"HAC" (space) message & send to 7575

شکریہ عمران خان

پاکستان کے کمزور نظر آنے والے دستوری نظام سے عمران خان جس قوت سے ٹکرائے تھے، اس نے اتنی ہی قوت سے اچھال کر انہیںاس جگہ سے کہیں پیچھے دھکیل دیا جہاں وہ بارہ اگست تک موجود تھے اور پاکستان کی ساری سیاسی قیادت ان کے دروازے پر سوالی بنی خیرات کی منتظر تھی ۔ صرف ڈھائی ماہ ہی تو گزرے ہیں لیکن حالات یوں بدلے ہیں کہ خان صاحب کا تنتناتا ہوا دھرنا اب ناکامی کی دردناک داستان کے سوا کچھ نہیں ۔اس سے حکومت گری نہ نظام بدلا، امپائر نے انگلی اٹھائی نہ کسی ریفری کو بیچ بچاؤ کا یارا ہوا۔ حتیٰ کہ خان صاحب کے امام اور کزنِ بزرگ شیخ الاسلام قبلہ ڈاکٹر طاہرالقادری انہیں راہِ عزیمت پر تنہا چھوڑ کر دیارِ مغرب کی رنگینیوں کی طرف لوٹ گئے۔ ایک سراج الحق تھے جو اپنا سر ثالثی کی اوکھلی میں دیے ہوئے تھے مگر ناکامی کی دھمکوں سے ڈرکر بھاگ لیے۔ کوئی دن جاتا ہے کہ وہ ثالثی جرگے کی باقاعدہ موت کا اعلان کرکے اپنی جماعت پر توجہ مرکوز کرلیں گے۔ امیدوں پر پانی پھر جانے سے مایوسی ہونا لازمی ہے۔ اگر عمران خان چڑچڑے ہوکر برس رہے ہیں یا ان کے پیروکار غصے میں مٹھیاں بھینچ رہے ہیں تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ، لیکن کپتان کے حوصلے کی داد دینی چاہیے کہ اندر سے ٹوٹ کر بھی سیدھا کھڑا ہے۔ غم و اندوہ کی اس حالت میں خان صاحب یا ان کی جماعت کے لیے مشکل ہے کہ وہ لندن میں بُنے ہوئے سپنوں سے دستبردارہوکر کسی نئے زاویے سے اپنی جدوجہد کا جائزہ لے سکیں۔ اگر وہ ایسا کرلیں تو شاید انہیں اس بات پر خوش ہونے کا موقع مل جائے کہ انہوں نے اپنے دھرنے سے پاکستان کو بہت کچھ دیا ہے جس پر قوم آج نہیں تو کل ان کی شکرگزار ہوگی۔ بقول فیض احمد فیض ''اتنے احسان کہ گنواؤں تو گنوا نہ سکوں‘‘۔ 
سب سے پہلا فائدہ جو خان صاحب کے دھرنے سے قوم کو پہنچا وہ یہ ہے کہ ان کے برپا کیے ہوئے طوفان سے نمٹنے کے لیے ہمارے دستوری ادارے مضبوط ہوئے ہیں۔ آپ دیکھ لیجیے کہ پارلیمنٹ نے جس بے مثال یک جہتی کا مظاہرہ کیا ، اس نے آئندہ کئی سال تک فتنوں اور سازشوں کا راستہ روک دیا ہے۔ جن سیاستدانوں کے کردار و افکار پر ہر شام انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں انہوں نے ثابت کیا ہے کہ جمہوریت کو لاحق ہونے والے کسی بھی خطرے کا سامنا کرنے کے لیے وہ اپنی جان داؤ پر لگانے سے بھی گریزنہیں کریں گے۔ پاکستان میں چشمِ فلک نے یہ نظارہ بھی دیکھا کہ ایک طرف لوگ قومی اسمبلی کے دروازوں پر ڈنڈا بدست کھڑے ہیں اور اس کے اندرملک کے منتخب لوگ بشمول وزیراعظم ،بیٹھے ان مشکل حالات سے نکلنے کی حکمت عملی پر بغیر کسی خوف کے غور کرہے ہیں۔ اس دھرنے سے جہاں دنیا بھرمیں پاکستان کے بارے میں ایک منفی پیغا م پہنچا وہاں یہ تاثر بھی قائم ہوگیا کہ پاکستانی ریاست اپنے بدترین اختلافات بھی پر امن طریقے سے حل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ اب عمران خان اور شیخ الاسلام قبلہ اپنے اپنے بین الاقوامی نیٹ ورک کے ذریعے دنیا کو یہ بھی باور کرائیں گے پاکستان میں پر امن جدوجہد کا نہ صرف احترام کیا جاتا ہے بلکہ ہماری برداشت کی حد کسی بھی مغربی جمہوری ملک سے کہیں زیادہ ہے۔ احتجاج کا جو انداز کینیڈا اور 
برطانیہ جیسی مسلمہ جمہوریتوں میںفتنے کے زمرے میں آتا ہے، اس کو برداشت کرکے پاکستان نے خود پر عدم برداشت کے الزام کی مکمل نفی کردی ہے۔ہوسکتا ہے آج حکومت یا اس کے متعلقین دھرنوں کے فوائد کا اعتراف نہ کریں، لیکن جلد ہی ہماری وزارت خارجہ دنیا میں ان دھرنوں کو اپنی جمہوریت کے ثبوت کے طور پر پیش کررہی ہوگی اور ان کی آڑ لے کر دباؤ سے کام لینے والی بین الاقوامی قوتوں کا مقابلہ کررہی ہوگی۔ 
ان دھرنوں سے دوسرا بڑا فائدہ جو پاکستان کو پہنچا ،وہ یہ ہے کہ ان کے ذریعے پاکستان مسلم لیگ ن کے قائدین کی گردنوں میں موجود تکبر کا سریا نکل گیا۔ الیکشن جیت کر غرور میں مبتلاہوجانے والوں کو ایک بار پھرعوام کے ذریعے عوام کے سامنے جھکا کر عمران خان نے ملک پرایسا احسان کیا ہے جس کا بدلہ 2018ء کے الیکشن میں یقینا انہیں ملے گا۔ سابق وزیراطلاعات قمرزمان کائرہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کپتان سے مذاکرات کے دوران بطور دلیل کہا کہ دھرنے سے اٹھنے کے لیے یہ کامیابی کافی ہے کہ آپ نے خبطِ عظمت کی شکار حکومت کو پارلیمنٹ اور عوام کے سامنے ناک رگڑنے پر مجبور کردیا۔ ذاتی طور پر بھی حکمران جماعت کے کئی کارکنوں اور اراکین اسمبلی نے بتایا کہ چودہ اگست کے بعد سے وزیراعظم ووزیراعلیٰ پنجاب سے ملاقات بہت آسان ہوگئی ہے۔ پارٹی اجلاسوں کے دوران رعونت سے تنی گردنیں ڈھیلی پڑ چکی ہیں اور درشتی سے بھرے لہجے نرمی کی طرف مائل ہیں۔ وزیراعظم نے بھی یہ بھولا ہوا سبق یاد کرلیا ہے کہ وہ بہت بڑے راہنما سہی لیکن اتنے بڑے نہیں کہ قوم بجلی ، مہنگائی اور گورننس کے مسائل کو بھول کر محض اس بات پر فخر کرتی رہے کہ اس نے محمد نواز شریف کو وزیراعظم چنا ۔ خان صاحب نے اپنی کنٹینر تقریروں کے ذریعے کئی فتنوں کو جگانے کے ساتھ ساتھ حکومت کو جھنجھوڑنے کا کام بھی بخوبی کیا ہے اور اسے یاد دلایا ہے کہ آپ کی بے عملی ہی آپ کو لے ڈوبنے کے لیے کافی ہے۔اگر اب بھی حکومت خود کو ٹھیک کرنے کی ٹھان لیتی ہے تو بے شک و شبہ یہ اس قوم کے لیے باعثِ خیر ہوگا۔ 
تیسرا بڑا فائدہ جو ان دھرنوں سے من حیث القوم ہمیں حاصل ہوا وہ یہ ہے کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیںبغیر کچھ کیے حکومت تو کیا سیاست میںرہنے کا تصور نہیں کرسکیں گی ۔تحریک انصاف نے ہر شخص کے ہاتھ میں کارکردگی کا ایسا فیتہ پکڑا دیا ہے جس کی مدد سے وہ اقتدار میں موجود ہر جماعت کی اوقات کا تعین کرکے ، اسے اپنے ووٹ کے ذریعے اس کی اوقات میں رکھے گا۔اب پیپلزپارٹی کو سندھ میں ، مسلم لیگ ن کو پنجاب میں، ڈاکٹر مالک کو بلوچستان میں اور خود عمران خان کو خیبر پختونخوا میں ایسی ذمہ دار حکومت قائم کرنا ہوگی جو عوام کے دکھ درد میں نہ صرف شریک ہو بلکہ انہیں دور کرنے کے لیے نظر آنے والے اقدامات بھی کرے۔ 'مجھے کام نہیں کرنے دیا گیا ‘ والی دلیل اب کام نہیں کرے گی۔پچھلے دوماہ کے دوران لوگوں کو سوال اٹھانے کا شعور آیا ہے کہ جب دھرنوں نے کسی کو بلدیاتی انتخابات سے نہیں روکا ، پولیس اور افسرشاہی کو راہ راست پر لانے کے لیے اصلاحات کی مخالفت نہیں کی، ٹیکس چوروں کی حمایت میں کوئی مظاہرہ نہیںکیا تو پھر وہ کیا چیز ہے جو حکومت کو یہ سب کرنے سے روکے ہوئے ہے؟ خوش گمانی ہے کہ وزیراعظم بھی جان چکے ہیں کہ ان کے خلاف سازش ناکام ہوئی ہے، دھرنا نہیں۔ 
بے شک کسی سیاسی جماعت کی کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ اس کے اور اقتدار کے درمیان فاصلے کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بعض اوقات سیاسی جماعتیں اقتدار سے باہر رہ کر بھی پورے معاشرے پر اپنے نقوش چھوڑ جاتی ہیں۔مثال کے طور پر جماعت اسلامی کو کبھی مکمل حکومت نہیں ملی لیکن اس نے نظریاتی حوالے سے پاکستان پر ہمہ گیر اثرات چھوڑے ہیں۔ اسی طرح پیپلزپارٹی نے بھی ہمارے سیاسی کلچر کو تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور اب عمران خان نے سیاست میں پوری قوت سے کارکردگی کا سوال اٹھا کر معاشرے کو اتنا فعال کردیا ہے کہ حکومت چاہے کسی کی بھی ہو، عوام کو مطمئن کیے بغیر اس کا چلنا دشوار ہوجائے گا۔ یہ کوئی معمولی کارنامہ نہیں، اس کا سہرا کپتان کے سر ہی بندھے گا۔ اس تبدیلی کے لیے آج نہیں تو کل ہم سب اپنے کپتان کے شکرگزار ہوں گے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں