گورنر ہاؤس لاہور کے وسیع لان میں بیٹھے وزیراعظم کے ایک معاون خصوصی سے پوچھا: آخر حکومت کو سینیٹ الیکشن میں کھلے ووٹ کے طریقے پر اصرار کیوں ہے؟ انہوں نے کہا: اراکینِ صوبائی اسمبلی اپنے ووٹوں کی بولی نہ لگائیں‘ اس لیے۔ عرض کیا‘ تحریک انصاف کے ساڑھے چار سو لوگ سینیٹ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں، یہ تو وہ منتخبِ روزگار ہیں جن کے ذمے اس پاک سرزمین کے نظام کو ایمانداری اور شفافیت سے روشناس کرانا تھا، اب انہی کے بک جانے کا خوف، کچھ سمجھ میں نہیں آتا؟ وہ ایک لمحے کے لیے چونکے اور پھر کہا: حکومت کی اطلاعات کے مطابق کراچی میں دولت مند کاروباریوں کا ایک جتھہ ہے جس کے ذمے سینیٹ کے الیکشن میں ہمیں شکست دینا ہے‘ اور آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ پیپلزپارٹی اور آصف علی زرداری یہ کام کتنی عمدگی سے کرسکتے ہیں۔ یہ اطلاع دینے کے بعد انہوں نے یہ بھی بتا دیاکہ بلوچستان میں بعض لوگ پانچ پانچ کروڑ روپے فی رکن صوبائی اسمبلی تیار کیے بیٹھے ہیں تاکہ چالیس کروڑ روپے بھر کے سینیٹ کی سیٹ خرید لیں۔ اب آپ بتائیں یہ سب کچھ ہونے دیں؟ انہوں نے مجھ سے پوچھا۔ میرے پاس ان کے ساتھ اتفاق کرنے کے سوا کوئی جواب نہیں تھا۔
آصف علی زرداری کا خوف تحریک انصاف کو بے جا نہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ وہ اپنے طے کردہ سیاسی نتائج حاصل کرنے کیلئے کوئی بھی حربہ استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ پیسے کے ذریعے وفاداریاں خریدنے کے الزام تو پاکستان کے ہر سیاستدان پر ہی لگتے رہے ہیں‘ لیکن غیرممکن دِکھنے والے کئی کام آصف علی زرداری کرکے دکھا چکے ہیں۔ انیس سونواسی میں جب بے نظیر بھٹو کے خلاف نواز شریف نے قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش کرائی تو اس وقت بھی آصف علی زرداری ان لوگوں میں سے تھے‘ جوچند ایسے لوگ توڑ لائے تھے جو نوازشریف سے معاملہ کرچکے تھے۔ پھر دور کیوں جائیے 2018 کے الیکشن سے کچھ پہلے بلوچستان سے مسلم لیگ ن کی حکومت کے خاتمے کا کریڈت بھی انہی کو جاتا ہے۔ پھرانہی کی وجہ سے تو صادق سنجرانی سینیٹ کے چیئرمین بن گئے اور مسلم لیگ ن بیچاری منہ دیکھتی رہ گئی۔ رہ گیا معاملہ 2019 میں صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی ناکامی کا تو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اس قرارداد کے لانے میں آصف علی زرداری نہیں بلکہ مسلم لیگ ن اور مولانا فضل الرحمن کے ساتھ بلاول بھٹو زرداری سرگرم تھے۔ تحریک انصاف کو یہ ڈر نہیں کہ زرداری سندھ میں اس کے اراکین توڑ لیں گے بلکہ ان سے اصل خوف قومی اسمبلی میں ہے جہاں سے وہ سینیٹ کی ایک جنرل نشست کے انتخاب پر حکومت کو شکست دینے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔ اسلام آباد کی سینیٹ کی اس نشست پر حکومت کے ہارنے کا مطلب ہے کہ وزیراعظم قومی اسمبلی کی اکثریت کا اعتماد کھو چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم اپنی جماعت اور اتحادیوں کے تمام ایم این ایز پر مہربان ہوکر پچاس پچاس کروڑ روپے کے ترقیاتی فنڈز دے رہے ہیں تاکہ ان کی وفاداریاں مستحکم رکھی جا سکیں۔
تحریک انصاف کو دوسرا مسئلہ پنجاب میں درپیش ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ 2018 کے عام انتخابات سے پہلے جنوبی صوبہ محاذ کے نام سے جیتنے والے امیدواروں کے ایک بڑے گروپ نے تحریک انصاف سے مل کر الیکشن لڑنے کا معاہدہ کیا تھا۔ یہ گروپ آج بھی اپنی حیثیت برقرار رکھے ہوئے ہے۔ حکومت میں آنے کے بعد تحریک انصاف کی ناقص کارکردگی کے پیش نظر یہ گروپ ابھی سے اپنے مستقبل کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ اس کا مطالبہ ہے کہ سینیٹ کی ایک نشست اس کی مرضی سے دی جائے۔ بظاہر یہ ایک چھوٹا سا مطالبہ ہے لیکن اس کے اندر چھپی حقیقت یہ ہے کہ اتفاق و اتحاد کی وہ قوت جس نے جنوبی صوبہ محاذ کو تحریک انصاف سے جوڑا تھا، اب مزید جوڑے رکھنے سے قاصر ہے۔ اگران اراکین کا یہ مطالبہ مان لیا گیا تو پھراگلے مطالبات شروع ہوجائیں گے جس کا انجام اس گروپ کی علیحدگی ہو گا۔ ان لوگوں کو دوبارہ قابو میں لانے کیلئے تحریک انصاف کو اب خود کچھ کرنا ہے‘ اور ان پر قابو پانے کیلئے اسے سوائے اس کے کوئی راستہ نہیں سوجھ رہاکہ انہیں سینیٹ الیکشن میں بغاوت کی صورت میں نااہلی کا خوف دلایا جائے۔
ایسا نہیں کہ آصف علی زرداری اور جنوبی پنجاب والے ہی حکومت کی مشکل کا باعث ہیں۔ حکومت کی یہ بات بے بنیاد نہیں کہ چاروں صوبائی دارالحکومتوں میں لوگ پیسوں سے بھرے صندوق لے کر صوبائی اسمبلیوں کے ووٹ خریدنے کے لیے بیٹھے ہیں۔ یہ لوگ صرف اپنی عزت میں اضافے کیلئے ہی اعلیٰ عہدہ حاصل نہیں کرتے بلکہ جو کچھ کرنا چاہتے ہیں ان کی کچھ کہانیاں مجھے وزیراعظم کے اس مشیر نے سنائیں جو کھلے ووٹ کے ذریعے سینیٹ الیکشن کرانے کا آرڈیننس لانے میں بڑے متحرک ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پیسے دے کر ایوان میں آنے والوں کی اکثریت ان چند کمیٹیوں کا حصہ بننا چاہتی ہے جو وزارت داخلہ، تیل اور گیس، تجارت اور سڑکوں سے متعلق بنائی جاتی ہیں۔ اگر اس طرح کا کوئی آدمی ان کمیٹیوں کا سربراہ بن جائے تو اسے ایک گاڑی مع ڈرائیور و پٹرول، متعلقہ وزارت میں ایک دفتر اور ذاتی معاون سرکاری خرچ پر مل جاتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں وہ کام بہ آسانی ہو جاتے ہیں‘ جن کیلئے پیسے بھرکے الیکشن جیتا جاتا ہے۔اس کے علاوہ چند مخصوص قسم کی پالیسیوں کو بدلنے یا بنوانے میں ان خواتین و حضرات کی دلچسپی ہوتی ہے جو ان کے ذاتی کاروبار پر اثر ڈال سکتی ہیں۔ یہ لوگ ان پارلیمانی کمیٹیوں کا پلیٹ فارم استعمال کرسکتے ہیں جہاں یہ پالیسیاں بنتی ہیں۔ مجھے توان صاحبِ اختیار مشیر نے یہ بھی بتایاکہ بعض افراد کی خواہش ہوتی ہے کہ انہیں ایسی کمیٹیوں میں شامل کیا جائے جوسرحدی معاملات سے متعلق ہیں، کیونکہ یہ لوگ آئے ہی اس لیے تھے کہ 'اپنے‘ سامان کی نقل وحرکت میں سہولت پیدا کرسکیں۔ چند مزید کہانیاں سنانے کے بعد انہوں نے مجھ سے پوچھا: 'کیا اب بھی آپ سینیٹ کیلئے خفیہ رائے دہی پر اصرار کریں گے؟‘۔ عرض کیا: سینیٹ کا الیکشن شفاف ہونا چاہیے مگر اس طرح نہیں جیسے آپ چاہتے ہیں۔
سینیٹ الیکشن کو بہتر بنانے پرکسی کواختلاف نہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ حکومت الیکشن کو شفاف بنانے کی آڑ میں دراصل پارٹی سربراہوں کی آمریت کو قانونی جواز مہیا کرنا چاہتی ہے۔ اگر اس حوالے سے حکومت کے جاری کردہ آرڈیننس کودیکھا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے عمران خان، آصف علی زرداری اور نوازشریف جس شخص کو چاہیں گے اپنے اراکین اسمبلی سے ووٹ دلوا کر سینیٹر بنا لیں گے۔ یہ حکم نامہ ہمیں بہ الفاظ دیگر یہ بتاتا ہے کہ ان تین اصحاب کے سوا وہ ایک ہزار سے زائد اراکین اسمبلی جو عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر آئے ہیں، اس قابل نہیں کہ ان کی دیانت اور فراست پر بھروسا کیا جاسکے اوراگر اس مملکت خداداد میں کوئی ایمانداری، دیانت اور قیادت کے اعلیٰ ترین معیارات پر پورا اترسکتا ہے وہ سوائے عمران خان، آصف علی زرداری، نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن کے کوئی نہیں۔ ان کی مرضی کے علاوہ ایوان میں بیٹھنے والا ہر شخص چور ہے اور پیسے دے کر آیا ہے۔ میں یہ کیوں مان لوں کہ اگرمیرا منتخب نمائندہ پیسے لے کر ووٹ دیتا ہے تو میری پسندیدہ سیاسی پارٹی بغیر پیسے لیے کسی کو سینیٹ کا ٹکٹ دے گی؟ سینیٹ الیکشن کیلئے ووٹوں کی خریدوفروخت ہوتی ہے اس میں کوئی شک نہیں لیکن سینیٹ کو آزاد ادارہ بنانے کے بجائے سیاسی پارٹیوں کے سربراہوں کے تابع کردیا جائے، یہ بھی جمہوریت نہیں بلکہ آمریت کی بدترین شکل ہے۔ اگر ہم واقعی ایک جمہوری ملک ہیں تو ہمارے سامنے سوائے اس کے کوئی راستہ نہیں کہ سینیٹ الیکشن کو براہ راست عوام کے ووٹوں سے جوڑا جائے۔ اس کے علاوہ کوئی بھی صورت اتنی ہی مکروہ اور غلیظ ہے جتنی ووٹوں کی خریدوفروخت۔