوسرے سے لڑا دے۔ اپنی تقریروں میں یہ دوسرے ملکوں کے بارے میں جتنی بھی زبان درازی کا مظاہرہ کریں، اپنے وطن میں اپنے مخالفین کے بارے میں بات کرتے ہوئے غیر معمولی طور پر محتاط رہتے ہیں۔ ان کے سیاسی کارکن ایک دوسرے سے کتنا ہی اختلاف کیوں نہ کریں،کبھی کسی کا گریبان نہیں پکڑتے۔ مسلسل جمہوریت نے انہیں اتنا مہذب ضرور بنا دیا ہے کہ اپنے بد ترین
مخالف کو بھی تحمل کے ساتھ سنتے ہیں ۔ بات کرنے والے کو یہ خوف نہیں ہوتا کہ کوئی اس کے گھر کے سامنے دھرنا دے گا یا راستے میں کہیںمخالف نوجوان مردہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے اسے گھیر لیں گے۔ جیسے ملتان میں چند دن پہلے نشتر میڈیکل کالج کے چند طالبعلموں نے جاوید ہاشمی کو اس قصور میں گھیر لیا کہ انہوں نے تحریک انصاف چھوڑکر آزادانہ روش اختیارکرلی ہے۔
جاوید ہاشمی نے اچھا کیا یا برا کیا ، جو بھی کیا اپنی سمجھ کے مطابق ٹھیک کیا، یہ ان کا ایسا حق ہے جس کی حفاظت کے لیے دنیا کا ہر جمہوریت پسند شخص جدوجہد کرتا رہتا ہے۔اختلاف کرنے کے حق کے لیے پاکستان کے جمہوریت پسندوں نے بڑی قربانیا ں دی ہیں، آمریت بھگتنے کے بعد اپنے اختلافات کو قانون و دستور کی حدود میں رکھنا سیکھا ہے۔جنرل پرویز مشرف کو اقتدار سے نکالنے کے بعد پچھلے کئی سالوں سے یہ جمہوریت پسنداپنی بلوغت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی روش پرگامزن ہیں لیکن اب محسوس ہورہا ہے کہ انقلاب اور آزادی کے نقیب اپنے اپنے حامیوں کے ذریعے ملک میں عدم برداشت کا ایک ایسا کلچر پروان چڑھانے کی کوشش کررہے ہیں جو ایک بار جڑ پکڑگیا توہمارے معاشرے میں قائل کرنے کے لیے دلیل نہیں دی جائے گی بلکہ مکّے یا نعرے سے فریق مخالف کو زیرکرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اگر ناگوار نہ گزرے تو عرض ہے کہ طالبان میں سوائے اس کے کیا خرابی ہے کہ وہ ڈنڈے اورکفرکے فتوے کو بطوردلیل استعمال کرتے ہیں؟ 
پاکستان کے سیاسی کارکنوں کی یادداشت سے 1990ء کی دہائی میں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے درمیان ہونے والی سر پھٹول محونہیں ہوئی۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ ایک دوسرے کے خلاف جھوٹے مقدمات کے اندراج سے لے کر مارکٹائی تک کے سب ہتھکنڈے استعمال ہوتے تھے۔ اس دورکی پیدا کی گئی تلخیوں میں سے بعض آج بھی ہمارے معاشرے میں موجود ہیں۔کوئی مانے یا نہ مانے سیاست میں برداشت اور تحمل کی نئی روایات کو متعارف کرانے کا سہرا مشترکہ طور پر آصف علی زرداری اورنواز شریف کے سر بندھتا ہے۔ آصف علی زرداری نے حکومت میں ہوکر غیر معمولی برداشت کا ثبوت دیا تو نواز شریف نے بھی متوازن تنقیدکو اپنا شعار بنایا۔ اگرچہ ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف کی زبان پر الٹا لٹکانے، پیٹ پھاڑنے اور سڑکوں پر گھسیٹنے جیسی تراکیب رہیں لیکن دوسری طرف سے ان کے نہلوں پر دہلے نہیں مارے گئے تو وہ بھی ٹھنڈے ہوگئے یا کردیے گئے۔ آصف علی زرداری کے دور میں حکومت پر تنقیدکی نئی قسم ایس ایم ایس کے ذریعے لطائف کی صورت میں سامنے آئی۔ اس میں بھی اکثر جگہ نا تجربہ کاری اورپھکڑ پن نظر آیا لیکن جب اس وقت کے وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے حسبِ توفیق ان پیغامات پر پابندی لگانے کی بات کی تو وہ فنکارانہ لطائف تخلیق ہوئے جن میں کسی 'نامعلوم‘ شخصیت کی چٹکیاں لے کر آخر میں لکھ دیا جا تا تھا''سمجھ تے گئے ہوووگے‘‘ (سمجھ تو چکے ہوں گے آپ)۔ سیاسی کلچر میں شائستگی کا پہلا بڑا مظاہرہ د وہزار تیرہ کی الیکشن مہم میں نظر آیاجس میں نفرتیں ابھارکر ووٹ نہیں مانگے گئے تھے۔ عمران خان نے ایک تازہ دم کھلاڑی کے طور پرتنقید کے دائرے کو وسیع تو کیا لیکن اوئے، توئے تک بات نہیں پہنچی۔پھرچودہ مہینے بعد نجانے کیا ہوا کہ اپنے دھرنے میں انہوں نے اپنے مخالفین کے بارے ہر وہ بات بر سرِعام کہی جو بے تکلف مجلس میں کہنا بھی مشکل ہے۔ ا ن کے ساتھ شیخ الاسلام قبلہ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری نے جو کچھ فرمایا وہ تو اس قابل بھی نہیں کہ کوئی اسے دہرانے کی جرأ ت بھی کرسکے کیونکہ اس کے لیے جن علوم میں رسوخ کی ضرورت ہے وہ ہرکس و ناکس کے بس کی بات نہیں۔ ان دونوں حضرات نے جس 'بلاغت‘ سے اپنے مخالفین کے لتے لیے ہیں اب ان کے پیروکار بھی دھرنا سکول کی اس تربیت کے بعد ان سے چند قدم آگے بڑھ کر ہی اپنے موقف کی تائید میں دشنام طرازی کرتے ہیں۔ ان دونوں رہبروں نے جس دل جمعی سے دوڑو،گھیر لو، پکڑو، مارو کا سبق پچھلے ڈیڑھ ماہ میں نوجوانوں کو پڑھایا ہے، اب اسے بھگتنے کا وقت آگیا ہے۔ نفرت کی جو خارآور فصل شاہراہ دستور پر آزادی و انقلاب کے کھیتوں میں کاشت ہوئی تھی، جاوید ہاشمی کو کاٹنی پڑ رہی ہے۔ تجربہ تو یہ بتاتا ہے کانٹے بونے والوں کے اپنے ہاتھ بھی چھلنی رہتے ہیں، خدا کرے کہ نفرت کے اس بیوپار میں عمران خان کا دامن یا شیخ الاسلام کی دستار محفوظ رہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں