"HAC" (space) message & send to 7575

کچھ پولیس کے بار ے میں

''اڑے ، کون ہے تو، ہمت ہے تو نکال دے مجھے پولیس سے اور ویسے بھی رینک لگانے سے کوئی سینئر نہیں بنتا ، میں ہوں تیرا سینئر، جو ہوتا ہے تجھ سے کرلے میرا‘‘ یہ الفاظ سندھ پولیس کے ایک ایس پی کے ہیں جو انہو ں نے اپنے ڈی آئی جی کو کئی لوگوں کے درمیان کھڑے ہوکر کہے اور وہ بے چارہ واقعی کچھ نہ کرسکا۔نظم و ضبط کی پابند ایک فورس میں اس طرح کا واقعہ انہونی کے قریب قریب ہے۔ اپنے سینئر سے اس طرح کا سلوک کرنے والا فورس سے نکال دیا جاتا ہے یا پھر اس پر ترقی کے راستے بند کردیے جاتے ہیں، لیکن مذکورہ ایس پی کے ساتھ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ وجہ یہ کہ ڈی آئی جی ایک کمزور آدمی تھا جس نے 'بے وقوف ‘ لوگوں کی طرح محنت کی، مقابلے کا امتحان پاس کرکے پولیس میں بھرتی ہو ا اورپھر دھیان سے نوکری کرتے ہوئے کئی محکمانہ امتحان پاس کرکے اس رتبے تک پہنچا۔ اس کے برعکس مذکورہ ایس پی نے انتہائی عقل مندی سے پیپلزپارٹی سندھ کے ایک راہنما اور سابق سپیکر سندھ اسمبلی کا دامن تھاما اور ان کے منشی کے 'عہدۂ جلیلہ‘ پر فائز ہوگیا۔ 1995ء میں اسی قابلیت کی بنیاد پر اس کانام ان پینتالیس افرادکی فہرست میں شامل کردیا گیا‘ جنہیں سندھ پولیس میں براہ راست ڈی ایس پی بھرتی ہونا تھا۔یہ پینتالیس افراد پورے صوبہ سندھ سے بڑی عرق ریزی سے منتخب کیے گئے تھے اور انتخاب کرتے ہوئے یہ خیال رکھا گیا تھا کہ ان کا تعلق پیپلزپارٹی کے کسی نہ کسی راہنما سے ضرور ہو۔ اس لیے وزیر کا بھتیجا، ایک ایم پی اے کا بھائی، ایک ایم این اے کا ملازم، پیپلزپارٹی 
کراچی کے ایک سابق صدر کا نامزد کردہ سیاسی کارکن بھی‘ اس فہرست میںشامل تھے۔ خیر یہ جولوگ بھی تھے ، ڈی ایس پی مقرر ہوئے اور انہیں نیشنل پولیس اکیڈمی میں ٹریننگ کے لیے بھیجا گیا جہاں ان کی قابلیت کے جوہر کھلے۔ وہ اس طرح کہ اکیڈمی میں ہونے والے ہر امتحان میں یہ لوگ باجماعت فیل ہوگئے ۔ ان کی یہ حالت دیکھ کر فیصلہ کیا گیا کہ آئندہ امتحان میں کامیابی کے لیے پچاس فیصدنمبرلینے کی شرط اڑا دی جائے اور انہیں خصوصی طور پر تینتیس نمبروں میں پاس کردیا جائے جبکہ مشکل مضامین مثلاً کرمنالوجی اور قانون کے پرچے ان سے لیے ہی نہ جائیں۔ اس رعایت کا یہ فائدہ ہوا کہ پینتالیس میں سے چھ بطلِ جلیل ایسے نکل آئے جو تحریری طور پر یہ امتحان پاس کرگئے لیکن جسمانی تربیت میں یہ اپنی وضعداری پر قائم رہے ، یعنی فیل ہوگئے۔ ان کے ساتھ ہی پاکستان میں پولیس، قانون اور اخلاق بھی آخری ہچکی لے کر فیل ہوگئے ۔ 
جب نیشنل پولیس اکیڈمی ان نابغۂ عصر قسم کے نالائقوں کا کچھ نہ بگاڑ سکی تو انہیں سندھ پولیس میں تقرریا ں دے دی گئیںتاکہ یہ لوگ عوام اور قانون سے کھیل کر ہی کچھ سیکھ لیں۔ میدانِ عمل میں ان لوگوں نے اپنی اہلیت پوری طرح ثابت کی اور چشمِ فلک نے دیکھا کہ جہاں جہاں ان کو پوسٹنگ ملی وہاں لاقانونیت اور غنڈہ گردی کا ایک طوفان برپا ہوگیا۔ سندھ کا ہر موالی اور قانون شکن ایک سیاسی جماعت کا کارکن بن کر براہ راست ڈی ایس پی بھرتی ہونے کی سوچنے لگا۔ جب صدر فاروق لغاری مرحوم نے پیپلز پارٹی کی حکومت ختم کی تو یہ پینتالیس لوگ مشکل میں پھنس گئے۔ آئی جی پولیس نے ان کو پولیس سے فارغ کرنے کی سفارش کردی ، قریب تھا کہ یہ نکال دیے جاتے لیکن قانون ان کی مدد کو آیا اور ان سے جان چھڑانے کی ہر کوشش ناکام ہوگئی۔ حالات بدلے، 2008ء میں ایک دفعہ پھر پیپلز پارٹی کو حکومت ملی اور ان کے بھی دن پھر گئے۔ اپنے اپنے سرپرستوں کی مدد سے انہوں نے وہ وہ گل کھلائے کہ الامان و الحفیظ۔ مظلوموں کی ساتھی سیاسی جماعت نے ماضی میں ان کے ساتھ میرٹ کے نام پر ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ یوں کیا کہ ان کی رکی ہوئی ترقیاں ان کو عنایت کردیں اور سب کو ایس پی بنا کر ان کے من پسند ضلعوں میں بھیج دیا‘ جہاں جاکر انہوں نے پولیس میں کانسٹیبل کی بھرتیوں میں وہی معیار قائم رکھا جو خود انہیں بھرتی کرتے ہوئے قائم رکھا گیا تھا، اور یہ سلسلہ اب تک پورے زور و شور سے جاری ہے۔ میرٹ صرف یہ ہے کہ ملازمت کے امیدوار کو سندھی بولنے والا اور پیپلزپارٹی کا ورکر ہونا چاہیے، باقی سب کچھ ثانوی ہے۔ 
ان لوگوں کو ترقیاں ملنے سے میرٹ پر بھرتی ہونے والوں کی جو حق تلفی ہوئی اس کے ازالے کے لیے سینئر پولیس افسروں کا ایک وفد ایک سابق وزیرداخلہ کے پاس گیا تو انہوں نے سندھیوں پر ہونے والے مظالم پر ایک لمبی تقریر فرمائی اور واضح لفظوں میں بتادیا کہ ''یہ مظلوم بھٹوشہید کے وارث ہیں‘‘ اس لیے ان کے خلاف کچھ کہنا فضول ہے۔ کچھ عرصے بعد ایک اور وفد یہ مسئلہ لے کر بعد میں وزیرداخلہ بننے والے کے پاس گیا تو انہوں نے ان کی بات پوری توجہ سے سنی اور فرمایا ''ہمارے بچوں کو آپ ایڈجسٹ کریںتو ہم آپ کے بارے میں بھی سوچیں گے‘‘۔ اس کے بعد سینئر افسروں نے وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ سے ملاقات کا وقت مانگا اور پولیس افسروں میں پائی جانے والی بے چینی کا ذکر کیا تو شاہ صاحب نے اچانک آنکھ کھولی اور فرمایا ''سائیں ، ان بے چاروں سے خواہ مخواہ دشمنی کیوں لیتے ہو؟‘‘۔ اس جواب کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ یہ سب کچھ ہوچکا تو پھر ہی وہ موقع آیا جب مذکورہ ایس پی نے اپنے ڈی آئی جی کو سب کے سامنے ذلیل کرکے اُسے اس کی اوقات یاد دلا دی۔ برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ مذکورہ ایس پی کا ایک بیٹا ان مارے جانے والے دہشت گردوں میں شامل تھا جنہوں نے کراچی میں نیول ڈاکیارڈ پر حملہ کیا تھا۔ 
بہرحال سندھ پولیس کے ان شہزادے افسروں کے رویے اور سرکار دربار میں ان کی پذیرائی دیکھ کر دوسرے افسروں میں جو بددلی پھیلی اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ افسران دو واضح گروپوں میں بٹ گئے اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں مصروف ہوگئے۔اب صورتحال یہا ں تک آ گئی ہے کہ ایک علاقے کے افسرکو دوسرے علاقے میں کسی جرم کی سن گن ملتی ہے تو وہ متعلقہ افسر کو اس لیے نہیں بتاتا کہ اس کا تعلق مخالف گروپ سے ہوتا ہے۔ صوبائی حکومت کو اپنے لوگوں کو براہِ راست ڈی ایس پی لگانے کا تجربہ اتنا خوش آیا ہے کہ آج کل پھر اسی طرح ڈی ایس پی اور اسسٹنٹ کمشنر لگانے کا پروگرام بنایا جارہا ہے۔ دوسرے صوبوں سے آنے والے تمام افسروں کو صوبائی محکموں سے نکالنے پر بھی گفتگو ہورہی ہے۔ پیپلزپارٹی کے راہنماؤں کا خیال ہے کہ دوسرے صوبوں سے آنے والے افسران یہاں کے زمینی حقائق سے بے بہرہ ہوتے ہیں جس کی وجہ سے مخالفین کو کیفرکردار تک پہنچانے، سفارش اور رشوت جیسے روزمرہ امور بھی آسانی سے نہیں چلائے جاسکتے۔ان مشکلات کے پیشِ نظر سندھ کی حکومت صوبائی اسمبلی میں غالباً ایک ایسا قانون بھی لانے والی ہے جس کے تحت ہر محکمے کی ہر اسامی پر مذکورہ ایس پی جیسا مردِ میدان ہی فائز ہوگا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں