پاکستان کا نقشہ دیکھیں تو گوادر سے مغرب کی طرف ایران کی سرحد کے قریب نیم دائرے کی شکل میں خشکی کا ایک حصہ سمندر میں نکلا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ گوادر سے سڑک کے ذریعے یہاں تک پہنچنے میں تقریباً دو گھنٹے لگتے ہیں۔ نقشے پر بہت چھوٹا نظر آنے والا یہ نیم دائرہ اصل میں اتنا چھوٹا نہیں بلکہ اچھا خاصا قصبہ ہے‘ جس کا نام جیوانی ہے۔ اس کی ایک وجہء شہرت یہاں سے ڈوبتے ہوئے سورج کا نظارہ بھی ہے جسے دیکھنے کے لیے یہاں تک سفر فرض نہیں تو مباح ضرور ہے۔ یہاں کے زیادہ تر لوگ سمندر سے مچھلیاں پکڑتے ہیں اور انہیں گوادر یا کراچی لے جا کر بیچتے ہیں۔ یہ قصبہ ہر لحاظ سے پاکستان کی آخری آبادی کہلانے کے لائق ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مغرب میں ایران کی سرحد تک زمین اونچے نیچے ٹیلوں اور سمندری نہروں سے اٹی پڑی ہے اس لیے یہاں انسانوں کے رہنے کے لیے کوئی چھوٹی موٹی تعمیر بھی ممکن نہیں۔ جیوانی کے شمال میں سینکڑوں میل تک پھیلا ایک دشت ہے جہاں آدمی بھٹک جائے تو اس کا نشان تک نہ ملے۔ اس قصبے میں زندگی محدود اور وقت کی رفتار بہت سست رہتی ہے۔ ساحل پر ہونے کی وجہ سے البتہ سمندر کی مسلسل آواز اس بستی کا مستقل حصہ ہے۔ نئے آنے والوں کو کچھ دیر کے لیے یہ آواز شور محسوس ہوتی ہے مگر تھوڑی دیر بعد ہی کان اس سے مانوس ہو جاتے ہیں اور یہ آواز پس منظر میں دب جاتی ہے۔ اس قصبے میں ایک ہی بازار ہے جو عام طور پر سویا ہوا سا محسوس ہوتا ہے۔ بازار میں جیسے ہی کوئی اجنبی شخص داخل ہو پہچانا جاتا ہے، دکاندار کسمسا کر اٹھتے ہیں اور گاہک اس پر نظریں گاڑ کر اپنے کام سے بیگانہ ہو جاتے ہیں۔ اجنبی کے ساتھ کوئی جانا پہچانا مقامی شخص ہے تو ٹھیک ورنہ اجنبی ان نگاہوںکی زیادہ دیر تک تاب نہیں لا سکتا۔
جیوانی سے مشرق کی طرف آٹھ سو ساٹھ کلومیٹر سمندر کے ساتھ ساتھ چلتے رہیں تو گوادر، کراچی اور ٹھٹھہ سے ہوتے ہوئے پاک بھارت سرحد کے قریب جا کر کیٹی بندر کی آبادی ہے۔ یہی وہ جگہ ہے جس کا نام دیبل ہے‘ جہاں محمد بن قاسم اپنی فوجوں کے ساتھ اترا تھا۔ یہ بھی سمندر کی طرف پاکستان کی آخری آبادی ہے جس کا راستہ خشکی سے جڑا ہوا ہے۔ اس سے آگے چھوٹے چھوٹے جزیرے ہیں‘ جہاں مچھیروں نے عارضی ٹھکانے بنا رکھے ہیں کہ جب رات کو شکار کرنا ہو تو سرِشام یہاں آکر ڈیرے ڈال دیتے ہیں۔ کیٹی بندر کے رہنے والے زندہ دل بھی ہیں اور کچھ ہوشیار بھی۔ اس لیے یہ قصبہ رات کو بھی دیر تک جاگتا رہتا ہے۔ جیوانی پر جو بے خبری کا ایک ماحول طاری رہتا ہے وہ یہاں نظر نہیں آتا۔ یہ ایک ایسا قصبہ ہے جو مستقبل میں شہر بننے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ کسی زمانے میں یہاں کوئلے پر چلنے والے بجلی گھر اور بڑی بندرگاہ بنانے کی بات چلی تھی مگر سرکار کی فائلوں میں ہی اٹک گئی۔ ہو سکتا ہے مستقبل میں اس گاؤں نما قصبے کا نصیب کھل جائے‘ اور یہ بھی ترقی کرنے لگے۔
