علامہ اقبال ؒ اور سر علی امام کے درمیان تعلقات میں کھچاؤ تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ سر علی امام کی وجہ سے ان کا نام ہائیکورٹ کے جج کے طور پر مسترد کیا گیا تھا۔ انہیں لوگوں نے بتا رکھا تھا کہ پنجاب ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے سامنے سر علی امام نے ان کو جج بنانے کی مخالفت کی تھی۔ اقبال اس قدر ناراض تھے کہ سر علی امام سے بات چیت کرنا بھی پسند نہ کرتے ۔ سر علی امام چونکہ لاہور میں نہیں رہتے تھے اس لیے انہیں اندازہ نہیں تھا کہ معاملہ کس قدر خراب ہے۔ یہ ناراضگی برقرار رہتی اگر 1931ء میں یہ دونوںبزرگ لندن جانے کے لیے ایک ہی بحری جہاز میں سوار نہ ہوتے۔ ان کا جہاز بمبئی کی بندرگاہ سے چل کر عدن پہنچا اور یہاں کچھ دیر قیام کے بعد یورپ کی طرف ہولیا۔' ملوجا‘ نام کا یہ جہاز بحرِ احمر کے پانیوں کو چیرتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا، شام کا وقت تھا ، اقبال ؒ عرشے پر کھڑے غروب ہوتے سورج کو دیکھ رہے تھے کہ سر علی امام ان کے پاس آئے اور کہنے لگے ، ''ڈاکٹر صاحب اس وقت ہم جس مقام سے گزر رہے ہیں اس کا طول ِبلد اتنا اور عرضِ بلداتنا ہے۔ اس مقام سے اگر نوے ڈگری کے زاویے پر ایک لکیر مشرق کی طرف کھینچی جائے تو یہ سیدھی مدینہ منورہ چلی جائے گی‘‘۔ سر علی امام نے بات ختم کی اور ان کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے۔ روتے روتے انہوں نے فارسی کے نعتیہ اشعار پڑھنا شروع کردیے اور علامہ اقبالؒ سے پوچھنے لگے ''ڈاکٹر صاحب ہم روزِ قیامت کیا منہ دکھائیں گے سرکار دوعالم ؐ کو؟ ‘‘اقبال ؒ جو پہلے ہی عشقِ مصطفٰی ؐ میں سر تاپا بھیگے ہوئے تھے، سر امام کا یہ روپ دیکھ کر رو دیے اور بغیر کچھ کہے دل سے انہیں معاف کردیا۔ بعد میں کسی نے پوچھا کہ سر علی امام سے تعلقات کیونکر ٹھیک ہوئے تو اقبال نے یہ واقعہ سنا کر کہا '' جو عشقِ رسول ؐ میں رو پڑے اس کے خلاف میں کینہ نہیں پال سکتا‘‘۔ خود اقبال ؒ کا حال یہ تھا کہ ایک بار کسی جاننے والے سے خصوصی طور پر مدینہ منورہ کا ایک کبوتر منگوایا جس کا وہ اپنی بیماری کے باوجود غیر معمولی خیال رکھتے تھے۔ گھر میںکسی کی بے احتیاطی سے وہ کبوتر ایک بلّی کا نشانہ بن گیا تو کئی دن اس پر مغموم رہے۔ ان کی اسی غم زدہ کیفیت کو دیکھ کر مولانا ظفر علی خان نے چند اشعار بھی کہے۔ اقبال ؒ جو مشرق و مغرب کے فلسفے کا حافظ ہے، اقبالؒ جو علم الکلام کا ماہر ہے، اقبال جوبتاتا ہے کہ عشق اور عقل کا امتزاج ہی مردِ مومن کہلاتا ہے ، جب خاتم النبیین ؐکی بات کرتا ہے تو صرف ایک دیوانہ ہے ؎
تو غنی از ہر دو عالم من فقیر
روزِ محشر عذر ہائے من پذیر
گر تُومی بینی حسابم نا گزیر
از نگاہِ مصطفی پنہاں بگیر
(ترجمہ: اے خدا آپ ہر دو عالم سے غنی ہیں اور میں فقیر ہوں، میری درخواست ہے کہ روزِ قیامت میں اپنے گناہوں کے جوعذر کروں اسے قبول کرلیجیے گا۔ اگر آپ میرے اعمال کا حساب ضرور ی سمجھیں تو پھر یہ مہربانی کریں کہ حضوراکرمؐ کے سامنے نہ کریں، کیونکہ میں گناہ گار ان کی نگاہوںکی تاب نہ لاسکوں گا)
پانچ صدیاں پہلے عبدالرحمٰن جامی ؒ افغانستان کے بہت بڑے عالم ہوئے ہیں۔ ایک بار سادات خاندان کے ایک صاحب ان کی شہرت سن کر ان سے ملنے چلے آئے۔ جب مہمان کا تعارف جامیؒ تک پہنچا تو وہ ننگے پاؤں اس کا استقبال کرنے کے لیے آگئے اور اپنے مکان کا بہترین حصہ اس کی رہائش کے لیے مختص کردیا۔ رات گزری تو ان کے ملازم نے دیکھا کہ جامی ؒ جاگ رہے ہیں اور مکان کے جس حصے میں مہمان مقیم تھا بار بار اس کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ ملازم نے اپنے آقا کی بے چینی کا سبب دریافت کیا تو مہمان خانے کی جلتی ہوئی روشنی کی طرف اشارہ کرکے بولے ، '' یہ کیسے ممکن ہے کہ آل رسولؐ مہمان ہو اور میں بستر پر لیٹ جاؤںـ‘‘۔ کئی کتابوں کامصنف اور فارسی کا یہ غیر معمولی شاعر جامی کہتا ہے ؎
زجامِ حبّ ِ تو مستم،بہ زنجیرِ تو دل بستم
نمی گویم کہ من ہستم ،سخن داں یا رسول اللہ
(ترجمہ: میں تو بس آپ ؐ کی محبت میں مست ہوں، آپ ؐ کی زنجیر سے بندھا ہوا ہوں، یا رسول اللہ میں تو خود کو سخن دان بھی نہیں سمجھتا)
کیا سر سید احمد خان کی روشن خیالی پر کسی کو شک ہے؟ ہندوستانی مسلمانوں میںاسلام کو مغرب کی نظر سے دیکھنے کی جو روایت انہوں نے برپا کی وہ آج تک جاری ہے ۔ انہوں نے یورپی تہذیب اور اپنی قوم کے درمیان جو علمی و عملی سمجھوتہ کرایا اسے بعض لوگ شکست خوردگی سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔ سرسید جو مغرب کی بہت سی نامعقول باتوں پر بھی سوال نہیں اٹھاتے ولیم میور کی کتاب 'لائف آف محمدؐ ‘میں اٹھائے گئے اعتراضات پر اتنے سیخ پا ہوتے ہیں کہ اپنی عقلیت پسندی کو ایک طرف رکھ، اپنا سب اثاثہ بیچ ، مہاجنوں سے قرض لے کر لندن جابیٹھتے ہیں، مقصد بس یہ کہ کسی طرح اس دل آزار کتاب کا جواب دیا جاسکے۔ ان کی کوشش کی علمی حیثیت اپنی جگہ لیکن ان کی حبّ ِ نبی ؐ کو دیکھیں تو ان کی خطا بھی کارنامہ محسوس ہونے لگتی ہے۔ ذرا تصور کریں اس شخص کے جنون کا کہ وہ اپنی ساری دولت صرف کرکے برطانیہ میں رہ کر پہلے مغربی زبانوں میں چھپے ہوئے مواد کا اپنے لیے اردو ترجمہ کراتا ہے اور پھر اس ترجمے کی مدد سے جو کتاب لکھتا ہے اسے انگریزی میں ترجمہ کراتا ہے تاکہ ولیم میور کی اس گھٹیا کتاب کا جواب دے سکے۔
ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے طاقتور ترین وزیر اعظم تھے۔تھوڑے بہت ذہنی تحفظات کے ساتھ پاکستان کی ساری لبرل قوتیں انہیں اپنا امام مانتی ہیں۔ بے شک ان کی فکری جہت مغرب سے حاصل کردہ علم کی روشنی میں ہی متعین ہوتی تھی۔ ان کا رہن سہن بھی ایسا تھا جس میں مشرقی روایات کا زیادہ عمل دخل نہیں تھا ۔ یہی ذوالفقار علی بھٹو سعودی عرب جاتا ہے تو خانہ کعبہ کا دروازہ اس پر کھول دیا جاتا ہے۔ خانہ کعبہ کلید بردار کعبہ کے اندر ایک مقام کی طرف اشارہ کرکے بتاتا ہے کہ یہاں حضور اکرم ؐنے کھڑے ہوکر نوافل ادا کیے تھے تو مغرب زدہ بھٹو تڑپ کر پیچھے ہٹ جاتا ہے اور نم آنکھوں کے ساتھ اس جگہ پیشانی رکھ دیتا ہے جہاں آپ ؐکے قدم مبارک تھے۔ بھٹو کے بدترین مخالفوں میں ایک کا نام جاوید ہاشمی ہے۔ جی ہاں وہی جاوید ہاشمی جو اپنی باغیانہ روش کے باعث پہلے نواز شریف سے الگ ہوئے اور اب عمران خان کے معتوب ہیں۔ بھٹو کے کئی سال بعد جب جاوید ہاشمی پر درِ کعبہ وا ہوا تو ساری بغاوت دھری کی دھری رہ گئی۔ سید المرسلین ؐ کے نشانِ پا کے بارے میں بتایا گیا تو سہم گئے اور وہی کیا جو بھٹو نے کیا تھا ، اپنی پیشانی وہیں رکھ دی جہا ں ان کے دشمن نے رکھی تھی۔
یہ چند مثالیں ان لوگوں کی ہیں جو تاریخ کے مختلف ادوار میں ہمارے بزرگوں نے پیش کی ہیں ورنہ گزشتہ چودہ سو سال میں مسلمانوں نے اپنے عمل سے دنیا پر یہ ثابت کیا ہے کہ اس قوم کے بچے بچے میں حضور اکرم ؐ کی محبت لہو بن کر دوڑتی ہے۔ہم مجبور، بے کس اور ناتواں ہر ظلم سہہ لیتے ہیں ، لیکن ناموسِ نبی ؐ پر کوئی حرف آئے تو ہمیں زندگی بوجھ محسوس ہونے لگتی ہے۔ ہمیںوہ موت عزیز تر ہے جو رسالت مابؐ کے نام پر آئے۔ہم اپنی محبت کے بارے میں زیادہ دلیلیں نہیں دے سکتے بس اتنا چاہتے ہیں کہ کوئی فرانس میں جاکر یہ بتا دے کہ آپ کی آزادیٔ رائے کا ہمیں احترام ہے لیکن آپ بھی ہمارے جذبات کا خیال کریں۔ اگر آپ ایسا نہیں کریں گے تو یاد رکھیے کہ حالات بدل چکے ہیں۔ آپ کو امن سے جتنی محبت ہے ہمیں بھی اتنی ہے لیکن یہ سمجھ لیں کہ اس کی پہلی شرط آپ کو اپنی زبان و قلم کو لگام دے کر پوری کرنی ہے۔یہ بھی جان لیں کہ آپ اپنی طاقت کے زعم میں جس تہذیب کو بار بار للکارتے ہیں، اب ایٹم بم سے بھی لیس ہے۔