"HAC" (space) message & send to 7575

تین سیاسی کارکن

عابد انوار علوی سال بھر پہلے تک مسلم لیگ ن لیہ کا ضلعی صدر تھا بلکہ یوں کہہ لیجیے کہ لیہ والے اسے ہی مسلم لیگ سمجھتے تھے۔ وجہ یہ کہ اس نے اس وقت بھی مسلم لیگ ن کا نام زندہ رکھا جب اس کا نون، قاف ہو چکا تھا۔ وہ مشرف دور میں نواز شریف کا نعرہ لگاتا اورگرفتار ہوجاتا، رہا ہوکر پھر یہی نعرہ لگاتا اور دوبارہ گرفتار ہوجاتا۔ اس دور میںشہرکے تجربہ کار سیاسی کارکنوں نے اسے روپوش ہونے کا مشورہ بھی دیا لیکن یہ ڈٹا رہا۔ جنرل مشرف نے بلدیاتی انتخابات کرائے تو اس نے زندگی میں پہلی بار انتخاب لڑا اور جیت کر لیّہ میں تنہا اپوزیشن لیڈر کا کردار اداکرنے لگا۔ پھر اس نے مسلم لیگ ن کے نام پر تحصیل لیّہ کی نائب نظامت حاصل کی اور اپنی جماعت کے بکھرے ہوئے کارکنوں کو جمع کرکے ق لیگ کی حکومت کے لیے ایک دردِ سر بنا دیا۔ 2008ء کے انتخابات سے پہلے جب میاں نواز شریف اپنی جلاوطنی کاٹ کر پاکستان پہنچے تو عابد انوار علوی نے اپنی جدوجہد سے جو کچھ کمایا تھا شہر بھر کے ووٹوں کی صورت میںاپنی جماعت کے سپرد کردیا۔ 2013ء کے انتخابات ہوئے تو لیّہ میں صاف نظر آرہا تھا کہ مسلم لیگ ن جیت جائے گی لیکن ایک واقعے نے سب کچھ بدل دیا۔ ہوا یہ کہ پولنگ سے ایک دن پہلے صوبائی اسمبلی کے لیے مسلم لیگ ن کا امیدوار نااہل قرار پایا اور ایک آزاد امیدوار چودھری اشفاق جو کسی شمار میں ہی نہیں تھا، اسمبلی کا رکن منتخب ہوا اور ن لیگ میں شامل ہوگیا۔ حکمران جماعت میں آکرچودھری اشفاق کو اندازہ ہوا کہ پارٹی میں عابدکی موجودگی اس کے لیے ہمیشہ دردِ سر بنی رہے
گی اس لیے انہوں نے اسے نکلوانے کے لیے سارے ہتھکنڈے استعمال کیے اورکامیاب رہے۔ آمریت کے خلاف اس کی جدوجہد کا سرمایہ کسی کام نہ آیا اوراسے نئے سیاسی حقائق کی قربان گاہ کی طرف دھکیل دیا گیا۔ لیّہ میں یہ سلوک تنہا عابد کے ساتھ ہی نہیں ہوا بلکہ مسلم لیگ ن کے ہر اس کارکن کے ساتھ ہوا جس کے بارے میں قابل احترام رکنِ صوبائی اسمبلی کو گمان بھی گزرا کہ جماعت کے اندر اس کا کچھ اثر و رسوخ موجود ہے۔ ان حالات میں بلدیاتی انتخابات آگئے تو یہ سارے لوگ عابد کے پاس چلے آئے کہ ہمیں پارٹی ٹکٹ کے لیے درخواستیں دینی چاہئیں تاکہ حجت تمام ہوسکے۔ سوچ بچار کے بعد یوتھ ونگ کے سابق صدر کی طرف سے پارٹی ٹکٹ کی درخواست داخل کی گئی تو وہی ہوا جس کی توقع تھی، یعنی درخواست گزار کی بے عزتی کے بعد درخواست مسترد کردی گئی۔ اس کے بعد اپنے ساتھیوں کے کہنے پر عابد ایک بار پھر متحرک ہوا اور ورکرز اتحاد کے نام پر ایک گروپ تشکیل دے کر بلدیاتی انتخابات کے میدان میں اتر آیا۔ اب وہ شیر کی بجائے بالٹی کے نشان پر الیکشن مہم چلا رہا ہے اور ن لیگ کے حرم میں نئے آنے والوں کے لیے ایک عذاب بنا ہوا ہے کہ شہر کا شہر اس کے ساتھ ہے۔ الیکشن میں نعرے تو لگتے ہیں اور اس کے سامنے جب شیر کا نعرہ لگتا ہے تو اس کے چہرے پر ایک رنگ سا آکے رہ جاتا ہے۔ دل میں کیا ہوتا ہوگا ، مجھے معلوم ہے نہ وہ کچھ کہتا ہے۔ 
بہاولنگر کا غلام محی الدین سادگی، خلوص، ایثار، دلیری اور ہوشیاری کا عجب مرکّب ہے۔ گزشتہ چار نسلوں سے غریب بھی ہے اورمسلم لیگی بھی۔ بے نظیر بھٹوکے خلاف جب میاں نواز شریف نے تحریک نجات چلائی تو اس وقت وہ سکول میں پڑھتا تھا اور تب بھی ہر روز پولیس کی لاٹھیاں کھا کر گھر آتا تھا۔ پرویز مشر ف کے دور میں تو اس پر وہ ظلم ٹوٹے کہ سن کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ سب کچھ سہنے کے بعد اس بے وقوف کو یہ سمجھ نہیں آیا کہ حقائق سے سمجھوتہ کرنا زندگی میں کتنا اہم ہے۔ 2008ء میں پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو اس نے پاگلوں کی طرح اپنے محلے کی تعمیر و ترقی کے لیے کام کیا، وہ سیوریج اور واٹر سپلائی کے لیے فائلیں بغل میں دبائے بہاولنگر سے لاہور تک 
دوڑتا پھرا۔ کہیں یہ منت سے کام نکلواتا اور کبھی احتجاج کی دھمکی دے کر بیوروکریسی کو متحرک کرلیتا۔ اس کی محنت کا ثمر تھا کہ اس کے محلے کے لیے سیوریج اور واٹر سپلائی کی سکیمیں منظور ہوگئیں۔ جب یہ ہوچکا تو یہاں کا عزت مآب ایم پی اے رانا عبدالرؤف اس سے خطرہ محسوس کرنے لگا۔ بات بڑھتی چلی گئی اور یہاں تک پہنچی کہ بلدیاتی انتخابات کے لیے اس نے ٹکٹ کی درخواست دی تو رانا صاحب نے فرمایا: ''میں کتے کو ٹکٹ دے دوں کا لیکن تجھے نہیں دوںگا‘‘۔ غلام محی الدین جس نے کبھی جنرل پرویز مشرف سے خم نہیں کھایا تھا، یہ بات سن کر بھلا کیسے خاموش رہتا، اس نے ترکی بترکی جواب دیا اور چلا آیا۔ اس کے بعداس نے اپنے محلے کے سامنے سے گزرتی ریلوے لائن کے ساتھ ایک تمبو گاڑا اور گتے کے ایک ٹکڑے پر اپنے محلے داروں کے لیے سوال لکھ کر لٹکا دیا کہ ''آپ میرے ساتھ ہیں یا ایم پی اے کے ساتھ؟‘‘۔ محلے والوں نے اس سوال کا جواب19نومبر کودیا اور اسے شہرکا سب سے زیادہ ووٹ لینے والا کونسلر بنا دیا۔ 
کسی نے نظریہ، آدرش، وفا اور جمہوری سوچ کا پیکر دیکھنا ہو تو ملتان کے نذیر احمد کاٹھیا کو دیکھے۔ نذیر شہر میں رکشا چلاتا تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو2007ء میں وطن لوٹیں تو وہ ان کے استقبال کے لیے کراچی پہنچااور کارساز دھماکے میں زخمی ہوگیا۔ محترمہ شہید ہوئیں تو اس کی حالت یہ ہوگئی کہ گھروالوں کو فکرہوئی کہ کہیں اسے نہ کچھ ہوجائے۔ 2008ء کے انتخابات میں اس نے بغیر کسی ٖصلے کے دن رات ایک کردیا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت بن گئی تو اسے دور پھینک دیا گیا، ویسے بھی سرکار دربار میں رکشا ڈرائیورکی اوقات ہی کیا ہے۔ اس نے بھی کوئی شکایت نہ کی اور ملتان کی سڑکوں پر رکشا دوڑاتا رہا۔ 2013ء کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کو اپنی بداعمالیوں کی سزا ملی اور یوں ملی کہ بلدیاتی انتخابات میں پیپلزپارٹی کے جغادری کارکن بھی پارٹی کا ٹکٹ لینے سے گریزا ں ہوگئے۔ اپنی پارٹی کی یہ حالت دیکھ کر اس کا تو کلیجہ ہی کٹ گیا۔ اس نے ایک بار پھر صلہ و ستائش سے بے پروا ہو کر اپنا رکشا اونے پونے داموں بیچا اور ملتان کی یونین کونسل نمبر 42 سے چیئرمین کے امیدوار کے طور پر کاغذات جمع کراکے پارٹی کو تیر کے نشان کے لیے درخواست دے دی۔ پیپلزپارٹی جو امیدواروں کی تلاش میں ماری ماری پھر رہی تھی اسے ٹکٹ دینے پر مجبور ہوگئی۔ رکشا بیچ کر جو پیسے ہاتھ لگے آج کل الیکشن مہم میں لگ رہے ہیں۔ اتنے پیسوں میں چلنے والی مہم کی شان یہ ہے کہ خود نذیر احمد کاٹھیا ایک ایسا کرتا پہن لیتا ہے جس پر بے نظیر بھٹو اور ذوالفقار علی بھٹو کی تصویریں چھپی ہیں، ہاتھ میں پیپلزپارٹی کا جھنڈا اٹھاتا ہے اور ووٹ مانگتا ہے۔ شہر بھرکے رکشے اور ریڑھی والے اس کے جاننے والے ہیں، اس لیے کہیں جانا ہوتا ہے توکوئی نہ کوئی اسے لفٹ دے دیتا ہے۔ نذیر کاٹھیا کی تصویر میں نے سوشل میڈیا پر ڈالی تو وہ ایک ٹرینڈ بن گئی۔ اب سنا ہے کہ یوسف رضا گیلانی نے اپنی جیب سے ایک نیا رکشا دلوانے کا وعدہ کیا ہے۔ شاید یوسی 42 والے بھی نذیر کاٹھیا کی لاج رکھ لیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں