خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت نے اکوڑہ خٹک کے دارالعلوم حقانیہ کے لیے تیس کروڑ روپے دے کر ثابت کیا ہے کہ تحریک انصاف صوبے کے مذہبی طبقے سے کٹ کر رہنے کی بجائے انہیں اپنے ساتھ جوڑنے کی راہ پر چل نکلی ہے۔عمران خان کا یہ موقف کہ وہ مدارس کے طلبہ کو قومی دھارے میں لانا چاہتے ہیں، دارالعلوم حقانیہ کو دستیاب اعانت پر ہونے والے ہر اعتراض کا مسکت جواب ہے۔ گزشتہ پندرہ برس سے پاکستان کی یکے بعد دیگرے آنے والے حکومتوں نے مدارس کی مشکیں کس کر مغرب کو خوش کرنے کا جو وتیرہ اختیار کررکھا تھا اس کے برعکس عمرا ن خان نے عملی اقدام سے واضح کردیا ہے کہ وہ غیر ملکی قوتوں کی بجائے اپنے عوام کی خوشنودی کے حصول کے لیے فیصلے کریں گے۔
خیبر پختونخوا حکومت کا یہ اقدام اس پس منظر میں خاص طور پر اہم ہے کہ سکیورٹی کے نام پر تمام وفاقی اداروں نے مدارس کو صاحبانِ ثروت کی طرف سے ملنے والی امداد کے راستے بند کررکھے ہیں۔ صورتحال اس قدر خراب ہوچکی ہے کہ اب کوئی دولت مند مسلمان کسی مدرسے کو تھوڑی سی امداد دیتے ہوئے بھی ہزار بار سوچتا ہے اور آخرکار ہاتھ روکنے میں ہی اپنی عافیت سمجھتا ہے۔مجھے ذاتی طور پر ایسے لوگوں کے بارے میں علم ہے جو سال 2001ء سے پہلے کسی دینی مدرسے کی مالی مشکل کا سنتے ہی اپنی تجوری کا منہ کھول لیتے تھے ،اب کسی مدرسے کو ایک روپیہ دینے سے بھی گھبراتے ہیں ، مبادا ان کا نام ''سہولت کاروں‘‘ میں ڈال کر انہیں بھی نیشنل ایکشن پلان کا نشانہ بنا لیا جائے۔ پنجاب کی انتظامی مشینری اور خاص طور پر پولیس تو اس معاملے میں اتنی آگے جاچکی ہے کہ صوبے میں مدارس کا جینا محال ہوتا جارہا ہے۔ بڑے شہرو ں کے چند بڑے
مدارس کو چھوڑ کر ، باقیوں کے ساتھ حکومت وہ سلوک کرتی ہے جو اسے جرائم پیشہ بدمعاشوں کے ساتھ کرنا چاہیے۔ اس وقت کی زمینی حقیقت یہ ہے کہ پنجاب میں سکہ بند جرائم پیشہ تو دندناتا پھر سکتا ہے مگر مولوی کی دستا رتک پہنچنے کے لیے قانون کا آہنی ہاتھ ہر وقت بے تاب رہتا ہے۔ یہ رویہ اتنا پختہ اور اتنا نیچے تک سرایت کر چکا ہے کہ پولیس ناکوں پر بے حیائی کرتے ہوئے نکل جائیں تو کوئی نہیں پوچھے گا لیکن ٹوپی یا عمامہ سرپررکھنے والے مولوی کو چیکنگ کے ہر توہین آمیز مرحلے سے گزارا جائے گا۔سرکاری تعلیمی اداروں میں ناچ گانے کے پروگرام کے لیے پوری پنجاب حکومت مددگار و معاون ہوجائے گی لیکن کسی یونیورسٹی یا کالج میں قال اللہ وقال الرسولؐ کی کوئی تقریب ہو تو اسے روکنے کے لیے صوبائی انتظامیہ سر دھڑ کی بازی لگا دے گی۔
حکومتیں اور ریاستی ادارے اپنی طاقت کے زور پر ہی مدارس پر حملہ آور نہیں ہیں بلکہ انہیں ایسے دانشوروں کی کمک بھی دستیاب ہے جن کی متاعِ ہنربس اتنی ہے کہ وہ علامہ اقبال کے شعر پڑھ پڑھ کر مدرسے اور مولوی کو بدنام کر سکتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا مدارس ، ان میں پڑھائے جانے والے نصاب، حتٰی کہ مسجد کے بارے میں بھی مبلغ علم اخبار میں چھپنے والے چند تاثراتی مضامین سے کشید کیا ہوتا ہے ۔ اقبالؒ کے شعرو ں کے سوا مدارس پر ان کا سب سے بڑااعتراض لال مسجد والے مولانا عبدالعزیز کی بے اعتدالی ہے۔ ان بے چاروں کو یہ علم ہی نہیں کہ مولانا عبدالعزیز کی کوئی اخباری اہمیت ہو تو ہو ،مدارس کے حوالے سے وہ کوئی قابلِ اعتناء مثال ہی نہیں۔ علمی حوالے سے مدارس کی نمائندگی تو شاہ ولی اللہ ؒ،حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ، مولانا رشید احمد گنگوہیؒ، شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ، مولانا اشر ف علی تھانویؒ ، مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا مفتی محمد شفیعؒ، مولانا ابو الاعلیٰ مودودیؒ اور مولانا مفتی نظام الدین شامزئی ؒ جیسے سلسلتہ الذہب سے ہوتی ہے۔ یہ انہی بزرگوں کی تعلیمات کا اثر ہے کہ پاکستان میں رہنے والی ایک دوسرے سے مختلف قومیتیں کے لوگ سب کچھ بھلا کر خود کو واحد اسلامی شناخت میں ڈھالتے چلے جا رہے ہیں۔ ان بزرگوں کی یہ تعلیمات نہ ہوتیں تو جنرل ایوب، یحیٰ ، ضیا اور پرویز اس ملک کو پار ہ پارہ کرنے کے لیے کافی تھے۔
دارالعلوم حقانیہ اور عمران خان کے معترضین کو ایک شکوہ یہ بھی ہے کہ دارالعلوم سے پڑھ کرنکلنے والے افغانستان میں جاکر طالبان بن گئے اور عمران خان ان کے پشتیبان۔بے شک افغان طالبان کو اس درسگاہ سے ایک نسبت ہے ، مگر سوال یہ ہے کہ اس میں الزام یا دشنام کی بات کیاہے۔ افغان طالبان نے بھی حریت کیشی کا وہی سبق پڑھا ہے جوسید احمد شہیدؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ پڑھ کر انگریزوں اور سکھوں کے خلاف ڈٹ گئے تھے ، جو 1857ء کی جنگ آزادی میں حاجی امداداللہ مہاجر مکی ؒ کو میدانِ جنگ میں لے آیا تھا، جس نے مولانا محمود الحسنؒ کو انگریزوں کے خلاف جہاد پر اکسایا تھا، جس کی روشنی میں مولانا اشرف علی تھانوی قائد اعظم کے ہمرکاب ہوئے تھے۔ عجیب بات ہے کہ مدرسے والے آپ کی طالع آزمائی کے لیے ملک بنا دیں تو ٹھیک، ایک دوسرے اسلامی ملک پر قابض فوجوں سے لڑیں تو غلط؟جہاں تک ان راہ گم کردہ لوگوں کا تعلق ہے جو پاکستان میں پولیو ویکسینیشن کی ٹیموں پر حملے کرتے ہیں، ہماری دفاعی تنصیبات کو دہشتگردی کا نشانہ بناتے ہیں، فرقہ واریت کا زہر پھیلا کر ذہنوں کو مسموم کرتے ہیں تو ملک میں وہ کونسا قابل ذکر مدرسہ ہے جو ان کی حمایت کرتا ہے؟ اوراگر کوئی چھپ چھپا کر اس طرح کی حرکت کرتا بھی ہے تو حکومت اس کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کرتی؟ چند جرائم پیشہ لوگوں کے خودساختہ مذہبی نظریات کی بنیاد پر مدرسوں کو نشانہ بنانا قرینِ انصاف ہے تو پھر کراچی میں آئی بی اے کو بھی بند کردیجیے، بلوچستان یونیورسٹی پر بھی تالے ڈال دیں جہاں سے بلوچ علیحدگی پسندوں نے تعلیم حاصل کی ہے۔ بولان میڈیکل کالج بھی ختم کردیں جہاں سے کالعدم بی ایل اے کا ڈاکٹر اللہ نذر پڑھ کر نکلا تھا۔
مدارس کے نادان دوست بھی دارالعلو م حقانیہ کو ملنے والی امدادپر پراپیگنڈہ کا شکار ہوکر عجیب و غریب بحثوںمیں الجھ رہے ہیں۔ اس طرح کی ایک لا یعنی بحث کا موضوع یہ سوال ہے کہ کیا مدارس کو حکومتی مدد لینا چاہیے یا نہیں۔ یہ سوال بھارت میں اٹھے تو اس میں وزن بھی ہو جہاں حکومت کا اسلام سے کچھ لینا دینا ہے نہ معاشرے کا۔ پاکستان جہاں ایک اسلامی جمہوری نظام پختگی کی منازل طے کررہا ہے،، جہاں عوام کی غالب ترین اکثریت اسلام کو ضابطہء حیات کے طور پر نافذ دیکھنا چاہتی ہے، جس کی حکومتیں اپنی گمراہیوں، بے اعتدالیوں اورجہالتوں کے باوجود غیر مسلم نہیں کہی جاسکتیں، وہاں یہ سوال نہ صرف بے معنی ہے بلکہ سوچھی سمجھی فتنہ پروری ہے کیونکہ اس سوال کے جواب میں خود بخودمدرسہ اور پاکستانی ریاست کو متحارب فریقوں کے طور پر نظر آنے لگیں گے۔حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان کے ہر مدرسے اور اس کے طالب علم کا اس ریاست پر اتنا ہی حق ہے جتنا ایچی سن کالج میں پڑھنے والے امیرزادے کا ۔ یوں بھی پاکستان کے ٹیکس دہندگان کے پیسے کی دہائی دینے والوں کے لیے شاید یہ خبر ہو کہ پاکستان کے ٹیکس دہندگان کی عظیم اکثریت کو اس بات پر کوئی اعتراض نہیں کہ ان کے پیسے ایک منتخب صوبائی حکومت کے ذریعے صوبے میں دینی علوم کی ایک معتبر درسگاہ پر خرچ کیے جارہے ہیں۔ ایں جناب پرویز رشید اور آنجناب آصف علی زرداری کو ایک مدرسے کو سرکاری پیسے دیے جانے پر جو تکلیف ہورہی ہے اور اس تکلیف میں وہ جو بیانات جاری کررہے ہیں انہیں سنجیدگی سے لینے کی ضرورت نہیں ۔ ان کی پریشانی کا اصل سبب یہ کہ اس اقدام سے عمران خان عوام میں مقبولیت کے زینے کی مزیدایک سیڑھی چڑھ گئے ہیں۔