"HAC" (space) message & send to 7575

صحت اورسرکاری نظام ِ صحت

پاکستان میں شاید ہی کوئی ڈسپنسری، بنیادی مرکزِ صحت، ضلعی ہسپتال یا کسی مرض میں تخصیص رکھنے والا کوئی ہسپتال ہوجہاں آنے والا مریض واپس جاتے ہوئے ہسپتال انتظامیہ، وزارت صحت اور حکومت کو بددعائیں دیتا ہوا نہ جائے،الا ماشا اللہ! ڈاکٹر بدلحاظ، عملہ رشوت خور، دوائی ندارد اور حکومت بے بس یا بے حس! دوسرے صوبوں کوتو چھوڑیں انتظامی حوالے سے دوسروں کے مقابلے میں بہتر قرارد یے جانے والے صوبہ پنجاب میں صورتحال یہ ہے کہ دوہزار چودہ میں صوبائی حکومت نے چار ارب روپے کے خرچ سے تمام سرکاری ہسپتالوں میں ائیر کنڈیشنر لگوائے جو ایک سال کے اندر اندر بند ہوگئے ۔ ایک سال بعد اتفاق سے وزیراعلیٰ پنجاب ایک ہسپتال میں گئے تو وہاں سوائے سربراہِ ادارہ کے کمرے کے تمام ائیر کنڈیشنر بند پڑے تھے۔ تفصیل معلوم کی تو انکشاف ہوا کہ اکثر ائیر کنڈیشنر سروس نہ ہونے کی وجہ سے بند پڑے ہیں اور یہ حالت صرف ایک ہسپتال کی نہیں بلکہ پورے صوبے کے تمام ہسپتالوں کی تھی۔ یہی حالت صفائی کی ہے جس کا علاج پھر ایک نجی کمپنی کی صورت میں ڈھونڈا گیا کہ یہ تمام ہسپتالوں کا کچرا اٹھا کر اس طرح ٹھکانے لگائے کہ مزید بیماریوں کا سبب نہ بنے۔ ہسپتالوں میں ایئر کنڈیشنرز اور صفائی کے معاملات تو چلیے انتظامی نوعیت کے ہیں جو پیسے دے کر حل کرائے جاسکتے ہیں لیکن طبّی عملے کا رویہ کیسے ٹھیک ہوگا؟ ڈاکٹروں کی اہلیت میں اضافہ کیسے ہوگا؟ شہروں کے بڑے ہسپتالوں میں بھیڑ کیسے کم ہوگی؟ یہ وہ مسائل ہیں جو بنیادی طور پر اس نظام نے ہی پیدا کیے ہیں اس لیے یہ توقع نہیں رکھی جاسکتی کہ ان کا حل اس کے اندر سے مل سکے ، اس کے لیے ہمیں اپنے تجربات کی روشنی میں دور رس تبدیلیاں کرنا ہوں گی اور پہلی تبدیلی اس نظام کی چوٹی پر بیٹھے شخص کو تبدیل کرکے کی جاسکتی ہے۔ 
موجودہ نظام کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اس کی سربراہی عام طور ایک ایسا صوبائی سیکرٹری کرتا ہے جو خود ڈاکٹر ہوتا ہے نہ اسے ہسپتالوں کے بارے میں کوئی علم ہوتا ہے۔ اس بے چارے کو ماحولیات کی وزارت سے نکال کر صحت میں دھکیل دیا جاتا ہے اور یہاں سے نکل کراسے جنگلات کے محکمے میں جانا ہوتا ہے۔ اپنی ناواقفیت بلکہ جہالت کی وجہ سے سیکرٹری صاحب فائلیں ادھر ادھر کرنے ، ینگ ڈاکٹروں سے بلیک میل ہونے یا وزیراعلیٰ کے دوروں کے بندوبست کے سوا کچھ نہیں کر پاتے ۔ اس لیے ہماری سب سے پہلی ضرورت تو یہ ہے کہ میڈیکل کیریئر رکھنے والے کسی شخص کو ہی صوبائی سیکرٹری صحت کی ذمہ داریا ں دی جائیں۔جب وزارت کے چیف ایگزیکٹو نے خود زندگی کا ایک حصہ شعبۂ طب میں گزارا ہوگا تو وہ اس شعبے کی پیچیدگیوں کے ساتھ ساتھ یہاں کام کرنے والے لوگوں کے رویوں سے بھی آگاہ ہوگا اور یہ معلومات اسے بطور منتظم اپنے محکمے کو چلانے میں مدد دیں گی۔ ان ترقی یافتہ ملکوںمیں جہاں صحت کی فراہمی کی ذمہ داری ریاست نے اٹھا رکھی ہے وہاں اس کام کی سربراہی صاحبانِ فن کے سپرد ہی کی گئی ہے، ہماری طرح سی ایس ایس پاس کسی شخص کی نامعلوم مہارت پر بھروسہ نہیں کیا گیا۔ 
اصلاحِ احوال کے لیے دوسرا قدم یہ ہے کہ وزارت صحت کو ضلعی سطح تک بانٹ دیا جائے یعنی ہر ضلعے میں صحت سے متعلق تمام تر معاملات کا فیصلہ وہیں ممکن ہوسکے۔ صوبائی یا وفاقی محکمے شعبہء صحت کو ریگولیٹ کرنے کے لیے اپنا کام کرتے رہیں لیکن دوائی کی خریداری سے لے کر ڈاکٹر کی تبادلے تک کے تمام معاملات نیچے ہی طے ہوں۔ اگرچہ پنجاب حکومت نے سالانہ بجٹ وزارت سے نکال کر ہسپتالوں کے سربراہوں کو دے دیا ہے لیکن اس فیصلے کا کچا پن اس بات سے عیاں ہے کہ اس کے باوجود ہسپتالوں میں کوئی بہتری نہیں آئی، ہسپتال کا ایم ایس آج بھی اپنی بقا کے لیے لاہور کی نظرِ کرم کا فیصلہ محتاج ہوتا ہے نہ کہ ان لوگوں کے اطمینان کا جن کی خدمت کے لیے اسے رکھا گیا ہے۔ اچھے اور برے ایم ایس کا لاہور سیکرٹریٹ میں بیٹھے کسی شخص کو نہیں بلکہ مقامی لوگوں کو کرنا چاہیے۔جب قصہ زمین برسرِ زمین طے ہونے لگے گا تو ہم اپنے ہسپتالوں سے بھی توقع رکھ سکتے ہیں کہ وہ خود کو بہتر بنانے کی کوشش کریں گے۔ 
تیسرا قدم ڈاکٹروں کی شرائط ملازمت میں تبدیلی ہے۔ ڈاکٹروں کی بھرتی کا موجودہ نظام کچھ اس طرح ہے کہ انہیں صوبائی سطح پر بھرتی کیا جاتا ہے اور پھر صوبائی وزارتِ صحت ان کی تقرری مختلف علاقوں میں کرتی ہے۔ اس مرکزی بھرتی کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ لاہور کے رہنے والے کو جب راجن پور بھیجا جاتا ہے تو وہ فوری طورپر تعلقات لڑا کر لاہور واپس آجاتا ہے ۔ اگر فوری تبادلہ ممکن نہ ہو تو سال دو سال کی چھٹیاں لے کر لاہورمیں پرائیویٹ پریکٹس اور تبادلے کی کوششیں بیک وقت شروع کردیتا ہے۔ اس صورتحال کے تدارک کے لیے ضروری ہے کہ ڈاکٹر کی بھرتی سروس کمیشن کے ذریعے ضلعی سطح پر ہو، یعنی اشتہار میں لکھا جائے کہ یہ بھرتی فلاں گاؤں کے بنیادی مرکزِ صحت کے لیے ہے تاکہ امیدوار سوچ سمجھ کر ملازمت کے لیے درخواست دے اور پھر شرائط ملازمت میں یہ واضح ہو کہ اسے پہلے پانچ سال اسی مرکز اور اگلے پانچ سال اپنی بھرتی کے ضلعے میں ہی لگانے ہیں۔ اس کے باوجود اگر کوئی ڈاکٹر ضلعے سے باہر تبادلہ کرواتا ہے تو اسے نوکری چھوڑنے پر محمول کیا جائے۔ ظاہر ہے کہ ہمارے انگریزی ڈاکٹروں پر یہ پابندی شاق ہوگی لیکن اس کا حل بھی موجود ہے کہ دوسالہ اردو تعلیمی کورس کے ذریعے ایسے ڈاکٹر پیدا کیے جائیں جن کے نخرے انگریزی خواندہ ینگ ڈاکٹروں سے کم ہوں۔ 
چوتھا قدم یہ ہے کہ چھوٹے شہروں ، قصبات اور دیہات کے سرکاری ڈاکٹر مریض کو ضلعی ہسپتال یا کسی دوسرے بڑے ہسپتال بھیجنے کا مشورہ دیتے ہوئے اس کی طبّی بنیاد بھی تحریری طور پر بتائیں۔ یہ ہمارا روزمرّہ کا مشاہد ہ ہے کہ ہر بڑے شہر کے ہسپتال دور دراز سے آئے ہوئے مریضوں اور ان کے لواحقین سے بھرے ہوتے ہیں۔ تجربے سے یہ سامنے آیا ہے کہ اسی فیصد کیسز میں مقامی ڈاکٹر نے جان چھڑانے کے لیے مریض کو کسی بڑے شہر روانہ کردیا ہے۔تسلیم کہ ہر جگہ ہر مرض کا علاج ممکن نہیں لیکن یہ بھی تو نہیں مانا جاسکتا کہ پاکستان کی آبادی میں صرف پیچیدہ امراض ہی پائے جاتے ہیں جن کا علاج لاہور ، کراچی، اسلام آباد کے سوا کہیں ہے ہی نہیں۔ ہمیں یقینی بنانا ہوگا کوئی ڈاکٹر کسی بھی مریض کو بڑے ہسپتال روانہ کرنے سے پہلے اپنے علاوہ ایک اور ڈاکٹر سے مشورہ کرنے کا پابند ہوگا اورلکھ کر بتائے گا کہ اس نے کس ڈاکٹر سے بات کی اور اس نے اسے کیا مشورہ دیا۔ جب یہ تحریریں ڈاکٹر صاحبان کے سروس ریکارڈ کا حصہ بنیں گی تو ہماری حکومت کو بھی معلوم ہوگا کہ لائق ترین بچے جب موجودہ نظام تعلیم سے ڈاکٹر بن کر نکلتے ہیں تو نالائقی اور نکمے پن کے کتنے بڑے شاہکار ہوتے ہیں۔ 
پاکستان میں صحت کی سہولیات کی فراہمی کے لیے ہر سال ڈھائی سو ارب روپے سرکاری طور پر خرچ کیے جاتے ہیں جو ضرورت سے چاہے کم ہیں لیکن اتنے بھی کم نہیں کہ ہمارے ہسپتالوں کی یہ حالت ہو جو ہمیں نظر آتی ہے، اور یوں بھی موجودہ نظام میں بغیر بنیادی تبدیلیوں کے دوہزار ارب بھی خرچ ہوجائیں تو کوئی بہتری نہیں آنے والی۔ اس کے لیے ہمیں اپنے صوبائی وزرائے اعلیٰ کے فہم سے لے کر طبّی تعلیم تک بہت کچھ بدلنا ہوگا ۔ اگر کچھ نہیں بدلنا تو حکمران اتنا کر لیں کہ اپنا علاج بھی وہیں سے کرائیں جہاں سے ہم کراتے ہیں۔ یہ بھی نہیں کرنا تو پھر حکومت بھی وہیں کریں جہاں ان کے ڈاکٹر بیٹھے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں