پچیس برس کا ہوگا وہ لڑکا جو مجھے تین سال پہلے دبئی میں ایک دوست کے ہاں ملا تھا۔ گورا چٹا، ورزشی جسم، اردو ذرا لٹکے ہوئے لہجے میں بولتا تھا۔ ہر وہ لفظ جو الف، واؤ اور یے پر ختم ہوتے اس کی زبان پر آتے تو یہ تینوں حرف پوری مقدار کے ساتھ ادا ہوتے۔ میں نے پوچھا، کشمیری ہو؟ میرا سوال سن کر مسکرا دیا۔ اس نے بتایا‘ ''مقبوضہ کشمیر سے ہوں، انجینئر ہوں اور دبئی نوکری کی تلاش میں آیا ہوں‘‘۔ جب اسے پتا چلا کہ میں صحافی ہوں تو اس نے ایک فرض شناس مبلّغ کی طرح میرے سامنے کشمیر کی آزادی کا مقدمہ پیش کردیا۔ اس کا جوش و خروش دیکھ کر میں نے تو اس کا ماتھا ہی چوم لیا۔ میں نے کہا، جانِ برادر، کسی پاکستانی کو تمہیں کشمیرکی آزادی کے لیے قائل کرنے کی ضرورت نہیں، اس معاملے میں تو پورا پاکستان تمہاری پشت پر کھڑا ہے۔ میری بات سن کر اسے کچھ حوصلہ ہوا تو میں نے اس سے کہا: مجھے اپنے والدین اور سکول کالج کے دوستوں کے بارے میں بتاؤ، یہ سمجھاؤ کہ عام کشمیری وادی میں کیسے گزر بسر کرتا ہے۔ اس نے صرف یہ کہا، ''وادیٔ کشمیر ایک جیل ہے اور جیل میں رہنے کے لیے جو کچھ کرنا پڑتا ہے، ہر کشمیری وہی کرتا ہے‘‘۔ اس کے مطابق پاکستان سے کشمیریوں کی لگن کا عالم یہ ہے کہ یہاں کے ہر سیاستدان کی اچھائی برائی انہیں خوب معلوم ہے۔ یہاں کے مسائل کیا ہیں، اس بارے میں بھی وہ خوب جانتے ہیں۔ اس نے عام کشمیریوں کی اس بدگمانی کا بھی ذکرکیا جو انہیں اپنے رہنماؤں سے ہے۔ میں نے بھارتی فوج کے رویے کے بارے میں پوچھا تو اس نے طویل گفتگو میں ایک بار بھی ''بھارتی فوج‘‘ نہیں کہا بلکہ ''قابض فوج‘‘ کہتا رہا۔ میں کشمیر کے اکثر رہنماؤں سے مل چکا ہوں اور وہ اپنی گفتگو میں ہمیشہ ''بھارتی فوج‘‘ کہا کرتے تھے لیکن یہ نوجوان ''قابض فوج‘‘ کی اصطلاح استعمال کررہا تھا۔ اصطلاحوں کا یہ چونکا دینے والا فرق ہی پرانے لیڈروں اور نئے کشمیریوں میں پیدا ہو جانے والی خلیج واضح کررہا تھا۔ میں نے صرف یہ جانچنے کے لیے کہ واقعی اسے ان دونوں اصطلاحوں کا فرق معلوم ہے، اس سے ایک دو سوال کیے تواس نے میرا مقصد بھانپ لیا، بولا، ''حبیب صاحب، بھارت نے کشمیر پر قبضہ کسی جنگ کے ذریعے کیا ہے نہ کسی معاہدے کے ذریعے۔ وہ مہاراجہ ہری سنگھ کی لکھی جس دستاویز کو اپنے قبضے کے ثبوت میں پیش کرتا ہے، وہ ایک ایسے حاکم کا فرمان ہے جو یہ دستاویز لکھنے سے پہلے اپنا اقتدار کھو چکا تھا، اس لیے اس کی قانونی حیثیت کچھ بھی نہیں ہے‘‘۔ اپنی بات پر زور دیتے ہوئے بولا: اب کشمیر کا ہر شخص بھارتی فوج کو اسی طرح دیکھتا ہے۔ یہ نیا کشمیر ہے، زیادہ غصے میں ہے اور زیادہ پختہ ارادے سے لڑ رہا ہے۔
کشمیر میں تعینات بھارتی فوج کے بارے میں 'غیر قانونی قابض فوج‘ کی جو اصطلاح اس نوجوان نے تین سال پہلے مجھے بتائی تھی، آج پاکستان میں سرکاری طور پر یہی اصطلاح استعمال کی جارہی ہے۔ چند دن پہلے جب یہ اصطلاح پاکستان کے مؤقف کے طورپر سامنے آئی تو مجھے پہلی باریہ احساس ہوا کہ اسلام آباد یا راولپنڈی میں بیٹھے کسی شخص نے اپنا کام ایمانداری سے کیا ہے کیونکہ بھارت کے سامنے کھڑاہر کشمیری انہی چار لفظوں میں اپنا مقدمہ لڑ رہا ہے۔ سرکاری دفاتر اور ان میں کام کرنے والے اہلکاروں کی صلاحیت پرشدید تحفظات کے باوجود مجھے کچھ حیرت بھی ہوئی کہ اپنا کام پوری طرح سمجھنے والے کچھ لوگ ابھی سرکاری دفتروں میں باقی ہیں۔ یہاں سے ہماری وزارت خارجہ کا امتحان شروع ہوتا ہے کہ وہ نئے عنوان سے کشمیریوں کا مقدمہ کتنے مؤثر طریقے سے دنیا کے سامنے پیش کرتی ہے۔
کشمیر کا مقدمہ لڑتے ہوئے پاکستان کو چوہتر برس ہونے کو ہیں۔ آپریشن جبرالٹر اور کارگل جیسے معاملات کو نکال دیا جائے تو ہماری کارکردگی بری نہیں، لیکن یہ اپنی جگہ سچ ہے کہ اپنے مخصوص حالات کی وجہ سے ہم نے اپنی کشمیر پالیسی کا تنقیدی جائزہ کبھی نہیں لیا۔ ظاہر ہے اس پالیسی کی بنیاد تو نہیں بدلی جاسکتی، میرا مطلب اس پالیسی پر عمل درآمد اور وقتاً فوقتاً اس میں حالات کے مطابق تبدیلی سے ہے۔ اب تک ہماری پالیسی کے خدوخال بھارتی اقدامات کے ردّعمل میں ترتیب پاتے رہے ہیں۔ ازخود حالات کا نقشہ بدلنے کے لیے ہم نے کچھ سوچا بھی تو ایساکہ اب تاریخ کے وہ باب ہی بھول جانے کو دل چاہتا ہے۔ سیاسی طور پر آگے بڑھنے کے لیے ہمیں جو کچھ کرنا تھا افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے، ہم نہیں کر پائے۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ ہم نے کشمیر کو صرف سلامتی کا مسئلہ قرار دے کر سیاستدانوں کو اس سے دور رکھا۔ اس لیے اس مسئلے کے انسانی، عوامی، سماجی اور سیاسی پہلو دنیا کی نظروں سے اوجھل رہے۔ اب پانچ اگست کو یوم استحصال قرار دینے اور کچھ مختلف انداز میں بھارت کو سفارتکاری کا نشانہ بنانے کی کوششوں سے محسوس ہورہا ہے کہ تاریخ کے بند ڈبے سے باہر نکل کر کچھ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ فوج کی طرف سے سیاست دانوں کو حالات سے آگاہ رکھنے کی کوشش، وزارت خارجہ میں تمام سیاسی جماعتوں کو مدعو کیا جانا، میڈیا کے لوگوں کو کشمیر پر ریاستی پالیسی میں ضرورت کے تحت کیے جانے والے ردّ و بدل کی وجوہات سے آگاہ کرنا اور پھر حکومت کی طرف سے ایک نئے سیاسی نقشے کا اجراء، ایسے اقدامات ہیں جو یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ پاکستان یک جان ہو کر عالمی سطح پر کشمیر کا مقدمہ جارحانہ انداز میں لڑنے کا فیصلہ کر چکا ہے۔
گزشتہ سال بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی تو ایسا دکھائی دے رہا تھا کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کامیابی سے کشمیر کو بھارت میں ضم کر لیں گے۔ اس کے لیے انہوں نے بھارتی ہندوؤں کو لا کر کشمیر میں بسانے کی کوشش بھی شروع کر دی تھی‘ لیکن ان کے اس اقدام نے عالمی سطح پر کشمیر کے مسئلے کو الگ طرح سے اجاگر کر ڈالا۔ اس اقدام سے مغربی رائے عامہ کے لیے مودی، ہٹلر اور سٹالن کے درمیان مماثلت قائم کرنے میں آسانی ہو گئی۔ ہٹلر نے جرمن قوم پرستی کے نام پر دنیا کو آگ میں جھونک دیا، نریندر مودی ہندو قوم پرستی کی آڑ میں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی تباہی کے درپے ہیں۔ سٹالن نے وسطی ایشیا کی مسلم ریاستوں پر قابو پانے کے لیے لاکھوں روسیوں کو ان ریاستوں میں بسا دیا لیکن اس کا انجام کیا ہوا؟ جیسے ہی سوویت یونین کو افغانستان میں شکست ہوئی یہ ریاستیں روسی آباد کاروں سمیت الگ ہو گئیں اور آج الگ ملکوں کے طور پر پہچانی جاتی ہیں۔ مصنوعی آباد کاری روس کی طاقت بن سکی نہ ان ریاستوں کی کمزوری۔ تاریخ کی ایک ہی جست نے یہ قصہ تمام کر دیا۔ اس پس منظر میں بھارت چند لاکھ بھارتیوں کو کشمیر میں لا کر بسا بھی دے تو صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ تاریخ کا سب سے اہم سبق یہی ہے کہ علاقے پر طاقت کے زور پر تو قبضہ کیا جا سکتا ہے لیکن دل و دماغ کو زنجیریں نہیں پہنائی جا سکتیں۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ بھارت کشمیر پر قابض ہے، آفاقی سچائی یہ ہے کہ وادی کا ہر بچہ سنگ بدست قابض فوجیوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑا ہے۔ دنیا نے فوجوں کو لڑتے، شکست کھاتے اور فتح کرتے ہوئے دیکھا ہے، نہتی آبادی سے کبھی کوئی فوج نہیں جیت سکی۔ علامہ اقبال ؒ نے کشمیر کے بارے میں کہا تھا 'کہ خاکسترش آفریند شرارے‘ (اس کی راکھ سے چنگاریاں پیدا ہوں گی)، بھارت نے ان چنگاریوں کو اپنی حماقت سے الاؤ بنا ڈالا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان ٹھیک کہتے ہیں کہ بھارت نے آخری غلطی کر لی ہے۔ آج کشمیر بھارت کا جہنم بن چکا ہے جس میں اسے اس وقت تک جلنا ہے جب تک کشمیری چاہیں۔