"HAC" (space) message & send to 7575

چودھری نثار علی خان

راولپنڈی شہر سے اڈیالہ جیل کی طرف چلتے جائیں تو اچانک بجلی کے کھمبوں پر چودھری نثار علی خان صاحب کی تصویریں اور سڑک سے ملتی ہوئی دائیں بائیں کی گلیوں کے نکڑ پر لگے ترقیاتی سکیموں کے بورڈز پر ان کا نام دکھائی دینے لگتا ہے۔ اسی سڑک پر چلتے چلے جائیں تو گورکھپور آ جائے گا، آگے چلیں تو چونترہ کے علاقے سے گزرنے کے مزید چند میل کے بعد موٹر وے راستہ روک لیتی ہے۔ موٹر وے کے نیچے سے گزر جائیں تو سڑک تھوڑا سا چکراتی ہوئی چکری پہنچ جاتی ہے۔ جی ہاں وہی چکری جو چودھری نثار علی خان کی وجہ سے مشہور ہے۔ موٹر وے سے کچھ پہلے ایک سڑک بائیں ہاتھ مڑتی ہیں جس پر چلتے ہوئے تقریباً ستر کلو میٹر بعد مسافر روات کے قریب آ نکلتا ہے اور جی ٹی روڈ پار کرکے مزید تیس پینتیس کلو میٹر بعد کلر سیداں آ نکلتا ہے۔ سینکڑوں مربع کلو میٹر پر پھیلے اس علاقے میں کسی ایک مقام پر بھی نواز شریف یا شہباز شریف کی کوئی تصویر نظر نہیں آتی‘ اور یہی چودھری نثار علی خان کا حلقہ ہے‘ جہاں سے وہ منتخب ہو کر اسمبلی پہنچتے ہیں۔ روات کے قریب جی ٹی روڈ پر‘ جہاں اس طرح کی کچھ تصویریں دکھائی دیتی ہیں‘ وہ علاقہ چودھری نثار کے حلقے میں شامل نہیں بلکہ پرانی حلقہ بندیوں کے تحت ڈاکٹر طارق فضل چودھری کے حلقے میں آتا ہے۔ روات سے جی ٹی روڈ پر پشاور کی طرف چلنا شروع کر دیں تو مسلم لیگ ن اور شریف برادران کی تصویریں سڑک کے ساتھ ساتھ دکھائی دیتی رہتی ہیں‘ لیکن جیسے ہی راولپنڈی کے بعد ترنول آتا ہے تو پھر سے چودھری نثار کی تصویر اور نام غالب آ جاتے ہیں اور واہ کینٹ سے آگے لالہ رخ بستی تک مسلم لیگ ن میں سے چودھری نثار علی خان کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ یہ قومی اسمبلی کا دوسرا حلقہ ہے جہاں سے چودھری نثار علی خان الیکشن لڑتے ہیں اور یہاں پچھلے عام انتخابات میں تحریک انصاف کے چودھری غلام سرور خان نے انہیں آٹھ ہزار ووٹوں سے شکست دی تھی۔ ان دونوں حلقوں کا محل وقوع دیکھیں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ راولپنڈی میں داخلے کے دونوں راستوں پر چودھری نثار علی خان کا سیاسی ناکہ لگا ہوا ہے۔ پشاور سے آئیں تو بھی، لاہور سے پہنچیں تو بھی۔ ٹیکسلا والے حلقے پر تو تحریک انصاف کا جادو چل گیا ہے مگر چکری اور چونترہ والے حلقے میں رہنے والوں کے لیے مسلم لیگ ن میں 'ن‘ کا مطلب 'نثار‘ ہے۔ یہی حلقہ ان کی سیاسی طاقت کا سرچشمہ ہے۔ 
چند دن پہلے ان کے حلقے میں گھومتے ہوئے یہ احساس ہوا کہ شاید پینتیس برس پہلے بھی چودھری نثار علی خان کو اندازہ تھا کہ کسی وقت انہیں نواز شریف سے اپنے راستے الگ بھی کرنے پڑ سکتے ہیں، اسی لیے انہوں نے کبھی نواز شریف کو اپنے حلقے میں آنے کی زحمت یا دعوت نہیں دی۔ جو کچھ بھی کیا اس انداز میں کیا کہ سرکاری پیسے سے لگی ہر اینٹ پر ان کا نام نقش ہو گیا اور حلقے کے ووٹر انہیں نواز شریف اور عمران خان جیسا لیڈر ہی سمجھنے لگے۔ یہ ان کی کاریگری تھی کہ بیک وقت نواز شریف، عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات قائم رکھے۔ عمران خان نے نواز شریف کے بارے میں اتنا کچھ کہہ ڈالا مگر نثار علی خان نے ایک لفظ اپنے 'قائد‘ کے دفاع میں نہ کہا۔ نواز شریف کئی بار شکار ہوئے مگر چودھری نثار کی اہمیت رتی برابر کم نہ ہوئی۔ نجانے یہ ان کی متوازن شخصیت کی نشانی ہے یا نواز شریف کی کوئی مجبوری کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں کئی شکایتیں پیدا ہونے کے باوجود بھی جب نواز شریف اقتدار میں آئے تو پاکستان کی روایت کے مطابق پارٹی کے سینئر ترین رہنما کے طور پر انہیں وزارتِ داخلہ سونپ دی۔ مسلم لیگ ن میں یہ ان کے عروج کی انتہا تھی۔ اپنی وزارت میں وہ اتنے آزاد تھے کہ نواز شریف وزیر اعظم ہوتے ہوئے بھی انہیں کچھ کہتے ہوئے سوچنے پر مجبور ہو جاتے۔ کابینہ میں ان کی وزارت کے حوالے سے بات کرنا بھی ممکن نہیں تھی۔ بطور وزیر داخلہ جب وہ پنجاب ہاؤس میں پریس کانفرنس کرتے تو پورا ملک ان کی بات سننے کے لیے ہمہ تن گوش ہو جاتا۔ ان کی انتظامی صلاحیت کا تو نجانے کیا عالم تھا مگر اپنی وزارت، اندازِ گفتگو اور اندازِ سیاست کی وجہ سے انہیں جو شہرت ملی وہ سوائے جنرل راحیل شریف (ر) کے سوا کسی اور کے حصے میں نہیں آئی۔ پچھلے چار برسوں میں ان دونوں اصحاب کی شخصی وجاہت اتنی بڑھی، اتنی بڑھی کہ ان دونوں کے لیے ان کے عہدے چھوٹے پڑ گئے۔ انہیں اپنی طبیعت کی جولانیاں دکھانے کے لیے کسی نئے میدان کی آرزو تنگ کرنے لگی۔ جنرل راحیل شریف (ر) کو تو سعودی عرب میسر آ گیا اور پاکستان نے انہیں خوشی خوشی ''شکریہ راحیل شریف‘‘ کہہ کر رخصت کر دیا مگر چودھری نثار علی خان کو مزید سربلندی کا موقع ابھی تک نہیں مل سکا۔ 
چودھری نثار علی خان کے نواز شریف سے اختلافات کی ظاہری شکل کچھ بھی ہو مگر ان کی بنیادی وجہ مریم نواز صاحبہ ہیں۔ جب نواز شریف نے مریم نواز کو سیاست میں آگے بڑھانا شروع کیا تو چودھری صاحب ان چند لوگوں میں سے تھے جو اس پیش رفت سے خوش نہیں تھے۔ مریم نواز صاحبہ قدم قدم آگے بڑھتی جا رہی تھیں‘ اور سیاست کے دستور کے مطابق ان کی مخالفت میں بھی اضافہ ہوتا چلا جا رہا تھا۔ مریم بی بی کا نام پہلے حکومتی و ریاستی دائروں میں گونجا، ڈان لیک کی وجہ سے میڈیا کے دوش پر عوام تک پہنچا، پاناما سے ہو کر عدالت میں آیا، یہاں سے پاناما کیس کی تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش ہوا اور اس پیشی کے بعد ان کی گفتگو کا ایک فقرہ ''روک سکو تو روک لو‘‘ انہیں شخص سے شخصیت بنا گیا۔ اس فقرے نے مسلم لیگ ن کی آئندہ پالیسی کا تعین کر دیا اور چودھری نثار علی خان لا تعلق ہونے لگے۔ تعلقات میں کشیدگی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ چودھری صاحب پاناما والے معاملے میں نواز شریف کے کسی کام نہ آ سکے۔ دعویٰ عمل میں نہ ڈھلا تو کچھ لوگوں نے تو بھری مجلسوں میں سوال اٹھانا شروع کر دیا کہ ان کے تعلق کی قیمت ہمیشہ ن لیگ کو ہی کیوں ادا کرنا پڑی ہے؟ 
مسلم لیگ ن میں چودھری نثار علی خان بہت تیزی سے اجنبی ہوتے چلے جا رہے ہیں، بد اعتمادی کی فضا اتنی گہری ہے کہ ایک ایک فقرہ ایک ایک بیان دونوں طرف پرکھا جاتا ہے، اس میں چھپے معنی آشکار کیے جاتے ہیں‘ اور فضا مزید آلودہ ہو جاتی ہے۔ ان کے کچھ قریبی رفقا بھی اپنے مستقبل کے لیے ان کی طرف دیکھنے کی بجائے نواز شریف کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن نے ان کے دونوں حلقوں میں پہلی بار متبادل امیدوار کی تلاش شروع کر دی ہے اور چودھری صاحب کے علم میں لائے بغیر ان کی سیاسی حیثیت جانچنے کے لیے ایک سروے کرایا گیا ہے جس کا انہیں شدید رنج بھی ہے اور اس کا اظہار وہ ایک پریس کانفرنس میں کر چکے ہیں۔ چودھری نثار علی خان اور مسلم لیگ ن دونوں اس وقت مشکل سے دوچار ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کو چھوڑنا چاہتے ہیں نہ ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ اب اگر معاملات درست بھی ہو جائیں تو وہ پہلی سی بات نہ رہے گی۔ مسلم لیگ ن میں اتنی جگہ نہیں رہی کہ چودھری صاحب اس میں سما جائیں اور چودھری صاحب اپنے لیے جو مقام مناسب سمجھتے ہیں وہ پُر ہو چکا۔ دونوں مارے بندھے گزارہ ہی کرنا چاہیں تو شاید یہ بھی مشکل ہو جائے۔ خیر، ایک بات تو طے ہے کہ چودھری صاحب کی طاقت کا سرچشمہ یعنی ان کا حلقہ انہیں آئندہ بھی اسمبلی بھیج دے گا‘ اور ان جیسا سیاست دان اگر اسمبلی پہنچ جائے تو بہت کچھ کر سکتا ہے۔ وہی کہیں کے بھی نہ رہے، چکری کے چودھری تو رہیں گے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں