"HAC" (space) message & send to 7575

کلبھوشن یادیو

جرمنی کے شہر برلن کے قریب سے گزرتے دریائے ہیول پر ایک پل ہے جسے گلینکر برج کہا جاتا ہے۔ امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ کے زمانے میں یہ پُل مغربی اور مشرقی جرمنی کے درمیان جغرافیائی رابطہ ہونے کے ساتھ ساتھ دونوں طرف کے سفارتکاروں کے ملنے کی جگہ بھی تھی۔ مشرقی اور مغربی یورپ کے سفارتکار سیاسی تناؤ کم کرنے کے لیے اس پل پر ملاقاتیں کرتے اور اپنے اپنے ملکوں یا شہروں کو لوٹ جاتے۔ انیس سو اکسٹھ میں جب سوویت یونین نے برلن شہر کے قلب سے گزرتی ہوئی ایک سو چالیس کلومیٹر لمبی کنکریٹ کی دیوار بنا لی تو لوہے سے بنا گلینکر برج اس لیے اہم ہو گیا کہ مشرقی اور مغربی جرمنی کے درمیان موجود فوجی چوکیوں میں یہ واحد چوکی تھی جو مکمل طور پر روسی فوج کے کنٹرول میں تھی جس نے اس پُل کو عام لوگوں کے لیے بند کرکے صرف اعلیٰ سرکاری و سفارتی عہدیداروں کے لیے کھلا رکھا تھا۔ جرمنی سے باہر دنیا کو گلینکر برج کی اہمیت کا اندازہ انیس سو باسٹھ میں ہوا جب امریکہ اور سوویت یونین نے پہلی بار اس پُل پر ایک دوسرے کے ساتھ گرفتار شدہ جاسوسوں کا تبادلہ کیا۔ امریکہ نے انیس سو ستاون میں پکڑے ہوئے روڈولف ایبل نامی سوویت جاسوس کو اسی پل پر اس کے ملک کے حوالے کیا اور بدلے میں گیری پاورز کو وصول کیا جو روس کی فضائی جاسوسی کرتے ہوئے پکڑا گیا تھا۔ روڈولف ایبل کو امریکی قانون کے مطابق تیس سال قید کی سزا دی گئی تھی جبکہ گیری پاورز کو ماسکو میں دس برس قید کی سزا سنائی گئی تھی مگر پس پردہ سفارتکاری کی وجہ سے روڈولف چار سال اور گیری صرف دو سال بعد اپنے اپنے ملک پہنچ گئے۔ یاد رہے کہ گیری پاورز اسی جاسوس امریکی جہاز کا پائلٹ تھا جو پشاور ایئربیس سے اڑ کر سوویت فضاؤں میں پہنچا تھا۔ امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان جاسوسوں کے اس تبادلے کے بعد گلینکر برج پر دونوں طرف سے پکڑے گئے اتنے جاسوسوں کے تبادلے ہوئے کہ صحافیوں نے اسے برج آف سپائیز (جاسوسوں کا پل) نام دے دیا۔ 
گلینکر برج پر جاسوسوں کے تبادلے نے دنیا بھر کے پیشہ ور جاسوسوں کو یہ پیغام دیا کہ اگرچہ ان کا پیشہ اور ان کی پیشہ ورانہ کامیابیاں ہمیشہ تاریکی میں رہتی ہیں، لیکن ان کے ملک اور ان کے لوگ انہیں عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ان کی حیثیت ایک فوجی کی سی ہے جو قید بھی ہو جائے تو بہترین سلوک کا مستحق ہوتا ہے۔ یہ لوگ میدان میں مارے جائیں تو الگ بات ہے‘ ورنہ دنیا کی تمام خفیہ ایجنسیوں میں ایک غیر تحریری معاہدہ ہے کہ حالت امن میں ایک دوسرے کے ہاتھ آ جانے والے پیشہ ور جاسوسوں کو مارنے کی بجائے واپس کر دیا جائے گا۔ موت کی سزا جاسوسوں کے لیے نہیں ہوتی بلکہ غداروں کے لیے تجویز کی جاتی ہے اور غدار وہ شخص ہوتا ہے جو اپنے ملک میں رہتے ہوئے چھپ کر دشمنوں کے لیے کام کرتا ہے۔ غدار جب پکڑا جاتا ہے تو اس کے اصلی آقا سب سے پہلے نظریں پھیرتے ہیں لیکن جاسوس جب پکڑا جاتا ہے تو اس کی حکومت اسے چھڑانے کے لیے ہر ممکن حد تک جانے کے لیے تیار ہو جاتی ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کی مثال ہی لے لیں، اس نے جاسوسی مشن کے دوران دن دیہاڑے لاہور میں دو پاکستانیوں کو مار ڈالا اور جب پکڑا گیا تو امریکہ اپنی پوری طاقت کے ساتھ میدان میں آ گیا۔ اس نے پاکستان پر اتنا اتنا دباؤ ڈالا کہ ہمارے ہر ادارے نے اپنی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اپنے قانونی نظام کی لاج رکھتے ہوئے ایسا راستہ نکالا کہ ریمنڈ ڈیوس چند دن کے اندر اندر اپنے ملک واپس پہنچ گیا۔ اس کے مقابلے میں اسامہ بن لادن کے معاملے میں امریکیوں کی مدد کرنے والے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو دیکھ لیں جس نے کسی دوسرے ملک کے لیے اپنے ملک کی عزت داؤ پر لگائی اور دنیا بھر کی نظروں میں ذلیل ہو کر رہ گیا اور اپنی نسلوں کے لیے بھی
کلنک کا ٹیکا بن چکا ہے۔ 
امریکہ اور روس کی رقابت کی طرح پاکستان اور بھارت کی ایک دوسرے کے ساتھ کھینچا تانی بھی عالمی تعلقات کا ایک دلچسپ باب ہے۔ ان دونوں ملکوں کی حکومتیں جہاں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا کوئی موقع ہاتھ نہیں جانے دیتیں اسی طرح ان دونوں ملکوں کے خفیہ ادارے بھی ایک دوسرے کو مات دینے میں ہر وقت مصروف رہتے ہیں۔ جب ان میں سے کوئی اپنا مشن مکمل کر لیتا ہے تو پھر اس کی تفصیلات بھی فخر سے دوسروں کو بتا دیتا ہے۔ مثال کے طور پر بھارت کا قومی سلامتی کا مشیر اجیت دوول بطور جاسوس بھیس بدل کر لاہور میں رہا‘ یہاں کے کئی لوگوں سے ملتا رہا اور یہ بات سینہ پھلا کر اپنے ملنے جلنے والوں کو بتاتا رہتا ہے۔ ذاتی طور پر مجھے سعودی عرب میں ایک ایسا بھارتی شہری ملا جو کراچی میں طویل عرصے تک جاسوسی کرتا رہا تھا۔ اس نے کراچی کے کئی لوگوں اور جگہوں کے نام لے لے کر مجھ سے جاننا چاہا کہ اب ان کا کیا حال ہے۔ اس شخص نے ہی مجھے پہلی بار بتایا کہ جاسوسی کی دنیا میں صرف انہی لوگوں کی عزت ہے جو اپنی ریاست کے ملازم ہو کر کسی دوسرے ملک میں کام کرتے ہیں جبکہ پارٹ ٹائم جاسوسی کرنے والوں کا کوئی والی وارث نہیں ہوتا۔ یہ ایسے مہرے ہیں جو بساط پر جمائے ہی اس لیے جاتے ہیں کہ وقت پڑنے پر ان کی قربانی دے دی جائے جبکہ ریاستی اداروں کے باقاعدہ ملازموں کو کبھی تنہا نہیں چھوڑا جاتا۔
ہمارے قبضے میں موجود کلبھوشن یادیو کا شمار بھی انہی جاسوسوں میں ہوتا ہے جو بھارت کے ریاستی اداروں کے اہلکار ہیں، اگر
بھارت کلبھوشن کو واپس نہیں لے پاتا تو اس کے تمام خفیہ ایجنٹ اس خوف کا شکار ہو جائیں گے کہ ان کی ریاست برے وقت میں ان کے ساتھ کھڑی ہونے کی سکت نہیں رکھتی اور اس خوف سے بھارتی خفیہ کاری کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا‘ اس لیے بھارت اس کی رہائی کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ کلبھوشن یادیو کے معاملے میں ہمیں یہ برتری حاصل ہے کہ ہم نے اسے اپنی سرزمین سے پکڑا ہے، دوسرے یہ کہ اس نے اپنے بھارتی فوجی ہونے کا اعتراف کیا ہے اور تیسرے یہ کہ اس کا فیصلہ دنیا بھر میں قابل قبول اپنے قانونی نظام پر چھوڑ دیا ہے۔ بھارت جتنا بھی شور مچا لے اب کلبھوشن کو واپس لینے کے لیے پہلے اسے یہ ماننا پڑے گا کہ کلبھوشن یادیو واقعی اس کا بھیجا ہوا جاسوس تھا جو پاکستان میں دہشت گردی کروا رہا تھا اور اس طرح خود بھارت پر دہشت گردی کا مجرم قرار پائے گا۔ اس صورتحال سے بچنے کے لیے اس کے سامنے یہی آپشن باقی بچتی ہے کہ وہ کلبھوشن جتنے اہم کسی پاکستانی کو جاسوسی کے الزام میں پکڑ کر پاکستان کے ساتھ اس کا تبادلہ کر لے۔ کرنل (ر) حبیب کا نیپال میں اغوا اسی بھارتی کوشش کا حصہ معلوم ہوتا ہے جسے پاکستان نے میڈیا کے ذریعے بروقت فاش کرکے ناکام بنا دیا ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کی راجیہ سبھا (بھارتی ایوان بالا) میں یہ کہنا کہ ''کلبھوشن کو پھانسی دینے سے دونوں ملکوں کے تعلقات خراب ہوں گے‘‘ دراصل اپنی ناکامی اور ہماری کامیابی کا اعتراف ہے کیونکہ کلبھوشن کی گرفتاری کے ایک سال بعد بھی بھارتی ایجینسیاں کسی ایسے پاکستانی کو پکڑنے میں ناکام رہی ہیں جس کے بدلے وہ اپنا افسر واپس لے سکیں۔ بھارت کو کلبھوشن کی ملکیت ماننے پر مجبور کر دینا پاکستان کی مسلح افواج اور ہماری خفیہ ایجینسیوں کا اتنا بڑا کارنامہ ہے جس کی جتنی بھی داد دی جائے کم ہو گی۔ سشما سوراج کی بیان کے بعد یہ معاملہ خفیہ کاری کے میدان سے نکل کر سفارتکاری کی میز پر پہنچ گیا ہے جہاں ہماری حکومت کو بیٹھ کر اسے طے کرنا ہے لیکن حکومت کو یہ دھیان بھی رکھنا ہو گا کہ اس معاملے پر معمولی سی کمزوری کے نتائج بھی خطرناک ہوں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں