کوتاہ نظری کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہوگا کہ انتخاب کے بعدکا پہلا سال حکومت میں شامل لوگوں نے اچھے اچھے کپڑے پہن کر گزار دیا ، اس کے بعد شیخ الاسلام اور عمران خان نے ان کی مشکیں ایسی کسیں کہ کوئی کام کرنا تو دور کی بات ان کے لیے منمنانا بھی مشکل ہوچکا ہے۔ ان کے اوسان اتنے خطا ہوچکے ہیں کہ بجلی والے صاحب کو یہ یاد نہیں کہ بجلی کی کمی پوری کرنے کے لیے انہیں کیا کرنا ہے اور ریل والے کو یہ بھول گیا ہے کہ اس ادارے کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا ان کی ذمہ داری ہے۔ معاشی پہیے کو حرکت میںر کھنے کا بوجھ جن پر ہے وہ سب کچھ دھرنے والوں پر ڈال کر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ دھرنے ملکی نظام کو ٹھکانے لگانے کی ایک گہری سازش تھے لیکن مسلم لیگ (ن) نے بھی اپنی کارکردگی سے ثابت کیا ہے کہ اس میں ہواؤں کا رُخ پہچان کر اپنی سمت درست کرنے کا نظام ہی موجود نہیں۔وزیراعظم اور قومی اسمبلی کے درمیان فاصلے کو غیر معمولی طور پر بڑھاتے چلے جانا، اپنی سیاسی قوت کے مرکز یعنی پنجاب میں وزراء کی بجائے سرکاری افسروں کے ذریعے معاملات چلانا، ''اپنے ہاتھ سے خود کرنے ‘‘کے شوق میں بلدیاتی اداروں کی تشکیل سے پہلو تہی ایسے عوامل ہیں جو جمہوری نظام میں کسی بھی حکومت کی تباہی کے لیے کافی ہوتے ہیں ۔ خود پر اتنے خود کش حملوں کے بعد یہ حکومت اگر باقی بچ گئی ہے تو اسے تقدیر کا لکھا ہی کہہ سکتے ہیں ، اس میں حکمرانوں کا توکوئی کمال نظر نہیںآتا۔
جنرل پرویز مشرف کی آمریت کے دوران بقا کی کامیاب جنگ لڑنے کے بعد پاکستان مسلم (ن) میں یہ عجیب و غریب سوچ
راہ پاگئی ہے کہ اس کے لوگ خود کو مکمل درست اور دوسروں کو مکمل غلط سمجھنے لگے ہیں۔ اس کی قیادت یہ باور کیے بیٹھی ہے کہ اب ان سے کارکردگی کی بجائے حکومت و سیاست کی فلسفیانہ بحثیں کی جائیں، انہیں عوام کو جوابدہ حکمران کی بجائے ایک مدبر رہنما سمجھ کر ان کے اقوال زریں پر زندگیوں کو استوار کیا جائے۔ ایسا طرزعمل تیسری دنیا کے ملکوں میںتو درکنا رپختہ ترین جمہوریتوں میں بھی گوارا نہیں کیا جاتا۔ حالانکہ کسی حکمران کو بھی یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد برطانیہ نے چرچل کے سارے مدبر پنے کو ووٹ کے ذریعے نکال دیاتھااور اپنی قوم سے بڑا بننے کی خواہش پالنے کی پاداش میں جدید فرانس کے معمار ڈیگال کو استعفیٰ دینا پڑاتھا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ حکمران اپنی ذات کے اسیر ہونے لگیں تو ان کے تخت کو تختہ ہوتے ہوئے دیر نہیں لگتی۔ اگر ہمارے پیارے وزیراعظم اپنے دوست آصف علی زرداری کی پیروی کرتے ہوئے حال کے معاملات کو چھوڑ کر تاریخ میں اپنے مقام پر توجہ کرنے لگیں گے تو مستقبل ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرے گا۔
پاکستان جیسے نیم جمہوری ملکوں میں حکومتیں ہٹانے کے لیے غیر جمہوری ہتھکنڈوں کا استعمال کوئی نئی بات نہیں۔ دھرنوں اور سازشوں کی ناکامی کے بعد بھی یہ کہنا دشوار ہے کہ حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوئی کوشش نہیں ہوگی۔ ہم جیسے ملکوں میں کامیاب حکومت وہی ہوتی ہے جوبڑے مینڈیٹ کے باوجودتصادم سے گریزکرکے ترقی کے ایک واضح ایجنڈے پر کام کرے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس پر اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرے۔یہاں پر ایجنڈا تو نظر آتا ہے لیکن اس پر کام ہوتا ہوا دکھائی نہیں دیتا۔ اسی بے عملی کی وجہ سے ہوا یہ کہ جیسے ہی سیاست نے دانت نکوسے ،حکومت میاؤں میاؤں کرتی پارلیمنٹ میں اپنے مخالفین کی گود میں جا دبکی اورو زیراعظم کو معلوم ہوا کہ ان کی طاقت ان کی اپنی جماعت میں نہیں بلکہ پیپلزپارٹی میں ہے۔
وزیراعظم کو عمران خان اور شیخ الاسلام قبلہ ڈاکٹر طاہر القادری کا شکرگزار ہونا چاہیے کہ ان دونوں نے سیاسی بحران پیدا کرکے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی متاعِ دانش کی قلعی کھول دی ہے اور انہیں اپنے معاملات درست کرنے کا ایک موقع مہیا کردیاہے۔حقیقت یہ ہے کہ اس بحران میں سرکاری افسروں پر مشتمل ان کی سیاسی مشاورت کا دائرہ تو چودہ اگست کو ہی فنا کے گھاٹ اتر گیا تھا، اور وزراء کی روشن طبعی کے جنازے آئندہ دنوں میں ایک ایک کرکے نکل گئے۔ اگر جاوید ہاشمی آمادۂ قربانی نہ ہوجاتے اور پیپلزپارٹی کا سہارا نہ ملتا تو خود ان حکومت کی بھی آخری رسومات اب تک ادا ہوچکی ہوتیں۔ میڈیا کے محاذ پر حکومتی کارکردگی کا اندازہ لگائیے کہ اگر خود وزیراعظم ، رانا ثناء اللہ اور زعیم قادری نہ ہوتے تو یہاں بھی کام تمام ہوجاتا۔ رانا ثناء اللہ اور زعیم قادری نے میڈیا پر حکومت کے لیے جو کچھ کیا ہے اور جس انداز میں کیا ہے اس کا عشرِ عشیر بھی وفاقی وزراء میں سے دو چار کرلیتے تو صورتحال مختلف ہوتی۔ حالت ان بزرجمہروں کی یہ رہی کہ اس بحران سے پہلے یہ اپنے زعمِ دیانت میں میڈیا والوں کے فون نہیں سنتے تھے اور اس بحران کے دوران سوالوں سے خوف زدہ ہوکر فون نہیں اٹھاتے تھے۔ وفاقی کابینہ اور پنجاب کی کابینہ میں شامل بہت سے لوگوں نے اپنی زبان آوری سے اپنی نا اہلیوں پر جو پردے ڈال رکھے تھے اب وہ بھی اٹھ گئے ہیں، گویا مسلم لیگ (ن) کی دونوں حکومتوں کی مبلغ صلاحیت منظر عام پر آگئی ہے ۔
دھرنوں سے پیدا ہونے والے بحران نے ہمیں بلند آواز سے بتادیا ہے کہ پاکستان کی اصل مصیبت بحران نہیں بلکہ بحرانوں سے نمٹنے کی صلاحیت کی عدم موجودگی ہے۔ قحط الرجال صرف حکومت تک ہی محدود نہیں بلکہ الا ما شااللہ ہر سیاسی جماعت اس کا شکار ہے۔ آپ عمران خان اور ان کی ٹیم کی قابلیت کا عالم ہی دیکھ لیجیے کہ وہ حکومت کا استعفیٰ لینے چلے تھے لیکن خود گھیر ے میں آکر استعفے دے بیٹھے ۔اس کوشش میں جاوید ہاشمی جیسے اثاثے کو چھوڑ کر عامر ڈوگر کو گلے لگانے پر مجبور ہوگئے، اور اب کہہ رہے ہیں کہ اگلا سال الیکشن کا ہوگا۔آفرین ہے اس سیاسی فہم پرکہ پینسٹھ روزہ دھرنوں اور نصف درجن جلسوں کے بعد اس پریہ راز کھلا! شیخ الاسلام قبلہ اور ان کے پیروکاروں کی بصیرت کی بھی داد دیجیے کہ اربو ں روپے دھرنے میں لٹانے کے بعد خیال آیا کہ انہیں اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے انقلاب کی بجائے انتخاب کا راستہ اختیار کرنا ہوگا اور اب میدان خالی نہیں چھوڑا جائے گا۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کا اوجِ کمال بھی دیکھیے کہ دھرنے والوں کو گھر بھیجتے بھیجتے خودشمالی وزیرستان کے آئی ڈی پیز کے دھرنے کا اعلان کرنے لگے۔ کیا یہ محلِ افسوس نہیں کہ ہمارے ملک میں ایک بھی ایسا جوہرِ قابل نہیں جو ڈھنگ سے کوئی نتیجہ خیز بحران پیدا ہی کرسکے یا پوری دلیری اور دماغ کو حاضر رکھتے ہوئے پھوہڑ پنے سے تیار کی ہوئی سازش سے نمٹ ہی سکے؟
میرے دوست اور سابق مدیر عامر اشرف نے ایک بار کہا کہ ''پاکستان میں صرف ایک ساز ش ہوئی ہے جو مسلسل جاری ہے‘‘۔ میں نے تفصیل چاہی تو کہنے لگے ''نا اہلی کی سازش، یہاں چور بھی نااہل ہے اور اس کو پکڑنے والا بھیـــ‘‘۔عامر اشر ف کی کئی سال پہلے کہی ہوئی یہ بات اب حرف بحرف درست ثابت ہورہی ہے۔ سیاست اور ریاست کو نا اہلی کا گھن لگ چکا ہے۔ نا اہلی سے چھٹکارا پانے کے لیے ہم سب کی نظریں وزیراعظم پر لگی ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ اب وہ اپنے ساتھیوں کا انتخاب اپنی ذاتِ گرامی سے قرب کی بجائے میرٹ پر کریں۔ اگر ان سے پہلے عمران خان اور شیخ الاسلام نے اپنے نااہلوں سے چھٹکارا پا لیا تو پھر واقعی اگلا سال الیکشن کا سال ہوگا۔