"HAC" (space) message & send to 7575

دو بے وقوف

مسلم لیگ (ن) ضلع ملتان کے صدر بلال بٹ کی حیثیت شہر میں قابل دید مقامات جیسی ہے۔ جو ملتان گیا اور بلال بٹ سے نہیں ملا اس نے گویا آدھا ملتان دیکھا۔ متوسط طبقے کی آبادی میں اوسط درجے کا مکان مگر دل اتنا بڑا کہ بڑے بڑے محلات اس میں سما جائیں۔ پچھلی بار ملتان جانا ہوا تو میں ان کے گھر جا پہنچا۔ باتوں باتوں میں پوچھا کہ آئندہ الیکشن کس حلقے سے لڑنے کا ارادہ ہے ؟ اس سوال کے جواب میں اتنا بلند بانگ قہقہہ لگایا کہ در و دیوار لرزنے لگے۔ جب قہقہہ ہنسی سے ہوتے ہوئے مسکراہٹ میں ڈھلا اور کمرے کی فضا میں کچھ سکون ہوا تو انہوں نے ملتان شہر کے ایک صوبائی حلقے کا نمبر بتا کر کہا، ''اس حلقے سے میں گزشتہ تیس سال سے ٹکٹ کا طلب گار ہوں‘‘۔ میں نے حیرت سے پوچھا کہ یہاں سے تو مسلم لیگ ن کا امیدوار ہار جاتا ہے تو یہاں سے ٹکٹ لینے کا فائدہ؟ بلال بٹ نے بتایا کہ اس کے باوجود انہیں یہاں سے ٹکٹ نہیں ملتا۔ میں نے تفصیل چاہی تو ایک دم سنجیدہ ہو کر کہا، ''یہاں سے میاں صاحبان کو ہمیشہ مجھ سے بہتر کوئی اور مل جاتا ہے اس لیے میں نظر انداز ہو جاتا ہوں‘‘۔ اس بار کی صورت حال پوچھی تو کہا ''امید قائم ہے، ٹکٹ کے لیے درخواست دے رکھی ہے، جب بلاوا آئے گا تو لاہور جا کر اپنا کیس لڑوں گا‘‘۔ کارکنوں کے ٹکٹوں سے مجھے ہمیشہ دلچسپی رہتی ہے اس لیے میں نے بلال بٹ کی لاہور طلبی اور مسلم لیگ ن کے پارلیمانی بورڈ کے سامنے پیشی کے بارے میں خبر رکھی۔ جس شام وہ لاہور سے واپس ملتان پہنچے تو مجھے معلوم ہو چکا تھا کہ بلال بٹ کو آٹھویں بار بھی ٹکٹ نہیں ملا۔ تیس سال کی ریاضت کے بعد بھی ان کی پارٹی کو یہ گوارا نہ تھا کہ وہ صوبائی اسمبلی کا الیکشن ہی لڑ سکیں۔ خبر معلوم ہونے کے باوجود میری ہمت نہیں پڑی کہ انہیں فون کر کے ٹکٹ نہ ملنے کا احوال پوچھوں۔ اگلے دن سحری سے کچھ پہلے بلال بٹ کا فون آیا۔ میں نے فون اٹھایا تو کچھ کہنے سے پہلے ایک فلک شگاف قہقہہ لگایا اور پھر کہا، ''استاد، اکتیسویں سال بھی ٹکٹ نہیں ملے گا، اپنا ریکارڈ بالکل صاف ہے البتہ زندگی رہی تو آئندہ الیکشن میں پھر درخواست دوں گا‘‘۔ ہم دونوں میں اسی طرح کے چند جملوں کا تبادلہ ہوا اور فون بند ہو گیا۔ میں دل ہی دل میں بلال بٹ کی ہمت کو داد دیتا رہا کہ اس شخص کو معلوم ہے کہ اسے زندگی میں کبھی مسلم لیگ ن ٹکٹ نہیں دے گی مگر پھر بھی اپنی جماعت کے لیے چودھویں دفعہ جیل جانے کے لیے تیار ہے۔ وہ اپنی جماعت کے ٹکٹ کے لیے ہمیشہ نا اہل رہے گا‘ مگر سمجھے گا نہیں کہ آخر اس نا اہلی کی وجہ کیا ہے؟
بلال بٹ کی ''نا اہلی‘‘ کی تین بنیادی وجوہات ہیں۔ اوّل یہ کہ وہ ایک غریب آدمی ہے جس کی گزر اوقات خالصتاً اپنی وکالت کی کمائی پر ہے۔ جب اس کے گھر بجلی کا بل آتا ہے تو اس کی جان شکنجے میں آ جاتی ہے۔ اس کا اوسط درجے کا مکان بڑے بڑے لیڈروں کی میزبانی کا بوجھ اٹھانے سے قاصر ہے۔ دوسری وجہ یہ کہ بٹ صاحب اپنی جماعت کو ایک جمہوری جماعت سمجھتے ہیں اس لیے وقتاً فوقتاً اپنی قیادت کے فیصلوں کو زیر بحث لے آتے ہیں۔ اتنا عرصہ سیاست میں گزارنے کے باوجود انہیں یہ معلوم نہیں ہوا کہ پاکستان کی سیاسی پارٹیوں میں جمہوریت سخت نا پسندیدہ نظام ہے، اگر آپ قیادت کے اشارۂ ابرو پر رقص نہیں کر سکتے تو پھر آپ اس پارٹی میں رہ تو سکتے ہیں، ٹکٹ کے اہل نہیں قرار پا سکتے۔ تیسرا سبب یہ کہ بلا ل بٹ ایک وضع دار آدمی ہے۔ جس سے ایک بار وفاداری کا پیمان باندھ لیا پھر زندگی بھر باندھے رکھا۔ مسلم لیگ (ن) کے لیے جیل جانا اور مسلسل جاتے رہنا، پیشکش کے باوجود مسلم لیگ ق میں نہ جانا' ایسی حرکتیں ہیں جس کے بعد اس جماعت میں انہیں ایسا شخص سمجھا جانے لگا ہے‘ جو اپنے نظریات کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس پارٹی میں ہے اور کسی دوسری جگہ جا ہی نہیں سکتا، لہٰذا ایسا شخص ٹکٹ کے لیے نا اہل قرار پاتا ہے۔ پارٹی میں وہی معزز ہے جو مشاہد حسین ، زاہد حامد اور دانیال عزیز وغیرہ کی طرح مشکل حالات میں پارٹی چھوڑ دے اور مناسب وقت پر دوبارہ آ جائے۔ چونکہ بلال بٹ نے یہ سب کچھ نہیں کیا اس لیے اسے ٹکٹ ملنا ممکن نہیں۔ صرف امید کی یہ ہلکی سی کرن باقی ہے کہ اس وقت مسلم لیگ ن مشکل میں ہے، اس مشکل میں قربانی کے لیے بلال بٹ ایک صحت مند بکرا ہے۔ 
مسلم لیگ ن کے بلال بٹ کی طرح کا ایک پاگل سیالکوٹ میں عمر فاروق مائر بھی ہے‘ جو تحریک انصاف کے لیے اپنا سب کچھ تباہ کر رہا ہے۔ یہ آج سے تیرہ برس پہلے تعلیم مکمل کر کے تحریک انصاف میں اس وقت شامل ہوا جب سیالکوٹ میں اس کے دفاتر پر تالے پڑ چکے تھے۔ اس نے عمران خان کے تبدیلی کے نعرے پر یقین کیا اور تن من دھن سے اپنی جماعت کے لیے کام کرنے لگا۔ ایک مناسب سے خوشحال کاروباری خاندان سے تعلق رکھنے والا یہ نوجوان تحریک انصاف کے ممبرشپ فارم کی کاپی پکڑ کرگاؤں گاؤں گھومتا رہا تاکہ لوگوں کو کپتان کی ٹیم میں شامل کر سکے۔ شہر میں اپنے والد کے نام پر اس نے اہم کاروباری اور سیاسی لوگوں سے رابطے بڑھائے اور ایک ایک کر کے انہیں پارٹی میں لاتا رہا۔ یہ اکیلا اپنے وسائل سے عمران خان کے جلسے کراتا رہا اور ایک لمحے کے لیے بھی کمزور نہیں پڑا۔ دو ہزار بارہ میں سیالکوٹ کے جلسے میں عمران خان نے خود کہا ''جب عمر فاروق مائر تحریک انصاف میں آیا تو بچہ تھا‘ آج اس کے بھی بال سفید ہو رہے ہیں اور اسی کی محنت کی وجہ سے اب ہم یہاں سے الیکشن لڑنے کے قابل ہو رہے ہیں‘‘۔ عمر فاروق مائر دو ہزار تیرہ میں تحریک انصاف کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کے ایک حلقے سے الیکشن لڑا اور اڑتیس ہزار ووٹ لے کر ہار گیا۔ پانچ سال مزید محنت کی، پارٹی کو مضبوط تر بنایا اور اب جب پارٹی کے اقتدار میں آنے کی کوئی امید بندھی تو ٹکٹ کے لیے اس کی درخواست مسترد کر دی گئی۔ وجوہات وہی جو ایسے لوگوں کی راہ کی رکاوٹ ہیں۔ زیادہ پیسے والا ایک شخص پارٹی کی نظر میں معتبر ٹھہرا جو کسی پس منظر کا حامل تو نہیں البتہ اپنی دولت کے زور پر پیش منظر تبدیل کر سکتا ہے۔ 
بلال بٹ، عمر فاروق مائر محض دو مثالیں ہیں ۔ میں آپ کو ایسے کارکنوں کی درجنو ں مثالیں پیش کر سکتا ہوں جنہوں نے اپنی اپنی پارٹیوں کے لیے زندگیاں برباد کر ڈالیں، جیلوں میں گئے، کاروبار تباہ کیے مگر ان کی یہ قربانیاں روند ڈالی گئیں۔ الیکشن میں ٹکٹ ملنا تو دور کی بات قوم کی محبت میں دبلے ہونے والے رہبروں نے پلٹ کر ان کا حال بھی کبھی نہیں پوچھا۔ ایسے کسی شخص کو کبھی عزت مل گئی تو اس کو واپس اپنی اوقات میں لانے کے لیے پارٹیوں نے فوری طور پر ان سے جان چھڑانے کا بندوبست کر لیا۔ ان لا علاج نظریاتی لوگوں کے مسائل ایک جیسے ہی ہیں۔ ان میں سے ہر ایک اپنے نظریات کے لیے سب کچھ لٹانے کا حوصلہ رکھتا ہے، غلط بات کو غلط کہہ سکتا ہے چاہے وہ کسی نے ہی کہی ہو، ان میں سے کوئی بھی اتنا امیر نہیں کہ قیادت کی خدمت کے لیے جہاز خرید سکے یا قیمتی تحائف کا نذرانہ پیش کرتا رہے۔ ایسے لوگوں کا بس اتنا فائدہ ہے کہ جلسوں کی رونق دوبالا کریں، مشکل وقت میں جیل میں جائیں اور جب ان کے گھر بجلی کا بل آئے تو ان کی جان شکنجے میں آ جائے۔ ایسے لوگ اسمبلیوں میں آ گئے تو وہی کہیں گے جو ان کے دل میں ہو گا، بِک جانے پر مر جانے کو ترجیح دیں گے، وہ کریں گے جسے عوام کے لیے مفید سمجھیں گے۔ ان بے وقوفوں کی کسی پارٹی میں کوئی جگہ ہے نہ اسمبلی میں۔

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں