"HAC" (space) message & send to 7575

جنرل ضیاء الحق کا فرضی خط نواز شریف کے نام

عزیزم محمد نواز شریف 
وزیرِ اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان
السلام علیکم۔ امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے، میں بھی یہاں عالمِ بالا میں اطمینان سے ہوں مگر پچھلے کچھ دنوں سے آپ کی طرف سے پریشانی کا شکار ہوں۔ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ میں اپنے بچوں کی طرح آپ سے محبت کرتا رہا ہوں اس لیے آپ کے حوالے سے کوئی بھی منفی بات سنتا ہوں تو تشویش لاحق ہو جاتی ہے۔ پچھلے ایک سال میں یہاں جو ماحول چل رہا ہے اسے دیکھتے ہوئے میری تشویش دوچند ہوئی جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں موجود جنرل ایوب اور جنرل یحییٰ خان‘ جو میری یہاں آمد سے پہلے ایک دوسرے کے ساتھ سیدھے منہ بات کرنے کے بھی روادار نہیں تھے، آج کل بڑی بے تکلفی سے پاکستان اور آپ کے مستقبل کے بارے میں متفقہ پیش گوئیاں فرماتے رہتے ہیں۔ میں نے انہیں اتنا خوش صرف انیس سو ننانوے میں دیکھا تھا‘ جب یہاں طے کردہ منصوبے کے مطابق آپ کی حکومت جنرل پرویز مشرف نے برطرف کی تھی۔ مجھے میرے ایک دوست جنرل نے اعتماد میں لے کر بتایا کہ اس وقت یہاں مقیم کئی سابق جرنیل، جج، صحافی اور بیوروکریٹ آپ کو ہٹانے کی تیاری میں مصروف ہیں۔ مجھے یہ سن کر بڑا افسوس ہوا کہ پاکستان کے متعلق اتنے اہم فیصلے میں مجھے شریک نہیں کیا گیا، جب میں نے اپنے رنج کا اظہار کیا تو میرے دوست نے بتایا کہ آپ کے ساتھ میری محبت اتنی ظاہر و باہر ہے کہ مجھ پر اس سلسلے میں اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ ان کہنا تھا کہ انیس سو ننانوے میں جنرل ایوب اور یحییٰ خان نے تو اہل زمین کو آپ کے بارے میں بڑا سخت پیغام جاری کر دیا تھا مگر میری مداخلت سے ہی آپ بچ کر سعودی عرب نکل گئے تھے۔ خیر، میں نے اپنا شکوہ جنرل یحییٰ خان کے سامنے رکھا تو انہوں نے جنرل ایوب سے مل کر مجھے اس شرط پر فیصلہ سازی کے عمل میں دوبارہ شریک کر لیا ہے کہ میں آپ کے لیے کسی خصوصی رعایت کا طلبگار نہیں ہوں گا۔ میں نے انہیں وضاحت پیش کی ہے کہ میں جنرل پرویز مشرف کے اقتدار پر قبضے کی حد تک ان سے سو فیصد متفق تھا‘ صرف آپ کے بارے میں میری رائے کچھ مختلف تھی۔ بہرحال اتفاق دیکھیے کہ جیسے ہی پاکستان کے بارے میں ہم نے حتمی فیصلہ کیا، اللہ کے حکم سے شریف الدین پیرزادہ بھی یہاں پہنچ گئے۔ ان کی آمد سے جہاں ہمارے لیے کئی آسانیاں پیدا ہوئیں وہاں یہ مشکل بھی پیدا ہو گئی ہے کہ وہ آئندہ کے بندوبست میں قانون دانوں کے لیے مرکزی کردار پر اصرار کر رہے ہیں۔ ابھی تک ان کی بات مانی جا رہی ہے لیکن ایسا زیادہ دیر تک نہیں چلے گا۔ 
میرے عزیز، جس طرح میں آپ کا بزرگ ہوں اسی طرح جنرل یحییٰ خان اور جنرل ایوب خان بھی آپ کے بڑے ہیں۔ ہم تینوں پاکستان سے بے پناہ محبت کرتے ہیں اور ہماری محبت کا تقاضا ہے کہ ملک کو مشکلات سے نکالنے کے لیے اپنا کردار ادا کرتے رہیں۔ جب تک ہم اہل زمین میں رہے ہم نے مقدور بھر اپنے ملک کی خدمت کی اور جب امر ربی ہوا تو یہاں چلے آئے مگر یہاں آ کر بھی خدمت کا سلسلہ منقطع نہیں ہونے دیا۔ جنرل پرویز مشرف سمیت جتنے بھی آسمانی منصوبے پاکستان پر نازل ہوئے وہ اللہ کے فضل و کرم سے ہمارے ہی سوچے سمجھے تھے اور انہیں منصوبوں کی برکت سے پاکستان بچتا رہا ہے۔ ہم تینوں اس حوالے سے بڑے فکرمند ہیں کہ آج وطنِ عزیز کا وقار داؤ پر لگ چکا ہے کیونکہ آپ کے ذہن میں ایک بار پھر سول بالا دستی کا خیال راسخ ہونے کی خبریں ہم تک بڑے تواتر سے پہنچ رہی ہیں۔ ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے جو منصوبہ ترتیب دیا تھا اس کا آغاز دو ہزار تیرہ کے الیکشن میں دھاندلی کے خلاف نیا اودھم مچا کر ہونا تھا مگر پاناماکی صورت میں تائید ایزدی میسر آ گئی اور یوں منصوبے میں کچھ تازگی بھی آ گئی۔ اللہ کے فضل و کرم سے ہمارے تمام منصوبوں کی طرح یہ بھی اپنی تکمیل کے راستے پر گامزن ہے اور اب اس کا اگلا مرحلہ شروع ہوا چاہتا ہے۔
عزیزم، آپ کو کچھ اندازہ تو ہو گا کہ اگلا مرحلہ کیا ہو گا لیکن میں آپ کی مشکل آسان کیے دیتا ہوں۔ وہ اس طرح کہ آپ جو سوچ رہے وہ میرے خیال میں درست ہے یعنی آپ کو ممکنہ طور پر اقتدار سے الگ کرنے کا وقت آن پہنچا ہے۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ ایسا ہو لیکن آپ کی باغیانہ طبیعت کو مدنظر رکھتے ہوئے مجھے اس منصوبے پر پوری طرح صاد کرنا پڑا کیونکہ آپ اگر واقعی سدھر سکتے تو تیسری بار وزیر اعظم بننے کی جرات نہ کرتے یا کم از کم وزیر اعظم بننے کے بعد بھی سول بالا دستی جیسے خیالات اپنے ذہن سے کھرچ ڈالتے۔ میں آپ سے بے پایاں محبت رکھنے کے باوجود آپ کے بارے میں اس فیصلے سے اتفاق کرنے پر مجبور ہوں کیونکہ آپ نے مجھے میری زمینی زندگی میں جو عزت دی تھی وہ آپ ہی کی وجہ سے عالم بالا میں رہتے ہوئے خاک میں مل چکی ہے۔ آپ کے والد سے میری دیرینہ تعلقات کا تقاضا تھا کہ آپ کو اصلاح احوال کا موقع ضرور دیا جاتا‘ جو میں نے تیسری بار آپ کی وزارت عظمیٰ کو چار سال تک برداشت کرکے دیا، میں تو شاید ایک سال اور نکال جاتا مگر یہاں جنرل ایوب اور جنرل یحییٰ خان اب ایک لمحے کے لیے بھی آپ کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ 
میرے عزیز، کئی سالوں کی عرق ریزی کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ دستور، پارلیمنٹ، جمہوریت اور وزیر اعظم کا عہدہ ملک و قوم کی ترقی میں بہت بڑی رکاوٹیں ہیں۔ ہم یہ بھی سمجھ چکے ہیں کہ وزیر اعظم کو اگر گرا دیا جائے تو باقی سب کچھ خود بخود ڈھے پڑتا ہے اور ملک دوست قوتیں کھل کر بروؤے کار آ جاتی ہیں۔ اس مسئلے کے مستقل حل کے طور پر میں دستور میں اٹھاون ٹو بی متعارف کروائی جسے آپ نے انتہائی بدلحاظی سے خارج کر دیا۔ جنرل پرویز مشرف نے بھی یہ شق ذرا مختلف انداز میں دوبارہ دستور میں شامل کی مگر آپ نے اسے بھی نکال دیا۔ اس مسئلے کے مستقل حل کے لیے شریف الدین پیرزادہ نے زمین پر رہتے ہوئے وزیر اعظم کی نااہلی کی جو سرنگ دستور کے آرٹیکلز سے بچ بچا کر نکالی تھی وہ بے شک ایک نادر چیز تھی اور افتخار چودھری نے اس کے ذریعے یوسف رضا گیلانی کو نکال باہر کیا تھا اور ہمارا کام ہو گیا تھا۔ ہمارا فیصلہ ہے کہ آپ بھی اسی راستے اقتدار سے باہر جائیں۔ آپ کے دیرینہ خیر خواہ ہونے کی حیثیت میں میرا فرض بنتا ہے کہ آپ کو اس مشکل سے نکلنے کا باعزت راستہ بھی بتا دوں۔ لہٰذا میں بہت غوروخوض کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ آپ فوری طور پر استعفیٰ پیش کرکے وفاقی حکومت برخوردار اعجازالحق سلمہ کے حوالے کر دیں۔ یاد رہے کہ میں یہ مشورہ اپنی ذاتی حیثیت میں دے رہا ہوں، اگر آپ میرے کہنے پر عمل کرنے کا وعدہ کریں گے تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جنرل ایوب اور جنرل یحییٰ کو بھی منا لوں گا۔ مجھے یہ واحد صورت نظر آتی ہے جس میں آپ کی حفاظت بھی ممکن ہے اور مستقبل میں آپ کی بیٹی مریم نواز کے لیے امکانات بھی۔ اور ہاں، یاد آیا کہ آپ کو اپنے ساتھیوں کی مدد لے کر اسی اسمبلی کی دو تہائی اکثریت سے اسمبلی کی مدت میں ایک سال کی توسیع کی قرارداد بھی منظور کرانا ہو گی۔ اس طرح موجودہ اسمبلی ہی دو ہزار انیس تک چلے سکے گی اور منصوبے کی باقی جزئیات بذریعہ اسمبلی نافذ کر سکیں گے۔ جہاں تک عمران خان کا مسئلہ ہے تو اس کی فکر کرنے کی آپ کو کوئی ضرورت نہیں‘ ہم خود اسے دیکھ لیں گے۔ یاد رکھیے کہ پنجاب کی صوبائی حکومت اور زندگی ہو تو امکانات بھی باقی رہتے ہیں۔ 
خیر اندیش 
جنرل ضیاء الحق شہید 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں