"HAC" (space) message & send to 7575

دستاویزاتِ پاناما

بنیادی سوال جو پاناما پیپرز سے اٹھتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا آف شور(ملک سے باہر) کمپنی بنانا جرم ہے ؟ پاکستانی قوانین کے مطابق آف شور یا ملک کے اندر کمپنی بنانے کی کوئی ممانعت نہیں ۔ پاکستان کا ہر شہری یہ حق رکھتا ہے کہ اس کے پاس اگر مطلوبہ سرمایہ ہے تو وہ اسرائیل کے سوا دنیا کے جس حصے میں چاہے کمپنی بنا کر کاروبار شروع کردے۔البتہ پاکستانی ادارے یہ تفتیش ضرورکرسکتے ہیں کہ ملک کے اندر کسی کاروبار میں لگایا جانے والا یا ملک سے باہر لیجایا جانے والا سرمایہ قانونی طریق کار کے مطابق کمایا اور لے جایاگیا ہو۔جہا ں تک کسی کی کمائی کے حساب کتاب کی بات ہے تو فیڈرل بورڈ آف ریونیو صرف گزشتہ چھ سال کا آڈٹ کرسکتا ہے، چھ سال سے پہلے کمائے ہوئے سرمائے کے بارے میں سوالات صرف اسی صورت میں اٹھائے جاسکتے ہیں اگر اس کا تعلق تعزیراتِ پاکستان میں درج کسی جرم سے نکل آئے۔ گویا پاناما لیکس کی بنیاد پر پاکستان میں اٹھنے والے ہنگامے پر کوئی کمیشن، عدالت یا کوئی اور ادارہ وزیراعظم نواز شریف کے دونوں بیٹوں سے زیادہ سے زیادہ یہی سوال کرسکتا ہے کہ ان کے پاس آف شور کمپنیوں کے لیے سرمایہ کہاں سے آیا۔ اس تفتیش نے پاکستان میں رائج قوانین کے دائرے میں رہنا ہے تو پھرسوال پوچھنے والے ادارے کو یہ بات مدنظر رکھنا ہوگی کہ 2009ء سے پہلے کے کسی لین دین پر سوال نہیں ہوسکتا۔ مذکورہ کمپنیوں کی پیدائش 2009ء کے بعد ہونے کی صورت میں وزیراعظم کے صاحبزادگان کو اس کا جواب دینا ہوگا۔ مریم نواز سے اس بارے میں کوئی بھی قانونی سوال اس لیے نہیں پوچھا جاسکتا کہ ان کا نام کسی کمپنی کے مالکان میں درج نہیں بلکہ کمپنی بنانے والوں کے انتقال کرجانے کی صورت میں وراثتی معاملات طے کرنے والے کے طور پر لکھا گیا ہے۔ 
پاناما لیکس کے اٹھائے گئے طوفان کی زد میں اسلام آباد کے ساتھ ساتھ ماسکو، لندن اور آئس لینڈ کا دارالحکومت ہے۔ آئس لینڈ کے وزیراعظم تو استعفیٰ دے کر الگ ہوگئے ہیں لیکن اس استعفے کے زور پر سیاسی دباؤ اسلام آباد میں پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ حالانکہ آئس لینڈ کے وزیراعظم کا معاملہ ہمارے وزیراعظم سے بالکل الگ ہے۔ وہاں وزیراعظم کو استعفٰی اس لیے نہیں دینا پڑا کہ وہ ایک آف شور کمپنی کے حصہ دار تھے بلکہ اس لیے دینا پڑا کہ انہوں نے اس کمپنی میں اپنی حصہ داری کا ذکر اپنے اثاثوں میں نہیں کیا جس کے 2009ء سے قانونی طور پر پابند تھے۔ پھر اسی کمپنی کے ایک بینک سے لین دین کے معاملات ان کی وزارت عظمیٰ کے دور میں اس انداز میں حل ہوئے کہ ان کی کمپنی کو غیر معمولی فائدہ ہوا۔اس کے برعکس وزیراعظم نواز شریف کے خاندان کا کاروبار گزشتہ پچاس برسوں سے دنیا کے کئی ملکوں میں پھیلا ہوا ہے، اس لیے ان کے پاس موجود سرمائے کو سیاسی اشو تو بنایا جاسکتا ہے ، لیکن اس کی بنیاد پر کوئی قانونی کارروائی ممکن نہیں ۔یوں بھی وزیراعظم کے صاحبزادوں کی آف شور کمپنیاں پاکستان میں کاروبار نہیں کررہیں، اس لیے یہ کہنا بھی ممکن نہیں کہ حکومتی اثرورسوخ کی وجہ سے ان کا کاروبار زیادہ تیزی سے ترقی کررہا ہے۔ اس نکتے سے بخوبی آگاہ ہونے کے باوجود تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی نے جس انداز میں اس معاملے کے ذریعے حکومت پر دباؤ ڈالا ہے ، بلا شبہ ان کی بڑی کامیابی ہے ۔ وزیراعظم نے نہ صرف یہ دباؤ محسوس کیا بلکہ اس کے زیرِ اثر آکرمعاملے کی تحقیق کے لیے سابق جج پر مشتمل یک رکنی کمیشن بنانے کا بھی اعلان کردیا۔ظاہر ہے اگر وزیراعظم کسی مسئلے پر دبا ؤمیں آکر فیصلہ کریں گے تو کوئی بھی ہوشیار اپوزیشن مزید زور وشور سے اس کی مخالفت کرے گی، سو اس وقت یہی ہورہا ہے اور مزید کچھ عرصے تک ہوتا رہے گا۔ 
حکومت کے خلاف شورو شغب میں سب سے توانا آواز پیپلزپارٹی کی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی قیادت 1988ء سے لے کر آج تک بدعنوانی کے ان الزامات کا بھی سامنا کررہی ہے جو کبھی ثابت نہیں ہوسکے۔ تاثرکچھ بھی ہو حقیقت یہ ہے کہ عدالتوں میں محترمہ بے نظیر بھٹو شہید یا صدر آصف علی زرداری کے خلاف کوئی جرم ثابت نہیں ہوسکا لیکن محترمہ کو جلاوطنی اور صدر زرداری کو جیل کی سزاکاٹنی پڑی۔اب نواز شریف اور ان کا خاندان ایسے ہی الزامات کی زد میں ہیں جو قانونی بنیادوں پر بے شک استوار نہ ہوسکیں لیکن میڈیا کے ذریعے ان سے سیاسی فائدہ اٹھانا ممکن ہے، تو پیپلزپارٹی اس موقعے کو ہاتھ سے جانے نہیں دے گی۔ ان الزامات کو ہوا دے کر پیپلزپارٹی کو یہ فائدہ بھی ہوگا کہ سندھ میں اس کی حکومت کی کارکردگی پر اٹھنے والے اعتراضات بھی اس سیاسی گردو غبار میں گم ہوجائیں گے۔ اس کے علاوہ مسلم لیگ (ن) جو اورنج ٹرین ، بجلی کے کارخانوں اور موٹرویز کی تعمیر کا کریڈٹ جارحانہ انداز میں اپنے نام کرتی چلی جارہی تھی، اب ان الزامات کے دفاع پر مجبور ہوجائے گی۔ 
حکومت کو سیاسی طور پر تگنی کا عارضی ناچ نچانے میں دوسرا کردار ہیں عمران خان۔ ان کی تحریک انصاف اپنے بے فائدہ دھرنے کے مضر اثرات کا شکار ہوکر اتنی بے اثر ہوتی جارہی تھی کہ خیبرپختونخوا میں اپنی بہتر حکومتی کارکردگی کے باوجود لوگ اسے 2018ء کے الیکشن میں ایک سنجیدہ چیلنج کے طور پر بھی لینے کے لیے تیار نہیں تھے۔ تحریک انصاف پاناما پیپرز کو وفاقی حکومت کے چہرے پر دھول ڈالنے کے لیے استعمال نہ کرتی تو یہ اس کی آخری حماقت ہوتی۔پاناما لیکس کے ذریعے لگنے والے الزامات کی قانونی حیثیت کتنی بھی کمزور ہو، تحریک انصاف اس سے سیاسی فائدہ حاصل کرنے میں خاصی کامیاب رہی ہے۔ ان الزامات سے پہلے بھی عمران خان شریف خاندان کے کاروبار کو سیاسی موضوع بنانے کی ناکام کوشش کرتے رہے ہیں، لیکن پاناما لیکس نے عمران خان کے الزامات کووہ مواد دے دیا ہے جس کی بنیاد پر وہ آئندہ الیکشن تک مسلم لیگ ن کو با آسانی مصیبت میں مبتلا رکھ سکتے ہیں۔ خان صاحب اور ان کی پارٹی کے پاس یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ پاناما لیکس کو' گو نواز گو ‘ کے نعرے کی طرح مسلم لیگ ن کی چھیڑ بنادیں اور غصے میں آکر یہ کوئی بڑی غلطی کر بیٹھے۔ وزیراعظم کی طرف سے اس معاملے پرکمیشن کا اعلان ایسی ہی ایک غلطی ہے مگر اتنی بڑی نہیں کہ تحریک انصاف اس سے کوئی بڑا فائدہ اٹھا سکے۔ 
پاکستانی تناظر میں پاناما لیکس کی بے وقعتی اپنی جگہ لیکن اس پرملک بھر میں جو بحث ہوئی اس سے یہ ضرورت ابھر کر سامنے آئی ہے کہ وزیراعظم نواز شریف اور ا ن کے خاندان کو اپنے مالی معاملات میں مزید شفافیت لانا ہوگی۔ یہ درست ہے کہ حسین نواز اور حسن نواز رائج قانون کے تحت اپنے کاروبار کے گوشوارے جمع کرانے کے پابند نہیں، لیکن سیاستدانوں کو قانونی رخصتوں سے فائدہ اٹھانا زیب نہیں دیتا بلکہ اعلیٰ اخلاقی اصولوں پر عمل کرنا ہی ان کی توقیر میں اضافے کا باعث ہے۔ اب جبکہ دستاویزاتِ پاناما سے اٹھنے والا طوفان بیٹھا جاتا ہے، کیا ہی خوب ہو کہ وزیراعظم اور ان کے بچے اپنے اپنے اثاثے رضاکارانہ طور پر نہ صرف ظاہر کردیں بلکہ بارہ اکتوبر 1999ء سے لے کر آج تک اپنی کاروباری ترقی کی داستان بھی سنا دیں ۔ وزیراعظم کے خاندان کی طرف سے اپنے مالی معاملات عوام کے سامنے پیش کردینے سے ملک میں ایسی مثال قائم ہوجائے گی جس کی پیروی آئندہ ہر وزیراعظم کو کرنا پڑے گی، یہی پاکستان کی کامیابی ہوگی، یہی جمہوریت کی مضبوطی ہوگی۔ اے کاش، اے کاش!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں