"HAC" (space) message & send to 7575

اقلیتیں اور این جی اوز

''دیکھیے ہمیں اپنے مسلمان بھائیوں سے بھیک نہیں چاہیے بلکہ عزت چاہیے، اگر ہمارا تاثر یہ ہے کہ ہمارے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے تو اس تاثر کو دور کرنے کی ذمہ داری اکثریت پر ہے نہ کہ ہم پر۔ ہم ایسے سینکڑوں واقعات کے شاہد ہیں جب ہمیں صرف اس لیے نقصان برداشت کرنا پڑا کہ ہم مسیحی ہیں ، اور ہاں، یہ بھی ذہن میں رکھیے کہ پاکستان بنانے میں ہمارے بزرگوں کا بھی کردار تھا۔ تحریک پاکستان میں مسلمانوں کا ساتھ دیتے ہوئے ان کا خیال تھا کہ مسلمان خود ہندو اکثریت سے تنگ آکر الگ وطن کی جدو جہد کررہے ہیں اس لیے ان کے وطن میں اقلیتوں کے لیے جو وسعت ہو گی اس کے امکانات ہندو اکثریتی بھارت میں بہت کم ہیں۔ کیا انہوں نے ٹھیک سوچا تھا، کیا ان کے خواب کو تعبیر ملی؟ ‘‘ ، یہ سوال اورخیالات ایک نوجوان مسیحی خاتون کے تھے اور وہ بڑے جوش وجذبے سے اس مجلس سے مخاطب تھیں جو سانحہ یوحنا آباد کے بعد ہونے والے واقعات کے حوالے سے لاہور کے ایک ہوٹل میںہورہی تھی۔ اس مجلس میں شرکاء کی اکثریت مسیحی تھی، جیسے ہی اس خاتون نے اپنی بات ختم کی وہاں موجود ہر شخص کو اپنا اپنا دکھ یاد آیا اور وہ اس کے اظہار کے لیے بے چین ہوگیا۔ انفرادی معاملات کے علاوہ وہاں موجودلوگوں میں کسی کو شکوہ تھا کہ مسیحی نوجوانوں کو نوکریوں میں امتیازی سلوک کا سامنا کرناپڑتا ہے، کسی کی شکایت تھی کہ زکوٰۃ فنڈز سے چلنے والے تعلیمی اداروں میں غیر مسلموں کو داخلہ نہیں دیا جاتا۔ ایک صاحب ایسے بھی تھے جنہوں نے باقاعدہ طور پر تعلیمی نصاب، اردو زبان کے اسلوب اور پاکستانی مسلمانوں کے رسم و رواج سے متعلق متاثر کن حد تک محنت سے کام کرکے ایسی چیزیں بتائیں جو بظاہر معمولی نظر آتی ہیں لیکن اپنی اصل
میں کسی دوسرے مذہب والے کی دل آزاری کا باعث بنتی ہیں۔ مثلاً یہ کہ ہمارے علماء جب جوش ِ خطابت میں یہود و نصاریٰ کی سازشوں کا ذکر کرتے ہیں تو یہ بھول جاتے ہیں کہ بہت سے نصاریٰ پاکستان میں بھی رہتے ہیں اور ان کی وفاداریوں پر بھی کسی کو کوئی شک نہیں، اسی طرح صفائی کرنے والے اور مسیحی کو جس انداز میں مترادف قرارد یا جاتا ہے یہ بھی نامناسب ہے، بعض سٹیج ڈرامو ں میں کسی گندے یا بدصورت شخص کے لیے ایسے الفاظ کا استعمال جو مسیحیوں کے لیے خاص ہیں تو یہ بھی ایسی حرکت ہے جس کی حوصلہ شکنی ضروری ہے۔ امتیازی سلوک کے شکوے سے لے کر مسلم زبان و بیان میں پائی جانے والی تشبیہات و استعارات تک جو کچھ بھی اس مجلس میں زیر بحث آرہا تھا وہ بطور دلیل کتنا ہی کمزور کیوں نہ ہو لیکن لہجوں میں گھلی تلخی یہ بتانے کے لیے کافی تھی کہ پاکستان کی یہ سب سے بڑی اقلیت ملکی نظام میں اپنی حیثیت سے مطمئن نہیں اور یوحنا آباد کے سانحے نے اس تلخی کو مزید بڑھا بھی دیا ہے ۔ ان کا یہ احساس کتنا ہی بے جا کیوں نہ ہو حکومت ، ریاست اور عوام کا فرض ہے کہ اس کا مداوا کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں۔
اقلیتیں تنہا پاکستان کا مسئلہ نہیں بلکہ دنیا کے ہر ملک کا مسئلہ ہیں۔ امریکہ کے سیاہ فام، بھارت کے مسلمان و مسیحی، چین کے مسلمان اور مسلمان ملکوں میں غیر مسلم مسلسل عدم تحفظ اور امتیازی سلوک کے احساس میں مبتلا رہتے ہیں۔ دنیابھر کی ریاستوں نے اپنے اپنے ماحول کے مطابق ان مسائل کا حل تلاش کررکھا ہے لیکن کہیں بھی ایسا نہیں ہوتا کہ اکثریت کو اقلیت کی دلجوئی کے لیے اپنی اقدار چھوڑنے یا ان میں کوئی تبدیلی لانے کے لیے مجبور کیا جائے۔ بندے ماترم جیسا ترانہ جو بھارتی مسلمانوں کے لیے تکلیف دہ ہے آج بھی بھارت میں رائج ہے، وہاں کی سڑکوں پر آوارہ گائے اور بندر ہر ایک کے لیے باعث مصیبت ہیں لیکن اکثریت کے عقیدے کے تحت سب کے لیے قابل تعظیم ٹھہرتے ہیں۔ چین کے مسلمانوں کو اس انداز میں مذہبی آزادیاں حاصل نہیں ہیں جو دنیا کے جمہوری ملکوں میں رائج ہیں لیکن چین کو یہ تجویز نہیں کیا جاتا کہ وہ اپنی اقلیت سے کیسا برتاؤ رکھے۔ امریکہ میں سیا ہ فاموں، مسلمانوں اور میکسیکن افراد کو روز مرہ زندگی میں جس رویے کا سامنا ہے اس پر یقینا وہاں کی حکومت کچھ نہ کچھ کر رہی ہوگی لیکن وہاں بھی اقلیتوں کی دل جوئی کے لیے اکثریت کو طرزِ زندگی بدلنے پر مجبور نہیں کیا جاتا۔ ملائیشیا میں اکثریت کو اقلیت کے کاروبار تک میںقانونی طور پر شریک بنا دیا گیا ہے لیکن دنیا میں شاید ہی کسی کو اس پر اعتراض کی جرات ہو۔ سوال یہ ہے کہ آخر پاکستان میں اقلیتوں کا معاملہ دنیا بھر کی توجہ کا مرکز کیوں ہے؟
عجیب بات ہے کہ ہمارے ہاں اقلیتوں کو مسائل اس وقت درپیش آنے لگے جب سمندر پار سے آنے والی این جی اوز نے یہاں ڈالر بانٹنا شروع کیے۔ اس پیسے کے زور پر یہاں ایسے روشن خیال مسلمان پیدا ہوئے جو اکثریت کو یہ سمجھاتے ہیں کہ اسلام کو کم ازکم اتنا ضرور تبدیل کردو کہ یہ یہاں کی اقلیتوں کے لیے قابل قبول ہوجائے۔ ان کے نزدیک ملکہ برطانیہ کا نگہبانِ کلیسا کا کردار تو ٹھیک ہے لیکن پاکستان کے صدر اور وزیراعظم کا لازمی طور پر مسلمان ہونا سخت ناگوار۔اسلام آباد، کراچی اور لاہور میں تحقیق کے ایسے کارخانے قائم ہوچکے ہیں جو ہمارے رہن سہن اور تہذیب کی ایسی تعبیر کرتے ہیں جو پاکستانیوں کو اجڈ، جنگلی اور انتہا پسند ثابت کرتی ہے۔ ان محققوں کوانگریزی زبان و ادب میں صلیبی جنگوں سے جڑے تشبیہات و استعارات نظرنہیں آتے لیکن اردو کو وہ پہلی فرصت میں مشرف بہ روشن خیالی کرنے پرتلے ہوئے ہیں۔ کیا یہ ایک پوچھا جانے والا سوال نہیں کہ جب سے پاکستان میںبین المذاہب مکالمے کی این جی اوز وجود میں آئی ہیں تب سے یہاں اقلیتیںغیر محفوظ کیوں ہوگئی ہیں؟ اقلیتوں کے نام پر ہونے والا یہ کاروبار اتنا منافع بخش ہے کہ اب ہمارے بعض علماء بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے سے گریز نہیں کرتے۔ یہ عجیب ڈرامہ ہے کہ کچھ علماء اقلیتوں کی حفاظت کے نام پر ڈالروں کے اس بحر ظلمات میں غوطے لگا رہے ہیں تو روشن خیال خواتین و حضرات اقلیتوں کے دفاع کے نام پریہ اپنی جیبیں بھر رہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں سے ایک ہے جہاںعوامی سطح پر اقلیت اور اکثریت کے درمیان کوئی امتیاز نہیں برتا جاتا۔ ہمارے دیہات، قصبوں اور شہروں میں غلط فہمی یا سازش پر مبنی انفرادی واقعات کو چھوڑ کر عمومی صورتحال خاصی تسلی بخش ہے۔ بین المذاہب ہم آہنگی کا دھندا کرنے والوں کو یہ بھی علم نہیں کہ پنجاب کے اکثر دیہات میں کرسمس کے موقعے پر لگنے والے میلے ایک مشترکہ تہوار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ سندھ میں ہندوؤں کے ساتھ مسلمان بھی ہولی دیوالی مناتے ہیں۔ آج تک کسی بھی حکومت نے کسی خاص مذہبی تہوار پر پابندی لگانے کی حماقت نہیں کی بلکہ ہمیشہ ایسے موقعوں پر سہولیات ہی فراہم کیں۔ ایک طویل عرصے سے کچھ این جی اوز بقائے باہمی کی اس خوبصورت فضا کو برباد کرنے کے لیے سائنسی بنیادوں پر کوشش میں مصروف ہیں۔ یہ لوگ واقعات کی غلط تفصیلات بیان کرنے سے لے کر مذہبی اختلافات کو ہوا دینے تک سب کچھ کررہے ہیں۔ اب ان کے ہاتھ میں یوحنا آباد کا واقعہ آگیا ہے۔ دہشت گردی کی یہ واردات ایسی نہیں جسے اقلیتوں پر مظالم کے کھاتے میں ڈالا جاسکے،اس طرح کی دہشت گردی ہر پاکستانی بھگت رہا ہے۔ دہشت گردوں سے کوئی مسجد محفوظ ہے نہ کوئی اور عبادتگاہ، مگر این جی اوز مافیا اس واقعے کو اکثریت بمقابلہ اقلیت کا رنگ دے کر ڈالر کھرے کرنے کے چکر میں ہے۔ جہاں ہمارے مسیحی بھائیوں کو ان کی چکر بازیوں سے محتاط رہنا ہے وہاں اب حکومت کو بھی چاہیے کہ ان این جی اوز کو کم ازکم اتنا پابند تو کردے جتنا وہ مدارس کو کرنا چاہتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں