پچھلے اتوار کی بات ہے کراچی میں حسن اسکوائر سے لے کر نیپا چورنگی تک یونیورسٹی روڈ پر لوگ ہی لوگ تھے۔ دورویہ سڑک کے ایک طرف خواتین کا ہجوم اور دوسری طرف مردوں کا ازدحام۔ یوں لگ رہا تھا کہ آج سارا کراچی یونیورسٹی روڈ پر نکل آیا ہے۔ سڑک پر بنے پنڈال میں کوئی کرسی تھی نہ دری ،بس بوڑھے ، جوان اور نوجوان ایک دوسرے کے ساتھ کندھے ملائے کھڑے تھے۔ پیدل چلنے والے جس پل کے ذریعے سڑک پار کرتے ہیں،اسے سٹیج بنا دیا گیا تھا جہاں کچھ دیر میں خطابات کا سلسلہ شروع ہونے والا تھا۔ یہاں کھڑے ہوکر ہجوم کی طرف دیکھا تو اس کا دوسرا سرا حد نگاہ سے اوجھل تھا۔ معلوم نہیں کراچی کے اس اجتماع کو ہزاروں کا کہا جائے یا لاکھوں گا لیکن یہ طے تھا کہ رنگ و نسل کے اختلافات مٹا کر یہ لوگ دنیاکو بتانے آئے تھے کہ حضور اکرم ؐ کی شان میں گستاخی کرنے والے بے شک طاقتور ہوں لیکن شمع رسالتؐ کے پروانوں سے زیاد ہ نہیں۔ ان میں اگر مٹا دینے کی قوت ہے تو ہم میں ناموس رسولؐ کے لیے مٹ جانے کا حوصلہ ہے۔ کراچی زبانِ حال سے کہہ رہا تھا کہ بات جب عصمتِ رسولؐ پر آئے گی تو ہزار خرابیوں سے بھرے اس شہر میں زبان و علاقہ اور رنگ و نسل کا ہر فرق مٹ جائے گا۔ یہ غلامان ِ نبیؐ کا اجتماع تھا اور اس میں نوجوانوں کی اکثریت بتا رہی تھی کہ مسلمانوں نے حضور اکرم ؐ سے اپنی محبت کی جوت اگلی نسل کے دلوں میں جگا دی ہے۔فرانس میں چارلی ہیبڈو کی دل آزار حرکت پر پختہ عمر چہروں پر لکھا حزن و اضطراب صاف پڑھا جاتا تھا ۔کمسن پیشانیوں پر غصے کی شکنیں نمایا ں تھیں۔ عصر کا وقت ہوچلا تھا، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے یہاں خطاب
کرنا تھا جو ابھی تک نہیں پہنچے تھے ؛البتہ جماعت کے کراچی کے امیر نعیم الرحمٰن موجود تھے۔ ان سے ملا تو بتانے لگے کہ جماعت اسلامی کراچی بڑے بڑے اجتماعات کی میزبان رہی ہے لیکن آج کے اجتماع کے لیے کی جانے والی کوشش اور لوگوں کی شرکت میں کوئی مناسبت ہی نہیں۔ ''مجھے معلوم نہیں تھا کہ محض چند دن کے نوٹس اور بغیر کسی بڑی تشہیری مہم کے لوگ اتنی بڑی تعداد میں جمع ہوجائیں گے، ذرا سوچیے کہ اگر آج وزیراعظم اور ساری سیاسی جماعتوں کے مرکزی قائدین یہاں ہوتے تو ہم پیرس کی اس ریلی کا جواب دے ڈالتے جو فرانس والوں نے چارلی ہیبڈو کے دفاع میں نکالی تھی‘‘، نعیم الرحمٰن اپنے تیز لہجے میں شاید کچھ اور بھی کہتے لیکن سراج الحق کے آنے کی صدا بلند ہوئی اور وہ اپنے امیر کے استقبال کے لیے چلے گئے۔
جیسے ہی سراج الحق اسٹیج پر نمودار ہوئے،مجمعے کے اندر توانائی کی لہر دوڑ گئی۔ان کے استقبال کا رنگ دیکھ کر خیال آیا کہ جماعت اسلامی کی سیاسی حیثیت اپنی جگہ لیکن اس کے امیر کا پاکستانی معاشرے میں ایک الگ مقام ہے ۔ یوں لگتا ہے کہ اب یہ صرف ایک سیاسی عہدہ نہیں رہا بلکہ اس سے بڑھ کر کچھ ہے۔ لوگ اس عہدے پر فائز ہونے والے سے لاکھ اختلافات کریں لیکن اس کی بات سننے اور اکثر اوقات ماننے سے انکار نہیں کرتے۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے جب سراج الحق نے سید منور حسن کی جگہ امارت سنبھالی تو لوگوں نے کیا کیا نہیں کہا لیکن کچھ ہی دنوں میں وہ ساری باتیں ختم ہوگئیں اور امیر جماعت اپنے مخصوص انداز کے ساتھ اسی مقام کو پہنچ گئے جو ان کے پیشرونے چھوڑا تھا۔ سیاسی حرکیات پر نظر رکھنے والوں کے لیے قابلِ غور موضوع ہے کہ امیر جماعت کے گرد عقیدت کا یہ ہالہ بنانے میں کارکنانِ جماعت کا بھی کچھ حصہ ہے ، جماعت اسلامی میں مسلسل برپا ہونے والے خاموش انتخابات کا اثر ہے یا اس عہدے پر آنے والے لوگوں کی اجلی زندگیاں ہیں جنہیں دیکھ کر لوگ ان کے بارے میں عام سیاسی لیڈروں کی طرح سوچنے سے گریز کرتے ہیں۔ خیر، سراج الحق تقریر کے لیے آئے تو ایک بار پھر لوگوں میں جوش کی ایک موج ابھری۔ گویا ہوئے تو کہا کہ وزیراعظم کو چاہیے کہ سانحۂ آرمی پبلک سکول پر بلائی جانے والی آل پارٹیز کانفرنس کی طرح ناموس رسولؐ پر بھی کانفرنس بلا کر متفقہ لائحہ عمل طے کیا جائے اور دنیا کو پیغام دیا جائے کہ یہ محض عوامی جذبات کا معاملہ نہیں بلکہ اس سے امنِ عالم کو بھی خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ اجتماع ختم ہو ا تو رات کے کھانے پر امیر جماعت کی خدمت میں عرض کیا کہ اس مسئلے پر اگر آپ حکومت پر دباؤ برقرار رکھیں تو آپ کی تجویز رنگ لا سکتی ہے۔ انہوں نے اتفاق تو کرلیا ، عمل باقی ہے۔
کراچی میں اس اجتماع کے روح پرور نظارے کے بعد ایک حوصلہ افزا مظاہرہ دو دن پہلے ہفتے کی چمکتی صبح لاہور کی ایک گلی میں دیکھا۔ آتے جاتے لوگوں کے بیچ خوانچہ فروشوں کی آوازیں اور ایک فقیر کی صدا میں اس گاڑی کی آواز سنائی نہ دی تھی جس میں دوعورتیں اور دو مرد سوار تھے۔ وہ گاڑی سے نکلے اور جلدی جلدی ایک مکان میں داخل ہوگئے۔ تھوڑی دیر گزری کہ پولیس کے باوردی نوجوانوں نے اس مکان کو گھیرے میں لے لیا۔ دوسری ٹولی کہیں سے نکلی اوربندوقیں تان کر درواز ے کے عین سامنے آکھڑی ہوئی۔ معلوم ہوا کہ وہ چار افراد جو اندر گئے ہیں اصل میں دہشت گرد ہیں جو بڑی واردات کی تیاری کررہے ہیں۔ یکا یک پولیس کے ایک جوان نے ٹھوکر مار کر درواز ہ کھولا اور اس کے ساتھ دوسرے جوان چیتے کی سی تیزی کے ساتھ مکان کے اندر گھس گئے۔ تھوڑی دیر تک گولیاں چلنے کی آوازیں سنائی دیں اور پھر دہشتگروں سے نمٹنے کے لیے خصوصی طور پر تربیت یافتہ جوان تین لاشوں اور ایک زندہ مجرم کو لیے مکان سے نکلے۔ اس کارروائی کے دوران ہی تفتیشی ٹیم بھی آن پہنچی جس نے ماہرانہ انداز میں وہاں موجود خون کے دھبوں سے لے کر گولیوں کے خول تک ہر چیزاپنے قبضے میں کر لی تاکہ عدالت میں جرم ثابت کرنے میں مددگار ہو۔ ان جوانوں کی پھرتی دیکھ کر لگتا تھا کہ غیر معمولی تربیت کی بھٹی سے کندن ہوکر نکلے ہیں۔ تفتیشی ٹیم ابھی اپنا کام کررہی تھی کہ اسٹیج سے اعلان ہوا، 'حاضرین ، یہ ہیں انسدادِ دہشتگردی کے لیے تیار کردہ نئی پولیس فورس کے وہ جوان جن کی تربیت میں فوج اور پولیس کے ماہرین نے نوماہ دن رات ایک کیے رکھے ہیں‘‘۔ جی ہاں وہ گلی، وہ دہشتگرد، خوانچہ فروش اور فقیر سب ایک ایسے منظر کا حصہ تھے جو لاہور کے ایلیٹ پولیس ٹریننگ سکول کے میدان میں بنایا گیا تھا۔میدان میں اترنے سے پہلے ان کی تربیت کا یہ عملی مظاہرہ دیکھنے کے لیے وزیراعظم، چیف آف آرمی سٹاف اور وزیر اعلیٰ پنجاب،اپنی غیر ضروری طویل تقریر کے ساتھ موجود تھے۔ اس تقریب میں تربیت کے عملی مظاہرے سے لے کر پریڈ تک نوجوانوں کی ہر حرکت گھڑی کی مشین کی مانند اتنی درست اور ایک دوسرے سے ہم آہنگ تھی کہ ان پر امریکی یا برطانوی پولیس کا گمان گزرتا تھا جو مجرم کے سرسے اس کی موت تک ٹلنے کا نام نہیں لیتی۔ یہ سب دیکھ کر مجھے تین مارچ 2009ء کو سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر دہشگردوں کے حملے کے فوری بعد آنے والی پولیس ٹیم یاد آگئی جو ڈنڈوں سے لیس ہوکر موقعہ واردات پر پہنچی اور اپنی نا اہلی سے وہاں موجود ہر سراغ مٹا دیا۔ پولیس کی وہ پھٹیچر گاڑی بھی یاد آئی جس میں سوار شیر جوان کرکٹ ٹیم پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کو آتا دیکھ کر اپنا راستہ بدل گئے تھے۔ بے شک ایلیٹ پولیس ٹریننگ سکول میں جو دیکھا وہ نااہلی سے قابلیت کی طرف ایک بڑی چھلانگ تھی۔ ایک ایسی چھلانگ جو درست سمت میں تو ہے مگر منزل سے ہنوز دور ہے۔