کیٹی بندر سے سترہ سو کلومیٹر دور ایبٹ آباد سے آگے قراقرم ہائی وے پر بٹگرام اور تھاکوٹ کے درمیان پہاڑوں کی ایک مہیب دیوار مسافر کے دائیں طرف آ جاتی ہے۔ اس دیوار میں ایک جگہ رخنہ ہے جس میں سے گزرتی ہوئی ایک چھوٹی سے سڑک گھومتی گھامتی الائی پہنچ جاتی ہے۔ سال میں صرف تین ماہ ایسے ہوتے ہیں جب یہاں برف نہیں ہوتی لیکن سردی مسلسل رہتی ہے۔ پاکستان کے شہری مراکز سے دور ہونے کی وجہ سے یہاں گرمیوں میں بھی زیادہ چہل پہل نہیں ہوتی۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ یہاں کے لوگ اپنے ہاں اجنبیوں کی بڑی تعداد کو پسند نہیں کرتے۔ ہاں، کوئی مسافر آ جائے تو اس کو میزبان ضرور مل جاتا ہے۔ یہاں کے لوگ اگر مارچ کے مہینے میں لاہور آ جائیں تو گرمی سے پگھلنے لگتے ہیں‘ اس لیے اپنی ضروریات کے لیے ان کی تجارت ایبٹ آباد تک ہی محدود رہتی ہے۔ سینکڑوں میں سے کوئی ایک ہی ہوتا ہے جو گرمیوں میں اپنے برفستان سے نکلے اور میدانی علاقوں کی گرمی میں کام کرے۔
جیوانی، کیٹی بندر اور الائی کے لوگ ایک دوسرے سے اتنے فاصلے پر ہیں کہ ان کے درمیان کوئی اشتراک ممکن ہی نہیں۔ زبان، رہن سہن، موسم اور جغرافیہ اتنے الگ ہیں کہ بظاہر ایک ملک کے تین قصبے ہونے کے باوجود ان کا آپس میں کچھ لینا دینا نہیں۔ جیوانی والوں پر عرب کلچر کا اثر، کیٹی بندر والے نیم راجستھانی نیم گجراتی جبکہ الائی والے وسطی ایشیا کلچر کے پروردہ۔ ان لوگوں کے ساتھ پاکستان کا واحد رابطہ عام انتخابات ہیں‘ جن میں یہ اپنے اپنے لوگ قومی اسمبلی میں بھیج کر پانچ سال کے لیے پاکستان کے ساتھ جڑ جاتے ہیں۔ جیوانی والوں نے سید عیسٰی نوری کو چنا، کیٹی بندر والوں کو سید ایاز علی شیرازی بھایا اور الائی والوں نے قاری محمد یوسف کو اپنا نمائندہ بنا کر اسلام آباد بھیج دیا۔ ان کی طرح ملک کے گوشے گوشے سے چنے ہوئے لوگوں نے ایک ایک ووٹ سے اکٹھا کیا ہوا پنج سالہ اعتماد نواز شریف کو سونپ دیا کہ وہ دستور میں طے کردہ طریق کار کے مطابق حکومت چلائیں۔ اس حکومت پر جیوانی والا بھی مطمئن ہو گیا، کیٹی بندر والا بھی اور الائی والا بھی۔ ان کی امیدیں پوری ہوئیں یا نہیں، اپنے ووٹ کا انہیں نقصان ہوا یا فائدہ، نواز شریف کو اپنے دورِ حکومت کی سزا ملنی ہے یا جزا‘ اس کا فیصلہ ان کے پاس محفوظ ہے اور دو ہزار اٹھارہ میں یہ فیصلہ سنا دیا جائے گا۔ آخری فیصلے کا یہ حق کسی دستور کا دیا ہوا نہیں بلکہ عوام نے اس ملک کے مالک ہونے کے ناتے خود یہ طے کیا ہے کہ دستور ان کی منشا کا مظہر ضرور ہے‘ مگر ان کی منشا ملک کے ہر دستوری ادارے پر غالب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انتخاب جو عوام کی براہ راست مرضی کا عکاس ہوتا ہے وہ دستور کو بھی بدل ڈالتا ہے۔ ہم سب کو یاد رکھنا چاہیے کہ جسٹس افتخار چودھری نے کسی وجہ سے خود کو بالاتر قوت جان کر جمشید دستی کو قومی اسمبلی کی نشست سے استعفیٰ دینے پر مجبور کیا تو چند روز بعد ہی عوام نے اسے دوبارہ منتخب کرکے منصف اور نظام انصاف کو باور کرا دیا کہ آپ ہمارے کام میں دخل نہ دیں تو اچھا ہو گا۔
دنیا بھر میں عوام کی مرضی و منشا کی تقدیس کو مانتے ہوئے دنیا بھر کی جمہوریتیں اس نتیجے پر پہنچی ہیں کہ منتخب ہونے کی واحد اہلیت ووٹ ہے، باقی سب قانونی نخرے ہیں۔ برطانیہ میں رکن پارلیمنٹ بننے کے لیے اہلیت کے بارے میں تو لطیفہ مشہور ہے کہ دنیا کا ہر شخص برطانیہ میں نہ صرف الیکشن لڑ سکتا ہے بلکہ جیت بھی سکتا ہے۔ امریکا میں‘ جہاں کی جمہوریت اب ایک مثال بن چکی ہے، گزشتہ سوا دو سو برس میں کسی ایک منتخب شخص کو بھی عدالت کے لیے ذریعے نااہل نہیں کیا گیا۔ حتیٰ کہ کئی بار امریکی سینیٹ میں منتخب ہونے والوں کی عمر دستور میں طے کردہ عمر سے کم تھی‘ مگر سینیٹ نے عوام کی رائے کا احترام کرتے ہوئے ان کم عمر سینیٹرز کی اہلیت پر سوال نہیں اٹھایا۔ پچھلے برس امریکا کے شہر شکاگو کی سٹی کونسل میں ایک ایسا شخص بھی منتخب ہو گیا جو قتل اور منشیات کے مقدمات میں جیل میں بند تھا۔ عوامی رائے کا احترام کرتے ہوئے اس شخص سے جیل میں اس کے عہدے کا حلف لیا گیا۔ امریکی ریاست ورجینیا کے قانون ساز ادارے میں ایک ایسا شخص جیل سے منتخب ہوا جس پر سنگین جنسی جرم ثابت ہو چکا تھا‘ مگر کسی عدالت نے اس کا نوٹس نہیں لیا کیونکہ عوام کی رائے کسی بھی دستور، قانون یا جج کی تشریح سے زیادہ محترم ہے۔ دنیا بھر کی جمہوریتیں یہ بات اچھی طرح سمجھ چکی ہیں کہ عوام کے چنے ہوئے لوگوں کو آنے بہانے سے نااہل کیا جائے تو وہ اس مرکز سے بھی ٹوٹ جاتے ہیں جس سے جڑے رہنے کا انہوں نے خود فیصلہ کیا ہے۔ اب ہمیں بھی سمجھ لینا چاہیے کہ منتخب لوگوں کی اہلیت اسلام آباد کی سنگین عمارتوں کے مستطیل کمروں میں طے نہیں ہو سکتی، اس کا فیصلہ جیوانی، کیٹی بندر اور الائی میں ہونا ہے، جہاں کے لوگ سادہ تو ہیں مگر بے وقوف بالکل بھی نہیں۔