ننھی زینب کی لاش ملنے کے چھتیس گھنٹے بعد‘ صبح نو بجے کے قریب لاہور قصور شاہراہ پر‘ قصور سے سات کلومیٹر پہلے ہی ہماری گاڑی کو ایک ''بچہ چیک پوسٹ‘‘ پر روک لیا گیا۔ بچہ چیک پوسٹ اس لیے کہ چالیس پچاس بچوں نے چارپائی کی ادوائن والی رسی کو سڑک کنارے لگے درختوں سے باند ھ کر راستہ بند کر رکھا تھا اور خود ہاتھوں میں ڈنڈے لیے ہر قسم کی نقل و حرکت‘ ہر قیمت پر روکنے کے لیے تیار کھڑے تھے۔ میں نے دور سے ہی یہ بچہ چیک پوسٹ دیکھی تو اپنے پروگرام کے پروڈیوسر علی جان کو گاڑی آہستہ کرنے کا کہہ کر گلے میں دنیا ٹی وی کا کارڈ پہن لیا۔ میری دیکھا دیکھی علی نے بھی کارڈ پہنا اور اس ''چیک پوسٹ‘‘ پر گاڑی روک دی۔ یہا ں کھڑے بچوں کی کم از کم عمر سات سال اور زیادہ سے زیادہ عمر پندرہ سال تھی۔ گاڑی رکی تو بارہ سال کا یک بچہ جس نے اپنے سے لمبے قد کے بانس کے ایک سرے پر لوہے گولا لگا رکھا تھا، ہماری گاڑی کی طرف لپکا۔ اگلے ہی لمحے ہماری گاڑی کو چارو ں طرف سے بچوں نے گھیر لیا۔ ہم نے گلے میں پہنے کارڈ ان کے سامنے کیے تو بارہ سال کے اس بچے نے باقیوں کو ٹھیٹھ پنجابی میں بتایا، ''میڈیا والے ہیں جانے دو‘‘۔ اس آواز کے ساتھ ہی گاڑی کے بونٹ کے سامنے کھڑے دس سالہ سپاہی نے اپنے ڈنڈے سے رسی اتنی اونچی کر دی کے گاڑی گزر سکے۔ جب ہماری گاڑی اس ناکے پر رکی ہوئی تھی تو ایک اور گاڑی بھی ہمارے پیچھے آن کھڑی ہوئی۔ ہم سے نمٹ کر یہ بچے پچھلی گاڑی کے درپے ہو گئے۔ ہم ناکے سے چند گز ہی آگے گزرے ہوں گے کہ ہمیں پیچھے سے گاڑی کے شیشے ٹوٹنے کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ بچہ چیک پوسٹ پر میڈیا کے سوا ہر گاڑی کے ساتھ یہی سلوک کیا جا رہا تھا۔
پہلی چیک پوسٹ کے ٹھیک ایک کلومیٹر پراسی طرح کا ایک اور ناکہ لگا تھا جہاں راستہ بند کرنے کے لیے جلتے ہوئے ٹائر سڑک پر ڈال دیئے گئے تھے۔ یہاں کھڑے سو کے قریب ڈنڈا برداروں کی عمریں بارہ سے سترہ سال تک ہوں گی۔ انہوں نے بھی پہلے ہمیں گھیرے میں لیا، پھر کارڈ دیکھے، اس کے بعد کیمرہ دیکھا، ان میں سے ایک نے میری شکل غور سے دیکھی، کارڈ پر لگی تصویر دیکھی، میرا نام پڑھ کرذرا درشت انداز میں بولا ''آپ وہی ہیں نا جو دنیا ٹی وی پر آتے ہیں؟‘‘۔ میں نے اقرار کیا تو اس نے باقیوں کو آواز دی ''جانے دو، میڈیا والا ہے‘‘۔ یہ سنتے ہی ایک نوجوان نے ڈنڈے سے جلتے ہوئے ٹائر آگے پیچھے کر کے گاڑی گزرنے کی جگہ بنا دی اور ہم آگے چل پڑے۔ اس طرح کے نصف درجن ناکے اپنے کارڈ اور کیمرا دکھاتے گزار کر قصور کے شہباز روڈ پہنچ گئے جہاں آخری ناکہ لگا ہوا تھا اور یہاں نوجوانوں کی تعداد بھی زیادہ تھی۔ اس ناکے کے ساتھ ہی وہ ایکڑوں پر محیط کچرا پھینکنے کی جگہ تھی جس کے ایک غلیظ گوشے سے زینب کی لاش ملی تھی۔ یہاں پر ہمیں آگے جانے کے لیے باقاعدہ مذاکرات کرنا پڑے اور موقع پر موجود چند پختہ عمر لوگوں نے ہمیں یہاں سے نکلنے میں مدد دی۔ قصور شہر ڈنڈا بردار نوجوانوں کے قبضے میں تھا اور ان کے قائم کردہ ناکوں سے وہی گزر سکتا تھا جس کا تعلق میڈیا سے ہو یا ان بپھرے ہوئے نوجوانوں میں سے کسی سے ہو۔ کتابوں میں پڑھا ہے کہ جب سڑکوں پر قانون کی حکمرانی کی بجائے گروہوں کے ناکے لگ جائیں تو اس کیفیت کو طوائف الملوکی یا انارکی کہا جاتا ہے۔ اس تعریف کو درست مان لیا جائے تو قصور شہر اس دن مکمل طور پر انارکی کا شکار تھا۔ پولیس غائب، سرکاری ہسپتال، ڈپٹی کمشنر کا دفتر، ضلع کچہری اور تمام دیگر دفاتر بند تھے۔ جگہ جگہ سے دھواں اٹھ رہا تھا اور ''ڈی پی او مردہ باد‘‘، پنجاب پولیس مردہ باد، ڈپٹی کمشنر مردہ باد‘‘ کے فلک شگاف نعرے سنائی دے رہے تھے۔ کبھی کبھی اسی طرح کے نعرے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے لیے بھی بلند ہو رہے تھے۔
ناکوں، دھویں اور نعروں سے گزر کر ہم زینب کے گھر روڈ کوٹ پہنچے تو وہاں یوں لگ رہا تھا کہ شہر کا شہر اس معصوم بچی کی تعزیت کے لیے آیا ہوا ہے۔ زینب کے چچا مدثر سے بات ہوئی تو اس نے پوری کہانی سنائی کہ کس طرح چند قدم کے فاصلے پر وہ قرآن پڑھنے کے لیے اپنی ایک عزیزہ کے پاس گئی اور پھر اس کی لاش ہی ملی۔ میں نے قصور کے ڈی پی او کے رویے کے بارے میں پوچھا جس کے خلاف مردہ باد کے نعرے لگ رہے تھے تو اس نے بتایا کہ ''جب بچی کی گمشدگی کو بیس گھنٹے گزر گئے تو میں ڈی پی او کے پاس گیا مگر مجھے اس کے دربار میں حاضری بھی نہ مل سکی۔ واپس آکر محلے والوں کو اپنے ساتھ ہونے والے سلوک کے بارے میں بتایا تو پھر سب لوگ اکٹھے ہو کر اس کے پاس گئے۔ اس نے بات تو سن لی مگر پولیس کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ جب پانچ دن بعد زینب کی لاش کچرے کے ڈھیر سے ملی تو ڈی پی او بھی موقع پر چلا آیا اور اس نے ہمیں پولیس اہلکاروں کو بطور انعام دس ہزار روپے دینے کے لیے کہا‘‘۔
میں اپنی حیر ت پر قابو نہ پا سکا، میں نے پھر پوچھا کہ کیا لاش ملنے پر انعام کا تقاضا ہوا تھا۔ مدثر نے زور دے کر یہی بات کیمرے کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر‘ کہہ دی۔ مجھے وجہ سمجھ آ گئی کہ قصور کی سڑکوں پر لڑکوں کا راج کیوں ہے۔ اگر ذوالفقار نامی یہ ڈی پی او پہلے دن انسانیت کا ثبوت دیتا اور زینب کی گمشدگی کو ایک باپ کی نظر سے دیکھتا تو شاید صورتحال ایسی نہ ہوتی۔ چلیے دوسروں کے بچوں کو اپنا بچہ نہ سمجھتا بس اپنا فرض ہی تندہی سے اداکر لیتا تو بھی بلھے شاہ کے شہر میں ریاستِ پاکستان کے اختیار کی دھجیاں نہ اڑائی جاتیں۔
شہباز روڈ کے ایک طرف زینب کا گھر ہے تو دوسری طرف محمد علی کا گھر ہے جو زینب کے قتل پر احتجاج کرتے ہوئے پولیس کی گولی کا نشانہ بن گیا تھا۔ اس کا دوست سرفراز جو اس کے ساتھ تھا، نم آنکھوں کے ساتھ مجھے بتا رہا تھا کہ کس طرح وہ زینب کے لرزہ خیز قتل پر احتجاج کے لیے ڈپٹی کمشنر کے دفتر پہنچے۔ نہ صرف سرفراز بلکہ شہر کے کئی لوگوں نے بتایا کہ ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ان کے مظاہرے پر گولیاں چلا دی جائیں گے۔ ''ہم ڈی پی او اور ڈی سی سے بات کرنا چاہتے تھے۔ جب پولیس والوں نے ہوائی فائرنگ کی تو ہم اپنی جگہ پر رک گئے ، محمد علی پیچھے کی طرف مڑا تاکہ دور ہٹ جائے مگر پولیس کی طرف سے آنے والی گولی اس کی پیٹھ کی طرف سے دل میں جا لگی‘‘، سرفراز نے بتایا اور دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔ محمد علی کا نوجوان بھائی میرے پاس خاموش کھڑا تھا۔ اس کے چہرے کے تاثرات اور آنکھوں کی وحشت قصور میں طوائف الملوکی کی دیگر وجوہات سمجھانے کے لیے کافی تھے۔
قصور سے واپسی پر پھر لڑکوں کے بنائے ہوئے ناکوں سے کارڈ دکھا دکھا کر گزر رہے تھے کہ مجھے موبائل فون پر ایک ویڈیو موصول ہوئی جس میں سرگودھا کا ڈی سی اور ڈی پی او رقص و سرود کی ایک مجلس اپنے شہر میں سجائے بیٹھے تھے۔ یہ اسی دن کی ویڈیو تھی جب پورا ملک زینب کے غم میں ڈوبا ہوا تھا اور یہ دونوں دادِ عیش دے رہے تھے۔ یہ وہی شام تھی جس سے چند گھنٹے قبل سرگودھا میں ہی ایک سولہ سال لڑکی کو زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا تھا۔ میں نے ادھر ادھر سے معلوم کرنے کی کوشش کی کہ سرگودھا میں یہ دونوں اعلیٰ افسران کس کی سفارش پر لگے ہیں تو معلوم ہوا کہ پنجاب بھر میں ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف کا ذاتی انتخاب ہوتے ہیں اور تقرری سے پہلے باقاعدہ انٹرویوکی چھلنی سے گزرتے ہیں۔ یہ جانا تو سب کچھ سمجھ آ گیا ۔ جب اختیارات فردِ واحد میں مرتکز ہو جائیں تو انصاف بے معنی ہو جاتا ہے اور جب انصاف ہی نہ رہے تو سڑکوں پر لڑکوں بالوں کی حکومت ہوتی ہے‘ قانون کی نہیں۔