"HAC" (space) message & send to 7575

خواجہ آصف نااہل کیوں ہوئے

سیالکوٹ کے عمر ڈار اور عثمان ڈار کے والد امتیازالدین ڈار مسلم لیگ ن کے پرانے کارکن تھے۔ جماعت سے ان کی وابستگی کا سب سے بڑا امتحان انیس سو ننانوے میں اس وقت آیا جب جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کی دوسری حکومت برطرف کرکے اقتدار پر قبضہ جما لیا۔ اس کے بعد مسلم لیگ ن کے کارکنوں کے لیے مشکلات کا دور شروع ہو گیا۔ پورے ملک کی طرح سیالکوٹ کی پیرس روڈ پر واقع مسلم لیگ ن کا دفتر بھی بند ہو گیا ، خواجہ آصف کبھی روپوش ہو جاتے، کبھی نظر بند ہو جاتے ، کبھی چھوڑ دیے جاتے۔ اس زمانے میں خواجہ آصف کو کسی شخص نے سہارا دیا تو وہ امتیاز الدین ڈار تھے۔ ایک کاروباری شخصیت ہونے کے باوجود انہوں نے اتنی جرأت دکھائی کہ مسلم لیگ ن کے دفتر کی بندش کے بعد سیالکوٹ کے مہنگے ترین علاقے میں اپنے ایک بنگلے کو جناح ہاؤس کا نام دے کر مسلم لیگ ن کے دفتر میں بدل ڈالا۔ دفتر بنانے کا مطلب تھا جنرل پرویز مشرف کی براہ راست مخالفت اور مسلم لیگ ن سے وابستگی کی وجہ سے مشکل میں آئے کارکنوں کی اخلاقی، مالی اور قانونی امداد۔ امتیاز الدین ڈار نے نہ صرف یہ تینوں کام کیے بلکہ یہ بھی کیا کہ نواز شریف کے جدّہ منتقل ہو جانے کے بعد رمضان المبارک میں آٹے کے تھیلے بانٹنا شروع کر دیے جن پر نواز شریف کی تصویر چھپی ہوتی تھی۔ اپنے پیسے سے خریدے گئے آٹے اور بنوائے گئے تھیلوں کے بارے میں یہ پروپیگنڈا بھی کیا کہ یہ تھیلے سعودی عرب سے خصوصی طور پر نواز شریف کی طرف سے بھیجے گئے ہیں۔ ابتلا کے اسی دور میں دو ہزار دو کا الیکشن آیا تو امتیاز الدین ڈار نے خواجہ آصف سے صوبائی اسمبلی پر الیکشن لڑنے کے لیے ٹکٹ مانگا۔ یاد رہے کہ یہ وہ وقت تھا جب ن لیگ کا ٹکٹ ملک بھر میں کوئی لینے کے لیے تیار نہیں تھا، ایسے وقت میں ایک کاروباری شخص کی طرف سے ٹکٹ مانگنا بڑی دلیری کی بات تھی۔ خواجہ آصف کو نظر آ رہا تھا کہ اپنی قربانیوں اور سیاسی دائو پیچ کی اچھی فہم رکھنے کی وجہ سے امتیاز الدین ڈار ریاستی مخالفت کے باوجود یہ الیکشن جیت جائیں گے اور آگے چل کر انہی کے لیے پریشانی کا باعث بن جائیں گے۔ ایک ہوشیار سیاستدان کی طرح خواجہ آصف نے امتیاز الدین ڈار کو ٹکٹ دینے کی بھرپور مخالفت کی ۔ ٹکٹ نہ ملنے پر امتیاز الدین ڈار کو معلوم ہو گیا کہ سیالکوٹ میں مسلم لیگ ن دراصل خواجہ آصف لیگ ہے اور اس لیگ میں ان کی کوئی جگہ نہیں۔ 
مسلم لیگ ن کا ٹکٹ نہ ملنے پر امتیاز الدین ڈار کچھ عرصہ تو دکھ میں رہے لیکن پھر خود کو سنبھال کر دوبارہ فعال ہوئے تو ان کی زندگی کا واحد مقصد خواجہ آصف کی مخالفت تھا۔ اسی مخالفت میں وہ سیالکوٹ شہر کے ناظم بنے اور مسلم لیگ ق کا حصہ بن گئے۔ جب مسلم لیگ ق تحلیل ہو گئی تو امتیاز الدین ڈار اپنے بیٹوں عمر ڈار اور عثمان ڈار کو لے کر تحریک انصاف کا حصہ بن گئے۔ دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات میں اپنے بیٹے عثمان ڈار کو انہوں نے خواجہ آصف کا مقابلہ کرنے کے لیے میدان میں اتارا اور اس کی جیت کے لیے دن رات ایک کر دیا۔ اس تگ و دو میں ایک المناک موڑ آیا کہ الیکشن سے چند دن پہلے امتیاز الدین ڈار اگلے جہان سدھار گئے۔ الیکشن سے دو دن پہلے جب امیدوار کو میدان میں ہونا چاہیے، عثمان ڈار اپنے والد کی آخری رسومات میں مصروف تھے۔ خیر، الیکشن ایک بار پھر خواجہ آصف جیت گئے مگر عثمان ڈار نے بھی ہار نہیں مانی اور اپنے والد کی بے عزتی کا بدلہ لینے کے لیے مسلسل متحرک رہے ۔ نجانے کہاں کہاں سے انہوں نے خواجہ آصف کے خلاف ثبوت تلاش کیے اور آخر کار انہیں تاحیات نااہل کرانے میں کامیاب ہو گئے۔ وہ شخص جسے خواجہ آصف نے عزت کا مستحق نہیں سمجھا تھا، مر کر بھی انہیں شہ مات دے گیا۔ خواجہ آصف کی بیرون ملک نوکری، چھپایا گیا بینک اکاؤنٹ، وصول کی گئی تنخواہ اور قانونی دلائل سب کچھ اپنی جگہ مگر حقیقت یہ ہے کہ انہیں اپنے رویے کی سزا ملی ہے۔ ایسا رویہ جو عام طور پر وہ صرف اپنے سے چھوٹوں کے ساتھ روا رکھتے ہیں۔ وہ رویہ جو جمہوری ہے نہ شائستگی کے معیار پر پورا اترتا ہے۔ 
خواجہ آصف تنہا سیاستدان نہیں جو اپنے ووٹروں اور حمایت کرنے والوں سے یہ رویہ اختیار کرتے ہیں، بلکہ ملک بھر میں عام لوگوں سے مل کر یہی معلوم ہوتا ہے کہ بیشتر 'منتخب‘ ہو جانے والوں کا رویہ عام لوگوں کے ساتھ جارحانہ اور اخلاق سے عاری ہو جاتا ہے۔ چونکہ ملک کے زیادہ تر منتخب لوگوں کا تعلق اب تک مسلم لیگ ن سے ہے اس لیے سب سے زیادہ شکایات بھی اسی جماعت کے جیّد اراکین کے بارے میں سننے میں آتی ہیں۔ خانقاہ ڈوگراں کے لوگوں نے بتایا کہ وہ خصوصی طور پر ایک تقریب میں شرکت کے لیے اس لیے گئے کہ انہیں پتا چلا تھا کہ ان کے ووٹوں سے اسمبلی میں بیٹھے محترم برجیس طاہر صاحب سے ملاقات کا شرف حاصل ہو جائے گا۔ تقریب میں موقع پا کر حلقے کے لوگوں نے اپنے مسائل بیان کیے تو جناب ایم این اے صاحب نے بھری تقریب میں اپنے حلقے کے معتبر لوگوں کو اس بات پر ڈانٹ دیا کہ انہیں موقع محل دیکھ کر بات کرنے کی تمیز نہیں۔ بد تمیزی کا الزام لیے خانقاہ ڈوگراں والے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ اگرچہ خانقاہ ڈوگراں اب ان کے حلقے میں نہیں ہے لیکن پھر بھی اس قصبے والے مصلّے ڈالے برجیس طاہر کے سیاسی انجام کے انتظار میں ہیں ۔ طلال چودھری کے بارے میں پتا چلا کہ آنجناب اپنے حلقے جڑانوالہ میں جب بھی جاتے ہیں تو چند ایک مخصوص لوگوں کے سوا کسی کو بارگاہ میں آنے کی اجازت ہی نہیں۔ اپنی جمہوری خدمات کے زعم میں انہوں نے جڑانوالہ میں نواز شریف کا جلسہ رکھا تو پتا چلا کہ چھوٹے سے میدان میں لگائی گئی کرسیوں سے آدھے آدمی بھی پنڈال میں آنے کو تیار نہیں۔ جلسے کی ناکامی نظر آنے لگی تو رانا ثناء اللہ بروئے کار آئے اور فیصل آباد سے لوگوں کو بسوں میں بھر کر جڑانوالہ لے جا کر جلسے کو اپنے راہنماؤں کے شایانِ شان بنایا۔ ادھار کے اس اجتماع میں بھی طلال چودھری نے ایسی تقریر فرما دی جس کا جواب اب انہیں عدالت میں دینا پڑ رہا ہے۔ 
مسلم لیگ ن کے اراکین اسمبلی پر ہی موقوف نہیں، پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کے منتخب اراکین اسمبلی کی اکثریت بھی ووٹ پر تو اپنا حق سمجھتی ہے مگر ووٹر کو دھتکارنے میں ایک لمحے کا بھی تامل نہیں کرتی۔ یہ لوگ جو الیکشن کے دنوں میں عوام کے ہر درد کا مداوا کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں ، جیتنے کے بعد اپنے مسلح محافظوں کے حصار سے باہر نکلنا گوارا نہیں کرتے۔ ہر وہ شخص جو ایک بار منتخب ہو کر اسمبلی میں پہنچ جاتا ہے، اپنے حلقے کو رجواڑا اور عوام کو رعایا سمجھنے لگتا ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ہمارے طریقۂ انتخاب میں چونکہ بے پناہ پیسہ ایک بنیادی شرط بن چکا ہے اس لیے ہر حلقے میں کسی بھی پارٹی کے پاس سوائے چند گنے چنے خاندانوں کے کوئی امیدوار موجود نہیں۔ جن امیدواروں کے پاس اپنا پیسہ نہیں تو وہ کسی نہ کسی ایسے نیٹ ورک کا حصہ ہوتے ہیں جو انہیں انتخابی مہم چلانے کے لیے پیسے فراہم کر دیتا ہے۔ جب معیارِ انتخاب صرف پیسہ اور جیتنے کی صلاحیت بن جائے تو پھر عوام کا ووٹ محض ایک جنس (commodity) ہو جاتا ہے اور اسی لیے جب یہ لوگ جیت جاتے ہیں تو ووٹ کی عزت کرتے ہیں نہ ووٹر کا احترام۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں