"HAC" (space) message & send to 7575

کہاں رکنا ہے؟

بارہ پندرہ سال پہلے صدر کراچی میں گھومتے گھامتے ایک پرانی کتاب خرید لی جس کا عنوان تھا 'کاروبار ناکام کیوں ہوتے ہیں‘۔ تب ملکی معاشیات کی رپورٹنگ ہی اپنا پیشہ تھا‘ اس لیے اس موضوع پر پڑھنے کی جو عادت اُن دنوں پڑی‘ تھوڑی بہت آج تک چلی آتی ہے۔ انگریزی میں لکھی یہ چھوٹی سی کتاب معاشیات کے اس عملی پہلو پر تھی جس سے میرا واسطہ روزانہ کی بنیاد پر پڑتا تھا۔ کاروبار میں ہونے والے ناکامیوں کا ذکر کرتے ہوئے کتاب کے مصنف نے کچھ مدد نفسیات کی بھی لی تھی۔ اس کے مطابق ناکام کاروبار کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس کا مالک نفسیاتی اعتبار سے اپنے کاروبار کی محبت میں گرفتار ہوکر نقصان کے باوجود اسے بند کرنے کے بجائے چلاتا رہتا ہے اور آخرکاردیوالیہ ہوجاتا ہے۔ اس نکتے کی وضاحت میں اس نے ایک جملہ ایسا لکھا جو ذہن پر نقش ہوگیا۔ وہ جملہ تھا 'لوگ جانتے ہی نہیں کہ انہیں کہاں رُک جانا چاہیے‘۔ یہ جملہ کیا تھا‘ کلیہ تھا۔ آپ اسے کسی بھی نقصان پر لگا کر دیکھیے‘ معلوم ہوگا کہ اس کی اصل وجہ صرف یہی تھی کہ جہاں رُک جانا تھا وہاں رُکے نہیں اور نقصان اٹھا لیا۔ اس کلیے کو خود احتسابی کہہ لیں یا کچھ اور‘ اصل بات یہی ہے کہ اپنی آخری حد مقرر نہ کر پانا ہی عام طور پر نقصان کا باعث ہوتا ہے۔
دنیا کے آسان ترین کلیوں پر عمل کرنا مشکل ترین کام ہے۔ 'کہاں رکنا ہے‘ اس بارے میں بڑے بڑے لوگ غلطی کر جاتے ہیں‘ جیسے ہمارے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی۔ وہ جنرل ضیاالحق سے وابستگی کے بعد سفر کرتے ہوئے پاکستان پیپلزپارٹی تک آن پہنچے۔ ملتان کی مقامی سیاست سے شروع ہوئے‘ وزارت اور سپیکر قومی اسمبلی کے مناصب سے ہوتے ہوئے وزارتِ عظمیٰ تک پہنچے۔ کسی بھی ملک میں اس مقام تک پہنچنا سیاست کی معراج ہوا کرتی ہے۔ چار سال دو مہینے کی وزارتِ عظمیٰ کے دوران کرنے والے بہت کچھ کر لیتے ہیں۔ ان سے جو کچھ بن پڑا شاید کر بھی گزرے ہوں گے مگر ان کا دور بہرحال ناکامیوں کی وجہ سے ہی یاد رہے گا۔ اپنی پارٹی سے ان کی وفاداری بہرحال قابلِ تعریف ہے کہ انہوں نے چیف جسٹس افتخار چودھری کی عدالت سے پانچ سال کی نااہلی گوارا کرلی مگر آصف علی زرداری کے خلاف سوئس حکومت کو خط لکھنے کیلئے تیار نہیں ہوئے۔ یہ ان کی طویل مگر بے فائدہ سی وزارتِ عظمیٰ کا بہترین سیاسی خاتمہ تھا۔ ان کی عدالتی نااہلی بھی دراصل ان کی عزت میں اضافہ ہی کرگئی۔ کتنا اچھا ہوتا کہ یوسف رضا گیلانی یہاں رُک جاتے اور ہمیشہ یاد رکھے جاتے۔ مگر نہیں‘ وہ نہیں رکے اور اب سینیٹ کے امیدوار بن کر پھر میدان میں ہیں۔
یوسف رضا گیلانی حزبِ اختلاف کے متفقہ امیدوار ہیں۔ متفقہ بھی کیسے؟ حالت اس اتفاق و اتحاد کی یہ ہے کہ جب سینیٹ الیکشن کی بات چلی توانہیں بغیر کسی ردوقدح کے سبھی جماعتوں نے اپنا امیدوارمان لیا۔ اس وقت پیپلزپارٹی کا اورخود گیلانی صاحب کا بھی خیال تھا کہ پنجاب سے سینیٹ کی ایک جنرل نشست پر ان کو جتوانے کیلئے مسلم لیگ (ن) مدد کرے گی لیکن وقت آیا تو مسلم لیگ نے بغیر کسی مشورے کے اپنے امیدواروں کا اعلان کرکے یہ پیغام بھجوادیا کہ ہمارے پاس پنجاب اسمبلی میں سینیٹ کے بائیس ووٹ اضافی ہیں اگر باقی چوبیس کا بندوبست ہوسکے تو یہ ہدیہ قبول فرمائیے۔ ظاہر ہے ایسی نیم دلانہ پیشکش پر سوائے شکریہ کے اور کیا کہا جاسکتا ہے۔
اب ذرا پیپلزپارٹی کا حال بھی سن لیجیے۔ اگر یوسف رضا کو سینیٹ میں ہی بھیجنا تھا تو نہایت سہولت کے ساتھ انہیں سندھ اسمبلی سے منتخب کرایا جاسکتا تھا۔ اگر ماضی میں رحمن ملک اور مصطفی نواز کھوکھر سندھ اسمبلی سے منتخب ہوسکتے ہیں تو پھر یوسف گیلانی تو بدرجہ اولیٰ یہ حق رکھتے ہیں‘ مگرانہیں سینیٹ میں بھیجنا شاید مقصود ہی نہیں‘ اسی لیے آصف زرداری نے اسلام آباد کی نشست پر سینیٹ کا انتخاب لڑنے کیلئے کہا۔ پہلی بار جب یہ بات ہوئی تو سابق وزیراعظم نے معذرت کرلی۔ اس کے بعد دوبارہ بات ہوئی‘ سہ بارہ ہوئی‘ بلاول بھٹو زرداری اپنے والدِ ماجد کے حکم پر بیچ میں پڑے اور ان کے چند جذباتی فقروں کی وجہ سے سیاست کے ہر داؤ پیچ سے واقف گیلانی صاحب یہ الیکشن لڑنے کو تیارہو گئے‘ یعنی زرداری نے وہ فیصلہ کروالیا جو وہ چاہتے تھے۔ اب وہ گیلانی کے تیر سے کئی شکار کرلیں گے۔
اسلام آباد سے سینیٹ کی سیٹ پر قومی اسمبلی کے تمام ارکان ووٹ دیتے ہیں۔ اس وقت سینیٹ کی جن دو نشستوں کیلئے قومی اسمبلی کے ارکان ووٹ ڈالیں گے ان میں ایک جنرل نشست ہے جس پر یوسف رضا گیلانی کا مقابلہ ڈاکٹرحفیظ شیخ کریں گے۔ جیتے گا وہی جسے اراکین اسمبلی کی اکثریت حاصل ہوگی۔ اگر یہ نشست یوسف رضا جیت لیتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت قومی اسمبلی میں اکثریت کھو چکی ہے۔ اس صورت میں عمران خان کو وزیراعظم رہنے کیلئے دوبارہ اعتماد کا ووٹ لینا پڑ سکتا ہے۔ ایک بار یہ نوبت آ گئی تو پھر کون جانے کیا ہو۔ اگر ڈاکٹر حفیظ شیخ یہ نشست جیت لیتے ہیں تو خان صاحب کی حکومت کو یوں سمجھیے کہ اعتماد کا ووٹ مل جائے گا۔ گویا سینیٹ کی یہ نشست فیصلہ کردے گی کہ تحریک انصاف کی حکومت رہے گی یا نہیں‘ لیکن‘ کیا واقعی ایسا ہوسکتا ہے؟
پاکستانی سیاست میں اصول اور قاعدے کا دھیان کوئی نہیں رکھتا‘ اس لیے یقین سے کچھ کہنا مشکل ہے‘ لیکن یہ بات طے ہے کہ تادمِ تحریر پاکستان کے دائرۂ طاقت میں عمران خان کی حیثیت مرکزکی سی ہے۔ اس دائرے میں ان کی اہلیت پر سوالات اٹھتے رہتے ہیں لیکن ان کی مرکزی حیثیت کو ابھی تک کوئی خطرہ درپیش نہیں۔ مطلب یہ کہ سینیٹ کے الیکشن میں یوسف رضا گیلانی کو جیتنے کیلئے جن ووٹوں کی ضرورت ہے وہ فی الحال انہیں میسر نہیں آ سکتے۔ مسلم لیگ (ق)‘ متحدہ قومی موومنٹ یا جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے رہنما اپنی اپنی مجبوریوں اور مفادات کی وجہ سے عمران خان کے ساتھ ہی کھڑے ہیں۔ مجبوری اور مفاد کی جن قوتوں نے انہیں اس بندوبست کا حصہ بنایا ہے‘ ان کے کھیل میں فی الحال نئے کھلاڑیوں کی گنجائش نہیں۔ یہ نکتہ کوئی سمجھے نہ سمجھے آصف علی زرداری خوب اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ انہوں نے یوسف رضا گیلانی کو سینیٹ کی اس نشست پر کھڑا کرکے پی ڈی ایم کو پیغام دیا ہے کہ وہ عمران خان کو ہٹانے کیلئے سنجیدہ ہیں تو دوسری طرف اس الیکشن کو اتنا مؤقر بنا دیا ہے کہ عمران خان کا امیدوار جیتے گا تو حکومت مضبوط ہونے کا تاثر بھی ابھرے گا۔ اگر یوسف رضا گیلانی چند ووٹوں سے ہار جائیں گے تو پھر تحریک انصاف کے خلاف عدم اعتماد لانے کا معاملہ بھی ختم ہوجائے گا‘ یوں مولانا فضل الرحمن اور نواز شریف نے اس حکومت کو جس مشکل میں ڈال رکھا ہے‘ آصف زرداری اس سے نکلنے کا راستہ ہموار کردیں گے‘ کیونکہ زرداری کی بچھائی ہوئی بساط کے مطابق اس حکومت کا پانچ سالہ وقت پورا ہونا ضروری ہے۔
یہاں سوال یہ ابھرتا ہے کہ آخر اس کھیل میں گیلانی صاحب کو کیا ملے گا؟ جواب ہے‘کچھ نہیں۔ دراصل یوسف رضا گیلانی بھی نہیں جانتے کہ وزارت عظمیٰ کے بعد انہیں رُک جانا چاہیے تھا۔ قدرت نے انہیں وہ کچھ عطا کردیا تھا جس کا وہ تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ سابق وزیراعظم کے طور پر ان کے پاس موقع تھا کہ وہ اس قوم کے بڑے بن کر رہتے لیکن وہ اپنی ہی کابینہ کے ایک سابق وزیر کے مقابلے پر اُتر آئے۔ اب یہ بات بے معنی ہے کہ انہیں زرداری نے کہا یا بلاول نے‘ اصل بات یہ ہے کہ وہ خود بھی لیلائے حکومت کے عشق میں مبتلا ہیں۔ وہ اس بڑے پن کا مظاہرہ نہیں کرسکے جو مہذب جمہوری معاشروں میں سابق وزرائے اعظم کیا کرتے ہیں۔ اب وہ سابق وزیراعظم کے بجائے سینیٹ کے ہارے ہوئے امیدوار یا زیادہ سے زیادہ ایک سینیٹر کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔ خیر ایک انہی پر کیا موقوف‘ پاکستان میں کسی کو بھی معلوم نہیں کہ رکنا کہاں ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں