"HAC" (space) message & send to 7575

شجرِ احتساب

سیاستدانوں کے مالی احتساب کی روایت پاکستان میں جنرل ایوب خان نے ڈالی۔ ایک سادہ مزاج فوجی کی طرح ان کا خیال تھا کہ سیاستدان ملکی وسائل پرذاتی اغراض کے لیے قبضہ جمانے کے لیے لڑتے رہتے ہیں اور جسے اقتدار مل جاتا ہے وہ ملک کو ترقی دینے کی بجائے اپنا گھر بھرنے پر توجہ دیتا ہے۔ ان کے نزدیک یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ ایک شخص سیاست میں روپیہ خرچ کرے اورکوئی سرکاری عہدہ ملنے پراس روپے کی واپسی کی کوشش نہ کرے۔ اس مفروضے کی بنیاد پر انہوں نے ایبڈو جیسے من چاہے قوانین بنائے اور سیاستدانوں کی ایک بڑی تعداد کو عدالتوں کے ذریعے نا اہل قرار دلوا دیا۔ سیاسیات کے اس تصور کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے لیے جمہوریت، آزادی ، حقوق اور پارلیمنٹ جیسے الفاظ ہمیشہ بے معنی رہے۔ اپنے دورِاقتدار میں مارے باندھے اگر سیاستدانوں سے انہیں کبھی واسطہ بھی پڑا تو بس اتنا ہوا کہ ان کے خیالات میں مزید پختگی پیدا ہوگئی اور وہ ان لوگوں کو ایمان کی حد تک ''قابلِ احتساب‘‘ سمجھنے لگے۔ جنرل صاحب سیاستدانوں سے اس حد تک نفرت میں مبتلا تھے کہ جب انہیں اقتدار چھوڑنا پڑا تو انہوں نے اپنے ہی بنائے ہوئے دستورکو بالائے طاق رکھتے ہوئے ، حکومت جنرل یحییٰ خان کے سپرد کردی کیونکہ دستور پر عمل کی صورت میں اقتدار ایک سیاستدان کو سونپنا پڑتا۔ 
جنرل ایوب خان نے سیاستدانوں کے بارے میں جو تصورات قائم کیے، اگر ان کی ذات تک محدود رہتے تو شاید ان کے ساتھ ہی دفن ہوچکے ہوتے لیکن ایسا ہو نہیں سکا۔ ان کے خیالات
ایک وائرس کی مانند فوج اور بیوروکریسی میں پھیلتے چلے گئے۔ جنرل یحییٰ خان بھی سیاسی عمل کو ناقابل اعتماد ہی گردانتے رہے۔ عوام کا ووٹ اور اس کی بنیاد پر ملنے والی سیادت ان کے ہاں بار نہ پا سکی۔ ان کے معصومانہ شوقِ صدارت کی تاب نہ لاکر ملک ٹوٹ گیا، پاکستان کو ایک بڑی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا مگروہ سیاست و اہل سیاست کو ہمیشہ چور ہی سمجھتے رہے۔ ان کے نزدیک اصول یہ تھا کہ کوئی سیاستدان کبھی محب وطن نہیں ہوسکتا اور بس چلنے پر وہ ملک وقوم کو فروخت کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ ان کی سادگی ملاحظہ فرمائیے کہ حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ کے مطابق وہ صدقِ دل سے ملک توڑنے کی ساری ذمہ داری سیاستدانوں پر ڈال دیتے ہیں اور اپنے اقتدار کو ملک کے لیے باعثِ خیرو برکت سمجھتے ہیں۔ 
جنرل ضیاء الحق کے ایمان افروز خیالات بھی اپنے دونوں پیشروؤں سے کم نہیں تھے۔ انہوں نے سیاستدانوں کے قابل احتساب ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے نظریات کی پاکیزگی پر بھی زور دیا۔ ان کے دور میں ہر وہ سیاستدان جو ان کے طے کردہ معیارات پرپورا اترا ،آزادی کا مستحق ٹھیرااور بقیہ کے لیے احتساب مقدر ہوگیا۔ پیپلز پارٹی تقریباً غیر مسلم اوریقیناً غیر محب وطن قرار دی گئی۔ اس سے تعلق رکھنے والا ہر وہ شخص جس نے جنرل صاحب کی بیعت نہیں کی، بدعنوان سمجھا اور لکھا گیا۔ تاریخی مجبوریوں کی وجہ سے ذوالفقار علی بھٹو کے مکانات کرپشن کے پیسے سے بنائے ہوئے قرار نہیں دیے جاسکے کہ وہ ان کے اقتدار میں آنے سے پہلے بھی موجود تھے لیکن ان کے دورِ اقتدار میں ان کی ذاتی رہائش گاہ میں تبدیل کیے گئے پردے، بدل دی جانے والی ٹونٹی یا خریدا گیا لوٹا بدعنوانی کے ثمرات قرار دیے گئے۔ جہاں تک بھٹو صاحب کے خیالات کا تعلق ہے، ان کی تردید تاریخی انداز میں کی گئی یعنی ہر اس شخص کو جسے بھٹو صاحب (اپنی بے اعتدالی کے باعث) غدار سمجھتے تھے، جنرل صاحب کے حلقۂ صدارت میں محب وطن قرار دے دیا گیا بلکہ حب الوطنی کے اس تیرتھ میں تازہ واردوں کی حب الوطنی پر شک کرنا بھی غداری گردانا گیا۔ جنرل صاحب نے پرمٹ اور پلاٹ اپنی سیاست کے اجزائے اعظم بنا کر ایک ایسا سیاسی طبقہ پیدا کردیا جو واقعی ملکی وسائل کی لوٹ مار کو حب الوطنی اور صحیح الفکری کے تقاضوں کے عین مطابق سمجھتا تھا۔ جنرل صاحب چلے گئے لیکن اپنے بنائے ہوئے سیاستدانوں کی کھیپ اپنے جانشینوں کے لیے چھوڑ گئے تاکہ بوقتِ ضرورت کام آئے۔ 
جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے درمیان کے سیاسی عشرے میں سیاستدانوں نے ایک دوسرے کے گریبان پکڑنے سے لے کر ہاتھ پکڑنے تک کا سفر بڑی جلدی طے کرلیا۔ یکے بعد دیگرے انتخابات نے جنرل ضیا کے پیدا کردہ سیاستدانوں کو مجبورکردیا کہ وہ میدان میںباقی رہنے کے لیے طاقت کا سرچشمہ عوام کو سمجھیں اور ان کی امنگوں کے مطابق اپنی ترجیحات کا تعین کریں، جس نے اپنا طرزِ فکر تبدیل کرلیا وہ نواز شریف بن گیا جو نہ بدل سکا وہ چودھری شجاعت حسین ہوگیا۔ ان دس برسوں میں سیاستدانوں نے ایک دوسرے کے خلاف احتساب ، احتساب کا شور مچایا لیکن بہت جلد سمجھ گئے کہ دنیا ان کے احتساب کو انتقام کے مترادف سمجھتی ہے۔ انہوں نے خاموشی سے احتساب کا ڈرامہ ختم کیا اور بٹے ہوئے ملک کو جوڑنے کے چکر میں لگ گئے ۔ جیسے ہی سیاست کے احتساب سے پاک ہونے کے امکانات روشن ہوئے تو پہلے سرگوشیوں اور پھر اونچے سروں میں احتساب کا راگ الاپا جانے لگا۔ یہ راگ اس وقت تک جاری رہا جب تک جنرل پرویز مشرف خود احتساب، احتساب پکارتے ہوئے نہ آن براجے۔ جنرل صاحب نے اپنے جیسے سابقہ حضرات کی بنائی گئی احتسابی قربان گاہ دھو کر صاف کی اور سیاستدانوں کو جوق در جوق اس میں دھکیل دیا؛ البتہ یہ احتیاط روا رکھی کہ اس قربان گاہ کے چور دروازوں سے وہ تمام اصحاب جوق در جوق نکل بھی جائیں جنہوں نے چوری توکی تھی لیکن اب قلبِ سلیم و عزمِ صمیم کے ساتھ جنرل صاحب کے حضور پیش ہوکر ان کی غیر مشروط بیعت کے عوض اسمبلی کی یقینی نشست حاصل کرسکیں۔ اسی قربان گاہ سے جنرل صاحب کو ق لیگ ملی، ایک گریجوایٹ اسمبلی ملی، یکے بعد دیگرے تین وزرائے اعظم ملے اور وردی میں صدر رہنے کا قانونی جواز میسر آیا۔ 
سیاستدانوں کے احتساب کے خیال کی جو ننھی سی کونپل 1958ء میں جنرل ایوب خان کی کشتِ خیال میں پھوٹی تھی وہ ا ب ایک شجرِ سایہ دار کی صورت میں پورے ملک پر سایہ فگن ہے۔ احتساب کا یہ درخت ایسے بے شمار چرند پرند کی آماجگاہ ہے جو عام حالات میں تو اپنے انڈے سیتے یا جگالی کرتے رہتے ہیں لیکن بوقتِ ضرورت چیخ چیخ کراحتساب، احتساب پکارکر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ احتساب کی یہ صدا کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ خدا کے سادہ دل بندے احتساب کو راہِ مستقیم سمجھ کر اس پر قدم رکھتے ہیں اور گرفتارِ بلا ہوجاتے ہیں۔ کام مکمل ہونے پر بڑی فرمانبرداری سے یہ چرند پرند پہلے کی طرح اپنے انڈے سینے یا جگالی کرنے جیسی تعمیری سرگرمیوں میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ شجرِ احتساب کے پرندے پر پھڑپھڑا کر اپنے گھونسلوں سے باہر آ رہے ہیں اور چرند ے جگالی چھوڑکر اپنے اپنے تھانوں پرکھڑے ہوچکے ہیں۔ جو یہ نشانیاں نہیں دیکھ رہے اس کا مطلب ہے وہ ٹی وی بھی نہیں دیکھ رہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں