تحریک انصاف کے اندر اب یہ بات کھل کر ہونے لگی ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی بے پناہ حمایت کے باوجود عثمان بزدار پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ نہیں چلا پارہے۔ انہوںنے صوبے میں طاقت کا جو خلا پیدا کیا ہے اسے پُر کرنے کی کوششوں میں معاملات بگڑتے چلے جارہے ہیں ۔ایک طرف گورنر چودھری محمد سرور ہیں جو وزیراعلیٰ کا مذاق اڑانے والوں کو والہانہ انداز میں مل رہے ہیں ‘تو دوسری طرف سپیکر چودھری پرویز الٰہی ہیں ‘جو اس وقت تک تحریک انصاف کے اٹھائیس ارکانِ پنجاب اسمبلی کو گود لے چکے ہیں۔ ان کا سیاسی کمال ہے کہ خود عثمان بزدار بھی گورنر پنجاب کو اپنا مخالف اور چودھری پرویز الٰہی کو مہربان گردانتے ہیں۔ بطور ِسپیکر صوبائی اسمبلی اگر تحریک انصاف کا کوئی رکن یا وزیر انہیں کوئی مشورہ دینا چاہے‘ تو چودھری پرویز الٰہی انتہائی خشک انداز میں اسے کام سے کام رکھنے کا کہتے ہیں‘ لیکن حکومت میں ان کی مداخلت اتنی بڑھی ہوئی ہے کہ تحریک انصاف کے کچھ لوگ تو کھل کرکہنے لگے ہیں کہ پنجاب میں تحریکِ انصاف کے نام پر مسلم لیگ ق کی حکومت چل رہی ہے۔تحریک انصاف کے اصلی کارکنوں کی بے بسی کا عالم یہ ہے کہ ملتان کی ضلعی صدر قربان فاطمہ اپنے کارکنوں کے مسائل لے کر وزیرصحت یاسمین راشد سے ملیں توان کے نامناسب رویے پر روتے ہوئے ان کے دفتر سے نکل آئیں۔ کسی نے اپنے علاقے کے سکول کے بارے میں وزیرتعلیم مراد راس سے بات کرنا چاہی تونامراد لوٹا۔ جہاں تک عثمان بزدار کا تعلق ہے‘ تو تحریک انصاف کے کارکن انہیں اپنا سمجھتے ہیں اور نہ عثمان بزدار انہیں کوئی وزن دینے کے لیے تیار ہیں۔
تحریک انصاف کے کارکنوں کو اگر کوئی عزت ملتی ہے تو وہ گورنر ہاؤس ہے ‘جہاں کوئی ان کی بات بھی سن لیتا ہے اور چائے پلا کر رخصت کردیتا ہے۔ ظاہر ہے جس صوبے میں حکومت پہلے دو مہینوں میں ہی اپنی بقا کے راستے ڈھونڈنے لگے وہاں ڈھنگ سے کام تو کیا سرے سے کام ہی نہیں ہوسکتا۔ اس لیے جو منصوبہ جہاں تھا وہیں رک گیا ہے۔ بجلی کے جو منصوبے شہباز شریف نے شروع کیے تھے اور ان پر اربوں روپے خرچ بھی ہوچکے ہیں‘ مزید سرمایہ میسر نہ ہونے کے وجہ سے رکے پڑے ہیں۔رہی سہی کسر نیب اور عدلیہ کے تحرک نے پوری کردی ہے کہ سرکاری افسر ہر فائل پر ''کابینہ کی منظوری درکار ہے‘‘ لکھ کرآگے بھیج دیتے ہیں یا کسی دوسرے قاعدے ضابطے کے تحت ذمہ داری نہ لینے کا بہانہ تراش لیتے ہیں۔ خاص طور پر وہ فائل جس میں کسی چیز کی خریداری یا کسی کو ادائیگی کا معاملہ ہو‘ کسی صورت میں آگے نہیں بڑھتی۔ وجہ یہ ہے کہ قواعد و ضوابط کے مطابق سرکاری افسر ہی کسی سرکاری چیک پر دستخط کرنے کا مجاز ہے‘ اپنے سے پہلے والوں کو نیب کے ہاتھوں خوار ہوتے ہوئے دیکھ کر اب کسی کی ہمت نہیں کہ وہ سوائے تنخواہوں کے کسی اور چیک پر دستخط کرسکے۔ٹھیکیدار کوئی ٹھیکہ لینے کے لیے اس لیے تیار نہیں کہ کام لینے کے لیے سینکڑوں کاغذات تیار کرنے پڑتے ہیں‘ ان میں سے کسی ایک کاغذ پر کوئی غلطی ہوئی گئی تو نیب جان کو آجائے گا اور پھر جو ذلت اس کے مقدر میں لکھی جائے گی وہ اس کے خاندان کو بھی برباد کرڈالے گی۔ وہ حکومت جو کرپشن روکنے کے لیے آئی تھی‘ وہ کام روک کرسمجھتی ہے کہ اس نے بدعنوانی پر قابو پالیا ہے۔ اس سے بھی بڑی مصیبت یہ ہے کہ اپنی اس بے وقوفی پر ناز بھی کرتی ہے اور کچھ سمجھنے کے لیے تیار بھی نہیں۔
