پنجاب حکومت کے سو دن مکمل ہونے پر لاہور کے ایوانِ اقبال میںہونے والی تقریب میں مجھے جو نشست ملی اس کے سامنے میز پر دو کتابچے رکھے تھے۔ ایک وزیراعظم عمران خان کی دی ہوئی پالیسی کے مطابق پنجاب حکومت کے اقدامات کے بارے میں تھا ‘ جبکہ دوسرا پنجاب میںبننے والی نئی صنعتی پالیسی کے خدوخال بتا رہا تھا۔ ابھی تقریب کے مہمان خصوصی‘ یعنی وزیراعظم عمران خان نہیں پہنچے تھے‘ اس لیے میں نے اپنی دلچسپی کے مطابق صنعتی پالیسی پڑھنا شروع کردی۔ خیال تھا کہ اس میں عمومی سی باتیں اور حکومت کے دعوے ہوں گے ‘ مگر وقت گزارنے کے لیے اسے دیکھ لینے میں کوئی حرج نہیں۔ جیسے ہی میں نے اس کا پہلا صفحہ پڑھا ‘ پھر پڑھتا ہی چلا گیا۔ یہ بے دلی سی لکھی ہوئی کوئی عام سرکاری دستاویز نہیں تھی۔ چھوٹی صنعتوں کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اس پالیسی میں وہ سب کچھ تھا ‘جو آج کے ترقی یافتہ ملکوں میں رائج ہے۔ چھوٹے صنعتکار کی تربیت سے لے کر اسے دنیا کا مقابلہ کرنے کے لیے قرضوں اور دیگر سہولیات کی فراہمی کے طریقۂ کار تک‘ سب کچھ اس میں لکھا ہوا تھا۔ میں اس کے آخری صفحے پر تھا کہ کسی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو پنجاب کے وزیر صنعت و تجارت میاں اسلم اقبال کھڑے تھے۔ انہوں نے میرے ہاتھ میں پکڑی اپنے محکمے کی پالیسی دیکھی تو پوچھا کیا خیال ہے اس کے بارے میں؟ میرا جواب تھا '' اگر اس پالیسی پر پچاس فیصد بھی عمل درآمد ہوجاتا ہے‘ تو اگلے پانچ سال میں پنجاب اور پاکستان جست لگا کربہت سے ملکوں کو پیچھے چھوڑ دیں گے اور دوسرا یہ کہ ایسا لگ رہا ہے۔ سوائے‘ صنعت و تجارت کے کوئی اور محکمہ پنجاب میں کام نہیں کررہا؛ اگر کررہا ہوتا تو اس کی بنی ہوئی کوئی پالیسی بھی یہاں پڑی ہوتی‘‘۔ جواباً انہوں نے میز پر پڑی دوسری کتاب اٹھا کر میرے ہاتھ میں دی اور کہا ''یہ بھی پڑھ لیں آپ کو پتا چل جائے گا کہ ہم کیا کررہے ہیں‘‘۔ میں نے ان کا مشورہ مانا ور دوسرا کتابچہ بھی پڑھنا شروع کردیا۔ اس میں پنجاب کے دیگر محکموں کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ وہ گزشتہ سو دنوں میں کیا کررہے ہیں۔ اس کتابچے کا لب لباب یہ تھا کہ دیگر تمام وزیر اور ان کے محکمے سوائے سوچنے کے کچھ نہیں کررہے۔
میں دونوں کتابچے پڑ ھ چکا تو اعلان ہوا کہ وزیراعظم عمران خان آ رہے ہیں ۔ میں نے دیکھا کہ وزیراعظم کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار بھی ہال میں داخل ہورہے ہیں۔ انہیں دیکھ کر ایوان اقبال کی گیلری سے نعرے بلند ہونے لگے۔ اس دن کا پسندیدہ نعرہ تھا ''پیار ہے پاکستان سے ‘عمران سے ‘عثمان سے‘‘۔ یہ نعرہ سن کر جہانگیر ترین اور گورنرپنجاب چودھری محمد سرور سمیت تحریک انصاف کے بہت سے لوگ زیرلب مسکرا رہے تھے‘ لیکن یہ نعرے ثابت کررہے تھے کہ پنجاب میں تحریک انصاف کی نئی حقیقت عثمان بزدار ہے۔ سرائیکی آہنگ میں لگنے والے ان نعروں سے یہ پتا چل رہا تھا کہ وسطی پنجاب میں سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لیے نا صرف عثمان بزدار نے خاموشی سے جنوبی پنجاب کا کارڈ کھیل دیا ہے‘ بلکہ پورا وزیراعلیٰ بننے کا فیصلہ بھی کرلیا ہے۔ اس تاثر کو یوں بھی تقویت ملی کہ جو دستاویزی فلم پنجاب کے سو دنوں کے حوالے سے دکھائی گئی ‘ اس میں عمرا ن خان کے سوا اگر کوئی نمایاں تھا تو وہ عثمان خان بزدار تھے‘ پھر وہ تقریر کے لیے اٹھے اور لکھی ہوئی تقریر پڑھتے ہوئے بھی ان کی خوداعتمادی بتا رہی تھی کہ انہیں نرم چارہ سمجھنے والے شدید غلطی کررہے ہیں۔ یہ کسی ماتحت کی خوشامدی تقریر نہیں تھی ‘بلکہ ایک ذمہ دار حکمران کی اپنے لیڈر کو پیش کی جانے والی رپورٹ تھی۔ اس میں تقریر نویس کی خوبی کتنی ہے اور عثمان بزدار کی فہم کتنی‘ اس کا حتمی فیصلہ کچھ وقت گزرنے کے بعد ہی ممکن ہو گا۔
عثمان بزدار کی تقریرمیں ان کاموں کا ذکر تھا‘ جنہیں وہ پنجاب میں شروع کرچکے تھے یا شروع کرنے والے تھے۔ ان کے بعد عمران خان آئے تو انہوں نے جنوبی پنجاب سے ہونے والی ناانصافیوں سے بات شروع کی اور اپنے پسندیدہ موضوع یعنی احتساب پر آگئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ''تحریک انصاف ہر بات پر سمجھوتہ کرسکتی ہے سوائے‘ احتساب کے‘احتساب ہوگا اور ہر صورت ہوگا‘‘۔ بجائے پنجاب میں ترقی کی راہیں کھولنے کے‘ اجڑے ہوئے بازاروں کی رونقیں بحال کرنے کے یا جمود کی شکار معیشت کو چلانے کے وہ احتساب احتساب پکاررہے تھے‘ جس کی حقیقت ہرکسی پر کھل چکی ہے۔ یوں لگ رہا تھا‘ جیسے وزیراعظم کو یہ اطمینان ہے کہ وہ پاکستان میں باقی تمام مسائل حل کرچکے ہیں ۔اب صرف مخالفین کا احتساب باقی ہے‘ جسے مکمل کرنے کے بعددنیا بھر کے راوی پاکستان میں چین ہی چین لکھیں گے۔
احتساب کسی بھی ملک کی گورننس کا ایک مؤثر جزو ہوتا ہے‘ کُل نہیں۔ اگر اسے ایک جزو سے بڑھا کر کسی پالیسی کا بنیادی پتھر بنا لیا جائے تو پھر اچھی گورننس تو کیا سرے سے گورننس ممکن ہی نہیں ہوتی۔حکومت کی غیر معمولی سیاسی حمایت کی وجہ سے ہمارے ہاںاحتساب کا جنون اتنا بڑھ گیا ہے کہ اب اس کے نام پر انصاف کے تقاضے بھی پامال ہوتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ غلطی ‘ کوتاہی‘ تاخیر‘ لغزش جیسے الفاظ پاکستان کی سرکاری کتابوں سے خارج ہوچکے ہیں اوراب ان کی جگہ بدعنوانی ‘ سازش اور جرم ہی رائج ہیں۔نتیجہ یہ کہ کام چور ایمانداروں کا ایک ہجوم ہے جو سرکاری دفتروں میں عوام کی درگت بنا رہا ہے؛ چونکہ کام نہ کرنا احتساب کی زد میں نہیں آتا‘ اس لیے اسلام آباد اور صوبائی دارالحکومتوں میں صرف اسی کے سر پر دستار باقی ہے جو ہڈحرامی کی زندگی گزار رہا ہے‘ کیونکہ کچھ کرے گا تو غلطی‘ کوتاہی ‘ تاخیر یا لغزش بھی ہوگی اور جیسے ہی ان میں سے کسی ایک ''جرم‘‘ کا ارتکاب ہوا نیب حکومتی امداد کے ساتھ اس کی زندگی اجیرن کردے گا۔ حالت یہ ہے کہ نیب نے بڑے بڑے لوگوں کو جن کیسز میں ملوث پایا ہے ان میں سے ایک مالم جبہ(سوات) کی زمین کی لیز کا معاملہ ہے‘ جو محض منصوبہ سازی میں ہی غتر بود ہوگیااورسرکار کا کوئی پیسہ ضائع نہیں ہوا‘ مگر وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان ‘ پرویز خٹک اور وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری سے بے معنی سی تفتیش جاری ہے۔ اسی طرح پنجاب میں آشیانہ سکیم کا نام نہاد سکینڈل ہے‘ جس میں بات منصوبہ بندی سے آگے بڑھ ہی نہیں سکی‘ لیکن اس 'جرم‘ میں سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف سمیت کئی لوگ جیل میں ہیں۔ اس لایعنی احتساب کی بجائے بامعنی احتساب کی بات کرکے ملک کو اس مصیبت سے نکالیں گے‘ مگر جہاں وہ خود ہی اس اچھل کود کو احتساب سمجھ رہے ہوں تو سوائے ماتم کے کیا کیا جائے۔احتساب اب ایک ایسا لطیفہ ہے کہ اگر کوئی یہ درخواست لے کر پہنچ جائے کہ پنجاب میں سرکاری پیسوں سے بننے والی دستاویزی فلم میں عمران خان اور عثمان بزدار کو اپنے عہدوں کا حلف اٹھاتے ہوئے دکھایا گیا ہے‘ جبکہ ایک عدالتی فیصلے کے مطابق سیاسی رہنماؤں کی تصویر کے ساتھ کوئی تشہیر نہیں ہوسکتی تو عین ممکن ہے نیب کے تیس مارخان اس بیہودہ درخواست پر عمل کرتے ہوئے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کو برائے تفتیش طلب کرلیں۔
عمران خان کو احتساب کی جھونک میں جو بات سمجھ نہیں آرہی وہ یہ ہے کہ لوگ احتساب سے زیادہ معاش کے بارے میں فکر مند ہیں۔صنعتوں کا پہیہ رکنے کو ہے۔ ہمیں کروڑوں نوکریوں کی ضرورت ہے ‘ لاکھوں گھر بنانے ہیں اور یہ مقاصد حاصل کرنے کے لیے ملک میں ماحول بنانا ہے‘ صرف احتساب ہی نہیں کرتے رہنا۔پتا نہیں عمران خان کیوں یہ نہیں سمجھ پارہے کہ نواز شریف سے مقابلے میں احتساب کا ہتھیارکسی کام کا نہیں۔