2002 میں تحریک انصاف نے الیکشن لڑا تو صرف عمران خان ہی اپنی پارٹی کے ٹکٹ پرجیت کراسمبلی میں پہنچ سکے‘ لیکن اس جیت کی قیمت وہ بھاری قرض تھا جوانہوں نے اپنی پارٹی کو الیکشن لڑانے کیلئے اٹھایا تھا۔ اس وقت ان کے پاس قرض ادا کرنے کے پیسے تھے نہ جہانگیر ترین یا علیم خان‘ جو پارٹی پر پیسہ لگا سکتے۔ قرض خواہوں سے وعدے وعید میں ایک سال گزرچکا تھا لیکن پیسے کا بندوبست نہیں ہوپارہا تھا۔ ان حالات میں وہ اپنے بچوں سے ملنے لندن گئے۔ ایک دن انہوں نے دیکھاکہ انکی سابق بیگم جمائما گولڈ سمتھ کے تئیس برس کے بھائی بن گولڈ سمتھ (Benjamin Goldsmith) گھربیٹھے انگلینڈ اور جنوبی افریقہ کے درمیان جاری ٹیسٹ میچ بڑے انہماک سے دیکھ رہے تھے۔ وہ بار بار عمران خان سے میچ کے نتیجے کے بارے میں پوچھ رہے تھے۔ خان صاحب نے کریدا تو معلوم ہواکہ بن گولڈ سمتھ نے میچ پر شرطیں لگا رکھی ہیں اوراب تک اس ٹیسٹ سیریز میں دس ہزار پاؤنڈ ہار چکے ہیں۔ باتوں باتوں میں بن کے ساتھ ان کا معاہدہ ہوگیا کہ اگر عمران خان کے بتائے ہوئے طریقے سے وہ شرط لگائیں تو اپنے دس ہزار پاؤنڈ جیت لینے کے بعد جیتے ہوئے باقی سارے پیسے تحریک انصاف پرچڑھے قرضے اتارنے کیلئے دیں گے۔ اس معاہدے کے بعد اگلے دودن خان صاحب نے بن کے ساتھ بیٹھ کر میچ دیکھا اور ان کے مشوروں پروہ اپنے دس ہزار پاؤنڈ سمیت کافی بڑی رقم جیت گیا جو بعد میں تحریک انصاف کا مالی سہارا بنی۔ یہ رقم کتنی تھی اور یہ پاکستان کیسے پہنچی اس کے بارے میں سوائے خان صاحب اور بن کے کوئی نہیں جانتا؛ البتہ اس شرط اور بن کے ساتھ معاہدے کا ذکر خود عمران خان اپنی کتاب میں کر چکے ہیں۔ یہاں دو سوال پیدا ہوتے ہیں۔ پہلا یہ کہ عمران خان ازخود جوئے میں شریک ہونے کا اعتراف کررہے ہیں اور دوسرا یہ کہ بین گولڈسمتھ کی طرف سے تحریک انصاف کو ملنے والی رقم کی حیثیت کیا ہے۔
اگر کتاب میں لکھے ہوئے عمران خان کے اعترافی بیان کا جائزہ بھی انگریزی کی لغت اور دستور کے آرٹیکل 62 کی شق ڈی اور ای کی روشنی میں لیا جائے تو ان کی نااہلی کے امکانات پیدا ہوجاتے ہیں‘ لیکن اس مقدمے کو فی الحال چھوڑیے۔ ابھی ہم صرف یہ دیکھ لیتے ہیں کہ بن گولڈسمتھ سے ملنے والے پیسوں کی حیثیت کیا ہے۔ اگرقانون کالفظی اطلاق ہو تو تحریک انصاف کو بن گولڈسمتھ سے ملنے والا عطیہ دراصل ایک غیرملکی سے آیا تھا‘ کیونکہ عمران خان اس معاہدے کا تحریری ثبوت پیش نہیں کرسکتے۔ اس لیے بن سے ملنے والی رقم بحق سرکار ضبط ہونی چاہیے اور تحریک انصاف کوایک غیرملکی سے سیاسی عطیہ لینے کی پاداش میں نااہل قرار دے دینا چاہیے۔ ظاہر ہے اگر دوہزار اٹھارہ کے الیکشن میں سب سے زیادہ ووٹ لینے والی جماعت اس جرم کی مرتکب قرار پاتی ہے تو اس کے تمام منتخب لوگ بھی نااہل ہوجائیں گے اور پاکستان میں ایک نئے الیکشن کا ڈول ڈال دیا جائے گا۔ مختصر یہ کہ پاکستانی قانون میں یہ گنجائش بدرجہ اتم موجود ہے کہ بن گولڈسمتھ سے ملنے والے پیسے 'فارن فنڈنگ‘ قرار دے کر پوری تحریک انصاف کو بستر گول کردیا جائے۔ لیکن ٹھہریے‘ اس مقدمے میں عمران خان اگر یہ کہیں کہ پاکستان میں رائج قانون کے مطابق معاہدہ زبانی بھی ہوسکتا ہے اس لیے بن سے ملنے والی رقم ان کی اپنی کمائی تھی جو انہوں نے اپنی جماعت کو عطیہ کردی‘ تو پھر کیا ہوگا؟ ظاہر ہے واقعات کی اس تعبیر کو مان لیا جائے تو بن گولڈسمتھ سے ملنے والے پیسے فارن فنڈنگ کے زمرے میں نہیں آئیں گے اور تحریک انصاف پر پابندی کا سوال ہی نہیں اٹھے گا۔
فارن فنڈنگ کے حوالے سے ایک مقدمہ مسلم لیگ ن پر بھی بن سکتا ہے‘ سعودی عرب سے ایک عدد گاڑی بطور تحفہ وصول کرنے کا اور انتخابی مہم کیلئے سعودی ہیلی کاپٹر استعمال کرنے کا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ جب جنرل پرویز مشرف نے بے نظیر بھٹو کو این آر او دیا تھا تو محترمہ کے ساتھ ساتھ نوازشریف کی بھی پاکستان واپسی کا راستہ ہموار ہوگیا تھا۔ جب نواز شریف وطن واپس آئے تو ان سے پہلے ایک قیمتی بلٹ پروف گاڑی بھی ان کیلئے شاہی تحفے کے طور پر آئی۔ اس گاڑی کی طرح دوہزار آٹھ کی انتخابی مہم میں نواز شریف نے مبینہ طور پر سعودی ہیلی کاپٹر بھی سفر کیلئے استعمال کیا۔ اب یہ گاڑی اور ہیلی کاپٹر بھی درحقیقت سیاسی عطیہ ہیں‘ جو ایک سیاسی جماعت کو دیے گئے۔ اگر یہ عطیات بھی قانون کے ترازو میں رکھے جائیں توان کاوزن فارن فنڈنگ جتنا ہوجائے گا۔ تو کیا اب مسلم لیگ ن پر یہ کیس بھی چلانا چاہیے؟
جنرل پرویز مشرف بھی آل پاکستان مسلم لیگ کے صدر ہوا کرتے تھے۔ انہوں نے اعتراف کررکھا ہے کہ سعودی عرب کے بادشاہ سے پیسے وصول کیے۔ میری معلومات کے مطابق ان پیسوں میں سے کچھ ایک ایسے شخص کو بھیجے گئے جو ان کے اقتدار میں وفاقی وزیر بھی رہ چکا تھا۔ اس شخص کو یہ پیسے بھیجنے کا مقصد دراصل آل پاکستان مسلم لیگ کی تنظیم سازی تھا۔ اس شخص نے سیاست کی تھوڑی بہت کوشش کی لیکن جلد ہی گھر بیٹھ گیا۔ اسی طرح 1988میں ہمارے آج کے معروف تجزیہ کار مظہر عباس نے کراچی کے ایک اخبار میں اپنی خبر کے ذریعے بتایا تھا کہ لیبیا نے کس طرح پاکستان کی مذہبی سیاسی جماعتوں بالخصوص جمعیت علمائے پاکستان اور جمعیت علمائے اسلام پرمالی نوازشیں کی تھیں۔
آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ بیرون ملک سے پیسہ لے کر پاکستان میں سیاست کرنا کوئی نیا کھیل نہیں۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم جرم کو اس وقت نہیں پکڑتے جب اس کا ارتکاب ہوتا ہے۔ جرم جب چلن بن جائے تو ہمیں ہوش آتا ہے اور ہم بوکھلا کر ہاتھ پاؤں مارنے لگتے ہیں۔ ہماری تاریخ گواہ ہے کہ سیاسی استعمال کے لئے پیسہ جب پاکستان آتا ہے تو ہمارا نظام بڑی سہولت سے کبھی 'دوست ملکوں‘ کی وجہ سے آنکھیں بند کرلیتا ہے اور کبھی اس کا استعمال عین حلال قرار دے کر زبان بند کرلی جاتی ہے۔ ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ فارن فنڈنگ کوپاکستان کی ہرسیاسی جماعت نے دودھ اور شہد سمجھا۔ آج اس قسم کی فنڈنگ کے خلاف کھڑی جماعتیں دراصل اس جرم کے خلاف نہیں بلکہ تحریک انصاف کے خلاف کھڑی ہیں۔ ان میں سے کسی کی یہ ہمت نہیں کہ وہ اپنے حسابات کے بارے میں سوالوں کے مناسب جوابات ہی دے سکے۔ اس وقت چونکہ حکومت کی گردن اس شکنجے میں پھنسی ہے اس لئے انہیں جھومر ڈالنے کا موقع مل گیا ہے ورنہ سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ اپنی جیب میں پڑے پیسوں کی شناخت بھی کسی کو نہیں بتا سکتے۔ اصل معاملہ کچھ اور ہے جس پرتحریک انصاف سمیت کوئی جماعت کبھی کام نہیں کرے گی کیونکہ اس طرح سیاست میں جو بنیادی تبدیلی آئے گی اس کو برداشت کرنے کے لئے ہماری سیاسی جماعتیں تیار نہیں۔ اور وہ کام یہ ہے کہ پاکستان میں الیکشن کو سستا کیا جائے۔ اتنا سستا کہ عام آدمی بھی اس میں حصہ لے سکے۔ اس کا سادہ سا طریقہ یہ ہے کہ الیکشن کے ضوابط اس طرح کے ہوں کہ ہر حلقے میں جلسہ متعین جگہ کے علاوہ کہیں نہ ہوسکے‘ ملکی یا صوبائی سطح پر اشتہاربازی کا طے شدہ بجٹ ہزاروں میں ہو لاکھوں میں نہیں اور حلقہ جاتی اشتہارات کے لئے الیکشن کمیشن جگہوں کا تعین کرے جہاں چند سو روپے کے خرچ سے کام ہو جائے۔ اس کے بعد خفیہ ایجنسیوں کی مدد بھی لی جائے تاکہ امیدوار ووٹ خریدنے کی کوشش نہ کرے۔ اگر ایسا ہوگیا تو پھرکسی جماعت یا امیدوار کو فارن فنڈنگ تو کیا کسی بھی فنڈنگ کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اس کے بعد ترقی یافتہ ملکوں کی طرح عام آدمی بھی الیکشن لڑ کر اسمبلی پہنچ سکے گا اور سیاسی جماعتوں میں بھی جمہوریت پنپ سکے گی۔ اگرایسا نہیں ہوگا اورالیکشن لڑنا اتنا ہی مہنگا عمل ہوگا جتنا اب ہے تو پھر فارن فنڈنگ کیا ہر طرح کا پیسہ ہمارے سیاسی عمل کو تباہ کرتا رہے گا۔ اور ہاں‘ اگر فارن فنڈنگ کا معاملہ طے ہی کرنا ہے تو پھر ساری جماعتوں کو ایک بار کٹہرے میں کھڑا کرلیں تاکہ پورا سچ تو عوام کے سامنے آئے۔