ایک پنجاب پر ہی موقوف نہیں‘ صوبہ خیبر پختونخوا میں بھی تحریک انصاف کے وزیراعلیٰ کو ان کی اپنی جماعت لوگ ''پیار‘‘ سے عثمان بزدار کہتے ہیں۔ وہاں پر بھی عمران خان کو بار بار بتانا پڑتا ہے کہ وزیراعلیٰ کا نام محمود خان ہے۔ محمود خان قابلیت میں عثمان بزدار سے بھی دو ہاتھ آگے نکلتے ہیں‘ لیکن وہاں پنجاب جتنی افرا تفری اس لیے نہیں پھیلی کہ گزشتہ پانچ سالہ دورِ حکومت کے دوران عمران خان نے واٹس ایپ گروپ بنا کر حکومت چلانے کا تجربہ کررکھا ہے۔ اس لیے محمود خان جیساکچھ نہ کر سکنے والا وزیراعلیٰ بھی وہاں زیادہ نقصان نہیں کرپارہا ہے‘ کہ عمران خان کی براہِ راست نگرانی کا ایک مؤثر نظام موجود ہے؛ البتہ علی امین گنڈا پور کی شہ پر کبھی کبھار صوبے کے جنوب سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی شور مچاتے ہیں جو وزیراعظم کی مداخلت پر خاموش بھی ہوجاتے ہیں۔ یہاں اگرچہ حکومت بنانے کے لیے تحریک انصاف کو کسی اتحادی کی ضرورت نہیں پڑی ‘لیکن اس کی اپنی صفوں میں موجود پرویز خٹک وہی کچھ کررہے ہیں جو چودھری پرویز الٰہی نسبتاََ مختلف انداز میں پنجاب میں کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ پرویز خٹک کا خیال ہے کہ آئندہ سال جب سابقہ فاٹا کے علاقوں میں صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر الیکشن ہوگا تو وہ صوبے میں وزارت اعلیٰ کی کرسی پر خود نہ بھی بیٹھ سکے تو اپنے بندے کو بٹھادیں گے۔ اس وقت وہ اپنے پتے سینے کے ساتھ لگا کر خاموشی سے صوبائی حکومت کے لیے کوئی نہ کوئی الجھن کھڑی کرکے ایک طرف ہوجاتے ہیں‘ اور محمود خان لاچار ہوکر بنی گالا چل پڑتے ہیں۔ ظاہر ہے اس صورتحال میں یہاں بھی کام وام بند ہیں ‘ کاروبارِ سیاست خوب چل رہا ہے۔
وفاق میں معاملات کی ظاہری شکل پنجاب اور خیبرپختونخوا سے بہتر ہے کہ یہاں وزارت عظمٰی کا کوئی دوسرا طلبگار میدان میں نہیں ہے ‘ لیکن عملاً حکومت کا ہاتھ باگ پر ہے نہ پاؤں رکاب میں۔ بڑے بڑے معاملات تو ایک طرف اسلام آباد کے مسائل ہی حکومت سے حل نہیں ہوپارہے۔اس حکومت کی جملہ صلاحیتوں کو چیف جسٹس نے بنی گالہ تعمیرات کیس کی سماعت کرتے ہوئے ایک فقرے میں بیان کردیا ہے کہ ''حکومت کے پاس اہلیت ہے‘ نہ صلاحیت ہے ‘ نہ منصوبہ ‘‘۔ نامناسب رویے‘ کام کو نہ سمجھنا اور نعرے بازی آج کل دارالحکومت کی پسندیدہ صلاحیتیں ہیں۔ وہ افسر جو کام کرنا چاہتے ہیں وزیروں کی نالائقی سے تنگ ہیں اور جو وزیر کچھ کرنا چاہتے ہیں وہ بیوروکریسی کے ہاتھوں عاجز آچکے ہیں۔چند ایک کو چھوڑ کر تحریک انصاف کے سارے وزرا اتنے فارغ ہیں کہ لایعنی تقریبوں میں شرکت کے دعوت نامے ڈھونڈتے رہتے ہیں ‘ ٹی وی پروگراموں میں بلاوے کاانتظار کرتے ہیں رہتے ہیں اور کچھ بھی نہ ہو تو خود ''پارٹی‘‘ برپا کرلیتے ہیں۔ اراکین اسمبلی کا حال یہ ہے کہ اپنے حلقے سرے سے جاتے ہی نہیں کہ ووٹر کام کہیں گے اور وہ ان سے ہوگا نہیں۔ اس لیے ہفتہ اور اتوار کے دن جو ہر سیاستدان اپنے حلقے میں گزارتا ہے‘ تحریک انصاف کے لوگ اسلام آباد میں ہی نیا پاکستان بناتے رہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دارالحکومت میں وزیراعظم عمران خان‘ وزیرخزانہ اسد عمر(کچھ ملامت کے بعد) ‘ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی اور مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر کے علاوہ کسی کے پاس کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جس سے پوچھو وہ ایک ناممکن منصوبے کی پریزنٹیشن اپنے موبائل پر دکھائے گا اور دعویٰ کرے گا کہ وزیراعظم اس کی منظوری دے چکے ہیں۔ کچھ کہنے کی کوشش کرو تو ہمیشہ ایک ہی جواب ملے گا ‘ ''ستر سالوں کا گند سو دنوں میں صاف نہیں ہوسکتا ‘‘۔
نااہلی‘ نالائقی کے عملی مظاہروں کے ساتھ ساتھ بزعمِ خود عقلِ کُل ہو جانا تباہی کا وہ نسخہ ہے جس کی تاثیر کی گواہی تاریخ دیتی ہے۔گزشتہ ڈھائی ماہ سے اس نسخے کی تاثیر ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ یہ ہے نیا پاکستان!
مزے کی بات یہ ہے کہ جس سے پوچھو‘ وہ ایک ناممکن منصوبے کی پریزنٹیشن اپنے موبائل پر دکھائے گا اور دعویٰ کرے گا کہ وزیراعظم عمران خان صاحب اس کی منظوری دے چکے ہیں۔ کچھ کہنے کی کوشش کرو تو ہمیشہ ایک ہی جواب ملے گا :''ستر سالوں کا گند سو دنوں میں صاف نہیں ہوسکتا ‘‘۔