"HAC" (space) message & send to 7575

دولت مندوں کا الیکشن

چند دن پہلے لاہور کے بلاول ہاؤس میں پاکستان پیپلزپارٹی کے اجلاس میں دوہزار اٹھارہ کے انتخابات زیر غور تھے۔ پہلے تو بات انتخابات کے التوا پر ہوتی رہی جب تمام شرکاء متفق ہوگئے کہ انتخابات وقت پر ہوں گے تو آئندہ انتخابات کی حکمت عملی پر غور شروع ہوا۔ آصف علی زرداری اجلاس کی صدارت کررہے تھے ، انہوں نے اپنا تجزیہ پیش کیا کہ آئندہ انتخابات پاکستان کی تاریخ کے مہنگے ترین انتخابات ہوں گے، اس لیے پارٹی کو وسائل اکٹھے کرنے کی بھی کوئی حکمت عملی بنانا ہوگی۔پارٹی رہنماؤں کا خیال تھا کہ مسلم لیگ ن کے پاس ایسے امیدوار بکثرت ہیں جو الیکشن پر بے پناہ پیسہ خرچ کرکے مثبت نتائج حاصل کرسکتے ہیں اس لیے پارٹی کو ایسے لوگ ہی امیدوار کے طور پر سامنے لانے چاہئیں جو پیسے والے ہوں اور اسے مؤثر طریقے سے خرچ کرنا بھی جانتے ہوں۔ اس اجلاس میں غورو فکر کے بعد قومی اسمبلی کے ایک حلقے کے اخراجات کے لیے جس اوسط رقم کا اندازہ لگایا گیا وہ پچیس کروڑ روپے تھی۔اجلاس میں موجود دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے تجربہ کار امیدواروں کا خیال تھا کہ دیہات میں قومی اسمبلی کے ایک حلقے میں پچیس کروڑروپیہ مناسب رقم ہے جبکہ شہری حلقوں سے الیکشن لڑنے والوں کی رائے تھی کہ پچیس کروڑ روپے ان کی ضرورت سے بہت کم ہوں گے کیوںکہ شہروں میں الیکشن مہم دیہات کی نسبت مہنگی ہوگی کیونکہ بلدیاتی انتخابات میں یونین کونسل کی سطح کے الیکشن پر کروڑوں روپے خرچ کرنے کی روایت پڑ چکی ہے اس لیے عام انتخابات میں اخراجات پچیس کروڑ سے کہیں زیادہ ہوں گے۔ یہ گفتگو زور و شور سے جاری تھی کہ آصف علی زرداری نے کہاہمیں اس وقت سے ڈرنا چاہیے جب ملک کے چند بڑے سرمایہ دار اپنی دولت کے زور پر قومی اسمبلی کی نشستیں جیت کر آئندہ حکومت کو ڈکٹیشن دینے کی پوزیشن میں آجائیں‘‘۔ ان کی بات پر چند لمحے خاموشی چھائی رہی اورپھر اجلاس ختم ہونے کا اعلان کردیا گیا۔ 
آئندہ الیکشن میں کمپین چلانے کے لیے وسائل کے لیے پریشانی محض پیپلزپارٹی کو ہی نہیں بلکہ تحریک انصاف بھی اسی خوف کا شکار ہے کہ کہیں اس کے امیدوار( ن) لیگ کے امیدواروں کے مقابلے میں صرف سرمائے کی کمی کی وجہ سے نہ ہار جائیں۔ اس خطرے کو سامنے رکھتے ہوئے عمران خان کئی بار اپنے پرانے کارکنوں کو سمجھاتے ہیں کہ ان کے گرد علیم خان، جہانگیر ترین ، جمشید اقبال چیمہ اور عثمان ڈار جیسے لوگ خواہ نظریاتی کارکن ہوں‘ نہ ہوں الیکشن جیتنے کے لیے پیسہ لگانا جانتے ہیں اس لیے ایک بڑے مقصد کے لیے انہیں برداشت کیا جائے۔ تحریک انصا ف کے ایک خوشحال ممبر اسمبلی سے عمران خان کے جلسوں میں ان کی غیر حاضری کا ذکر ہوا تو کہنے لگے ، ''میں نے سیاست کے لیے جو رقم مختص کررکھی ہے وہ آئندہ انتخابی مہم چلانے کے لیے تو کافی ہے مگر عمران خان کے نزدیک ہونے کے لیے کافی نہیں کیونکہ ان کے قرب کا مطلب ہے پارٹی کے اخراجات کے لیے بھی سرمایہ فراہم کرنا اور اتنی میری پسلی نہیں ہے‘‘۔شنید ہے کہ آئندہ انتخابات کے لیے ''مناسب‘‘ وسائل کے بندوبست کے لیے خیبرپختونخواحکومت کے ایک وزیر تو اتنے بے چین ہیں کہ انہوں نے اپنی وزارت میں چن چن کر ایسے لوگوں کو اہم عہدوں پر لگایا ہے جو کمال مہارت سے ''بدعنوانی سے پاک‘‘ حکومت میں بھی سرکاری وسائل کے دودھ میں سے مکھن نکال کر وزیرموصوف کی خدمت میں پیش کردیتے ہیں اور یہی مکھن ان کی اور ایک ضلعے میں تحریک انصاف کی سیاست کو رواں رکھے ہوئے ہے۔ نئے سیاسی حقائق کے پیشِ نظر خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے بھی آئندہ الیکشن میں اپنے صوبے سے ایسے لوگوں کو کھڑا کرنے کا پروگرام بنا رکھا ہے جو اپنی الیکشن مہم کے اخراجات خود اٹھا سکیں کیونکہ ان کے مقابلے میں امیر مقام کے چنے ہوئے ایسے لوگ مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر ہوں گے جن کی جیبیں حکومتوں سے بھی زیادہ گہری ہیں۔ 
مسلم لیگ ن کے لیے الیکشن میں سرمایہ کاری کبھی بھی مسئلہ نہیں بنی۔اس جماعت میں تاجروں ، صنعتکاروں اور پراپرٹی ڈیلروں کی اتنی بڑی تعداد موجود ہے جس کے لیے چند ارب روپے اکٹھے کرنا معمولی بات ہے۔ جس قدر سرمائے کے لیے دوسری سیاسی جماعتوں کے دانتوں تلے پسینہ آجاتا ہے ، وہ نواز شریف کے اشارۂ ابرو سے ہوجاتا ہے ۔ اس کے علاوہ طویل عرصے سے حکومت میں رہنے کی وجہ سے بھی وہ بڑے بڑے کاروباری، جو عام طور پر سیاست سے دور رہتے ہیں مگر سرکار دربار میں رسائی کاحق محفوظ رکھنے کے لیے، اس جماعت کا ٹکٹ پانے والوں کی یوں خدمت کر دیتے ہیں کہ دوسرے ہاتھ کو خبر نہیں ہونے پاتی۔ سوائے چند ایک درویشوں کے جو وراثت میں ملی زمینیں بیچ بیچ کر سیاست کا شوق پورا کررہے ہیں، مسلم لیگ ن کے بیشتر اراکین اسمبلی بغیر کسی پریشانی کے اپنی آئندہ الیکشن مہم کے لیے اتنا سرمایہ اکٹھا کرسکتے ہیں جس کی تاب لانا ان کے حریفوں کے لیے ممکن نہیں ہوگا۔اس جماعت کے ایک وفاقی وزیر سے آئندہ الیکشن میں اخراجات کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کانوں کو ہاتھ لگا کر بتایا''پاکستان میں الیکشن لڑنے کے لیے بنیادی شرط دستور کی دفعہ باسٹھ اور تریسٹھ پر پورا اترنا نہیں بلکہ اربو ں روپے کا مالک ہونا ہے، جو یہ شرط پوری نہیں کرسکتا وہ الیکشن کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا‘‘۔ 
پیپلزپارٹی، تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن تو چلیے بڑی جماعتیں ہیں جو دوہزار اٹھارہ میں حکومت بنانے کا خواب دیکھ رہی ہیں اور اس خواب کی تعبیر کے لیے ہر ممکن کوشش کررہی ہیں لیکن چھوٹی جماعتیں مثلاً جماعت اسلامی، جمعیت علماء اسلام (ف) ، عوامی نیشنل پارٹی، پختونخوا ملی عوامی پارٹی، نیشنل پارٹی وغیر ہ تو پیسوں کے لیے ہلکان ہوئی جاتی ہیں۔ ان بے چاروں کی حالت یہ ہے کہ ا ن کے زعماء و رہنما بھی ڈرے ہوئے ہیں کہ نجانے آئندہ الیکشن مہم میں ان کا مقابلہ کس قدر اور کس قسم کے سرمائے سے ہوگا اورکیاان کا ووٹر بے پناہ پیسے کے مقابلے میں ان کے ساتھ اپنی وفاداری قائم رکھ پائے گاـ؟اس خوف کا اظہار کچھ عرصہ پہلے جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے میرے سامنے کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ زندگی بھر انہوں نے الیکشن لڑے اور کبھی ایک روپیہ بھی ان کی جیب سے خرچ نہیں ہوا لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ ''میرے جیسا غریب شخص الیکشن لڑنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا‘‘۔ 
پاکستان کے قانون کی کتابوں میں عام انتخابات کے لیے ہر امیدوار کو چند لاکھ روپے اپنی مہم میں خرچ کرنے کی اجازت ہے لیکن الیکشن کمیشن اپنی آنکھیں کان بند رکھنے کا اتنا عادی ہے کہ اس نے کبھی کسی امیدوار کی الیکشن مہم کے کاغذی کھاتے جمع کرنے کے سوا کچھ دیکھا ہی نہیں۔ الیکشن کمیشن کی مقرر کردہ حدود کے اندر انتخابی اخراجات رکھنا ایک ایسا قانون ہے جس کی دھجیاں ہر الیکشن میں تقریباً ہر امیدوار بکھیرتا ہے۔ این اے ایک سو بائیس کے ضمنی الیکشن میں تحریک انصاف کے علیم خان اور ہمارے موجودہ اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے سرعام اس کی خلاف ورزی کی ، این ایک سو چون لودھرا ں کے ضمنی انتخاب میں جہانگیر ترین پیسہ پانی کی طرح بہا کر جیتے اور این ایک سو چوالیس اوکاڑہ کے ضمنی انتخاب میں ریاض الحق جج نے باقاعدہ دکانیں لگا کر ووٹ خریدے اور جیتنے کے بعد مشرف بہ ن لیگ ہوگئے۔ آئندہ الیکشن میں یقینی طور پر یہ صاحب اپنی دولتمندی کی بنیاد پر وزارت کے دعویدار بھی ہوں گے۔ قرائن بتاتے ہیں کہ ہمیشہ کی طرح الیکشن کمیشن اپنی آنکھیں اور زبان بند رکھے گا اور الیکشن دوہزار اٹھارہ دولتمندوں کا کھیل بن کر رہ جائے گا۔ ہماری جمہوریت خریدی جائے گی، بیچی جائے گی ، سربازار عریاں کی جائے گی، اسی کے بطن سے سرمائے کا استبداد جنم لے گا اور ہم سب غلام بن کر رہ جائیں گے۔ صرف غلام!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں