2013ء کے الیکشن سے کچھ عرصہ پہلے صدر آصف علی زرداری لاہور تشریف لائے تو بلاول ہاؤس کے ایک ہال میں صحافیوں کو کھانے پر بلا لیا۔ سوال جواب میں ہونے والی اس گفتگو میں کسی نے پوچھا، ''جناب صدر پیپلزپارٹی نے اب تک کوئی بڑا منصوبہ ملک میں شروع نہیں کیا، آخر آئندہ الیکشن میں کس بنیاد پر لوگوں سے ووٹ مانگے جائیں گے‘‘۔ صدر مملکت کہ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین بھی تھے سوال سن کر اپنے مخصوص انداز میں ہنسے اور فرمایا، ''اگر کام کرنے سے ووٹ ملتے تو 2008ء میں ق لیگ نہ ہارتی‘‘۔ اس جملے کے بعد گنجائش نہیں تھی کہ کوئی اور ان سے اس موضوع پر بات کرتا۔ پھر دوہزار تیرہ کا الیکشن ہوگیا اور اس کے نتیجے میں پیپلزپارٹی کو جو حال ہوا سب جانتے ہیں۔الیکشن کے بعد لاہور کے ایک کلب میں پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک ایسے سابق وزیر سے ملاقات ہوئی جو اپنے زورِ کلام اوروفاقی وزارت کے باوجود بھی اپنے حلقہء انتخاب سے ہار گئے تھے۔ دل شکستگی کے اس عالم میں انہوں نے حاضرین سے پوچھا کہ آخر پیپلز پارٹی پنجاب میں اتنی بری طرح کیوں ہاری؟ شومئی قسمت کہ میں نے خلافِ عادت اس مجلس میں چھوٹی سی تقریر جھاڑ دی جس کا خلاصہ یہ تھا کہ پیپلزپارٹی اپنے دورِ حکومت میں گورننس کا کوئی مناسب سا نمونہ بھی نہیں دکھا سکی ، مستقبل میں اگر پیپلزپارٹی پنجاب میں زندہ رہنا چاہتی ہے تو اسے سندھ میں اپنی موجودہ صوبائی حکومت کے ذریعے غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا جسے دیکھ کر اہلِ پنجاب ایک بار پھر پیپلزپارٹی کے لیے مثبت انداز میں سوچیں گے۔ میری بات ابھی ختم بھی نہ ہوئی تھی کہ سابق وزیرِموصوف نے خطبہ دینا شروع
کردیا جس میں بتایا کہ ایسے تمام لوگ جو اس خاکسار کی طرح سوچتے ہیں دراصل ملک میں صوبائی تعصب پھیلاتے ہیں اور بڑے صوبے کے باسی ہونے کے ناتے چھوٹے صوبوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ وہاں موجود ایک صحافی ساتھی نے میرے دفاع میں کچھ کہنے کی کوشش تو کی مگر سابق وزیر کی فصاحت کے سامنے ان کی پیش نہ چل سکی۔ حاصل مجلس یہ تھا کہ ہم دونوں صوبائی عصبیت کا الزام لیے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔
2013ء کے بعد سندھ حکومت وزیراعلٰی قائم علی شاہ کی قیادت اور زرداری صاحب کی سرپرستی میں وہی بے ڈھنگی چال چلتی رہی جو اس سے پہلے پانچ سال چل چکی تھی۔نوبت یہاں تک آپہنچی تھی اس حکومت سے کسی کو سندھ میں خیر کی توقع تھی نہ سندھ سے باہر۔ حالات یونہی رہتے اگر صدر آصف علی زرداری کو ڈیڑھ سال پہلے ملک سے باہر نہ جانا پڑتا۔ ان کی غیر حاضری میں بلاول بھٹوزرداری کو آزادانہ کام کرنے کا موقع ملا اور انہیں بہت جلد اندازہ ہوگیا کہ پیپلزپارٹی کی آئندہ سیاست کا دارومدار سندھ حکومت کی کارکردگی سے جڑا ہوا ہے۔ وہ بہت تیزی سے حرکت میں آئے اور مراد علی شاہ کو نیا وزیراعلیٰ بنا کر گورننس کے میدان میں اپنی پارٹی کا تاثرکچھ بہتر بنا لیا۔ دوسرا اہم کام انہوں نے یہ کیا کہ پارٹی کی تنظیم نو شروع کردی اور اس میں یہ خیال رکھا کہ ایسے لوگوں کو آگے لایا جائے جو نوجوان ہوں،
کرپشن کے الزامات سے پاک ہوں اور میڈیا پر پارٹی کا مؤقف مدلل انداز میں پیش کرسکیں۔ سندھ میں گورننس کو بہتر بنانے اور دیگر صوبوں میں پارٹی کا تاثر بہتر کرنے کے دونکات پر اصلاح ِ احوال کا پہلا دور مکمل ہوا تو پتا چلا کہ پیپلزپارٹی نک سک سے درست ہوکر بالکل نئے انداز کی سیاسی جماعت بن چکی ہے۔ اس نئے پن کا پہلا مظاہرہ بلاول ہاؤس لاہور میں پارٹی کے انچاسویں یوم تاسیس پر نظر آیا۔
پیپلزپارٹی کا بڑا جلسہ ہو یا چند کارکنوں کا اجلاس، بدنظمی اور ہڑبونگ کے بغیر مکمل نہیں ہوتا تھا مگر اس یوم تاسیس کا نقشہ ہی الگ تھا۔ملک بھرسے آئے ہوئے ہزاروں کارکن جوش و جذبے کے باوجود بڑی حد تک ڈسپلن کے پابند نظر آرہے تھے۔ خوبصورت سٹیج، بیٹھنے کا معقول انتظام، صحافیوں کے لیے الگ سے جگہ اور ان کے لیے معاونین کی فراہمی کا نظام دیکھ کر لیاقت انصاری اور امداد سومرو سے پوچھا کہ آپ دونوں طویل عرصے سے پیپلزپارٹی کور کررہے ہیں ، کیا کبھی ایسا انتظام دیکھا؟ دونوں نے اتفاق کیا کہ ایسا بندوبست انہوں نے کبھی نہیں دیکھا۔ امداد سومرو نے تو ہنستے ہوئے اضافہ کیا، ''اتنی عمدگی سے تو کبھی پیپلزپارٹی کی حکومت بھی کوئی کام نہیں کرسکی تھی‘‘۔یہ جاننے کے لیے بڑی کاوش کی کہ آخر پارٹی میں ایسا کون شخص ہے جو اتنا اچھا کام بھی کرسکتا ہے ، تو معلوم ہوا کہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا بیٹا علی قاسم گیلانی ہے جس کے ذمے یوم تاسیس اور اس سے جڑی ہوئی دیگر سرگرمیوں کا انتظام لگایا گیا ہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی 1967ء میں اپنے آغاز سے لے کر کچھ ماہ پہلے تک ایک ہجوم تھی جس میں تنظیم نام کو بھی نہیں تھی ۔ حکومت ملنے کی صورت میں اسی ہجوم میں سے چند لوگ بڑے عہدوں پر فائز ہوجاتے اور پارٹی کی بدنظمی حکومت میں بھی جھلکتی نظر آتی جس کا خمیازہ اسے حکومت چھوڑنے کے بعد بھگتنا پڑتا۔ بلاول بھٹو زرداری شاید یہ نکتہ سمجھ گئے ہیں اسی لیے رفتہ رفتہ ایسے لوگوں کو آگے لا رہے ہیں جو اس ہجوم کو منظم کرسکتے ہیں اور ردّعمل کی سیاست کی بجائے مثبت سیاست پریقین رکھتے ہیں۔ نوید چودھری، قمرزمان کائرہ، افضل ندیم چن، علی محمد جتک، ہمایوں خان، سعید غنی اور مراد علی شاہ جیسے لوگ تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں جبکہ اعتزاز احسن ، منظور وٹواور قائم علی شاہ جیسے لوگ ایک ایک کرکے سجاوٹ کے سامان میں شامل ہوتے جارہے ہیں۔ نوجوان چئیرمین کی اس کوشش کے نتیجے میں پارٹی میں جدید و قدیم کی تھوڑی بہت کشمکش بھی پیدا ہوئی ہے مگر اتنی نہیں کہ جس پر قابو نہ پایا جاسکے۔
پاکستان کی بہت بڑی سیاسی حقیقت یہ ہے کہ اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود پیپلزپارٹی پاکستانی سیاست میں واحد نظریاتی قوت ہے جبکہ جماعت اسلامی سے لے کر مسلم لیگ ن تک تمام جماعتیں عملی سیاسی تقاضوں سے ہار مان کر نظریات سے تائب ہوچکی ہیں۔ پیپلزپارٹی نے بھی گزشتہ دس سال اپنی نظریاتی اساس چھوڑ کر سیاست کی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کا کارکن میدان چھوڑ کر گھر بیٹھ گیا یا تحریک انصاف میں چلا گیا۔اب ایک بار پھر پیپلزپارٹی اپنی نظریاتی میراث کو گلے لگانے کی تیاری کررہی ہے ، ''سوشلزم ہماری معیشیت ‘ ‘ کا جو نعرہ یکے بعد دیگرے ملنے والی حکومتوں کے بوجھ تلے دب گیا تھا نئی آب و تاب کے ساتھ ابھرنے کو ہے ۔ اس نعرے کی روشنی میںترتیب پانے والی سیاسی حکمت عملی یہ ہے کہ آئندہ چند دنوں میں اپنے سیاسی مخالفین کو استحصالی طبقہ قرار دے کر چاند ماری کی جائے گی جس کا پنجاب میں نشانہ شہباز شریف بنیں گے اور اسلام آباد میں نواز شریف۔ اس حکمت عملی کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری خود قومی اسمبلی میں پہنچ کر وفاقی حکومت کی کارکردگی کا آپریشن کریں ۔اگر آئندہ چند ہفتوں میں بلاول منتخب ہو کر پارلیمنٹ پہنچ جاتے ہیں تو حکومت کو جوآسانیاں اسمبلی ہال کے اندر میسر ہیں وہ شاید ختم ہوجائیں۔ اس کے علاوہ عمران خان نے ساڑھے تین سال پارلیمنٹ سے باہر رہ کر اپنا جو نقصان کیا ہے ، پیپلزپارٹی آخری سال میں بلاول کے ذریعے اسے اپنے فائدے میں تبدیل کرلے گی۔انہوں نے جتنا وقت نیا پاکستان بنانے میں ضائع کیا ہے، اتنا ہی وقت بلاول بھٹو زرداری نے نئی پیپلزپارٹی بنانے میں صرف کیا ہے۔ یہ نئی پیپلزپارٹی پرانی پارٹی کے مقابلے میں کتنی مؤثراور طاقتور ہے اس کا آئندہ چند ہفتوں میں سب کو پتا چل جائے گا۔