"HAC" (space) message & send to 7575

الیکشن کمیشن کی قضا

بات یہ نہیں کہ ڈسکہ الیکشن کے بارے میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ نون لیگ کو سیاسی فائدہ دے گا اور تحریک انصاف کو نقصان‘ یہ تو اپنا اپنا راگ الاپتی رہیں گی کہ ہم جیتے ہوئے تھے ہمیں ہرایا گیا، وغیرہ وغیرہ۔ یہ غرض بھی کسی کو نہیں کہ ڈسکہ میں تحریک انصاف نے حکومتی مشینری استعمال کی یا مسلم لیگ ن اپنے ''تجربہ کاروں‘‘ کو بروئے کار لے کر آئی۔ یہ سب الزامات ہیں۔ سیاسی جماعتیں اس طرح کے الزامات لگاتی بھی رہتی ہیں اور سنتی بھی رہتی ہیں۔ دو ہزار تیرہ سے اٹھارہ تک عمران خان صاحب مسلم لیگ ن کو الیکشن چور کہتے رہے اور پچھلے ڈھائی سالوں سے مریم نواز یہ کہہ رہی ہیں۔ ثبوت اُن کے پاس تھا، نہ اِن کے پاس ہے۔ اس لیے کیا ان کا کہنا اور کیا ان کا سننا۔ اصل بات یہ ہے کہ پہلی بار، جی ہاں، پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار الیکشن کمیشن نے ''خوف‘‘ کو سیاسی حربے کے طور پر استعمال کرنے کے خلاف کوئی فیصلہ کیا ہے۔
خوف وہ حربہ ہے جسے پاکستان کے طول و عرض میں الیکشن جیتنے کیلئے ہمیشہ استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ مال پٹوار، پولیس، جھوٹے مقدمے، جیل، بندوق یہ سبھی کچھ پاکستانی سیاست میں استعمال ہوتا رہا ہے۔ سب اپنی اپنی جگہ ووٹر کے فیصلے اپنے پھیلائے ہوئے خوف کے ذریعے بدلنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ کسی کا ساتھ یا مخالفت بھی دراصل خوف کا توازن ہی تو ہے۔ کسی کے ساتھ کوئی قوت کھڑی ہوگئی تو الیکشن کی منزل آسان ہو گئی، یہ خوف جس کے خلاف استعمال ہوا، وہ اقتدار سے نکل کر جمہوریت کی دہائی دینے لگا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دو ہزار دو کے الیکشن کے دوران پاکستان مسلم لیگ ق کو دنوں میں وجود میں آتے، جوان ہوتے اور پھر خوف کی بنیاد پر حکومت بناتے دیکھا۔ جیسے ہی اس کے ساتھ وابستہ طاقت الگ ہوئی، مسلم لیگ ق ملک کی سب سے بڑی جماعت کے بجائے خانقاہ میں تبدیل ہوگئی۔ خوف کی یہی طاقت ڈسکہ شہر میں الیکشن کے دن عوام کے خلاف ہوائی فائرنگ کرکے استعمال ہوئی، تئیس پولنگ سٹیشنوں کے پریذائیڈنگ افسروں کو اغوا کرکے استعمال ہوئی اور الیکشن کے دن سے پہلے ڈسکہ کے بااثر شہریوں کے خلاف استعمال ہوئی‘ اور اس طاقت کے بے رحمانہ استعمال کا مقصد صرف یہ تھاکہ قومی اسمبلی کی ایک نشست حکومت جیت لے۔
الیکشن کمیشن کے فیصلے کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہ فیصلہ امیدواروں کی بیانات اور وکیلوں کی دلیلوں کی روشنی میں نہیں دیا گیا بلکہ کمیشن نے اپنی آنکھیں اور اپنے کان استعمال کرکے واقعات کو دیکھا ہے۔ اس کے بعد یہ اہم نہیں کہ تحریک انصاف یہ نشست جیتے گی یا مسلم لیگ ن۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں الیکشن کمیشن ایک زندہ اور متحرک ادارے کے طور پر سامنے آیا ہے۔ کل کے فیصلے سے پہلے الیکشن کمیشن اپنی تاریخ میں کبھی ایسے ادارے کے طور پر سامنے نہیں آیا جو کسی طاقتور کے سامنے کھڑا ہو سکے۔ ماضی میں اس کا چلن یہ تھاکہ الیکشن میں ہونے والی ہر دھاندلی اس کیے سامنے پیش ہوئی اور نتیجہ بن کر عوام کے سر پر مسلط ہوگئی۔ کراچی میں سرعام بندوق کے زور پرالیکشن لڑے گئے، یہ ادارہ خاموش رہا۔ پنجاب میں بے پناہ پیسوں کے زور پر الیکشن لڑا جاتا رہا، اس کو یہ توفیق نہ ہوئی کہ قانون پر پڑی گرد بھی جھاڑ لے۔ کہنے کو یہ ادارہ عوام کی رائے کا امین تھا لیکن اس نے کبھی امانت و دیانت کا ثبوت نہیں دیا۔ انیس سو ستتر میں اس ادارے اور اس ادارے کے سربراہ کا پہلا امتحان تھا مگر کوئی اپنی جگہ سے نہ ہلا۔ اس کے بعد اس کی قانونی ضرورت تو رہی مگر اخلاقی ساکھ ختم ہوگئی۔ ظاہر ہے سیاست میں توازن قائم رکھنے کا ذمے دار یہ ادارہ کمزور ہوا تو پھر نجانے کیا کیا اور کون کون یہ کردار ادا کرنے لگا۔ تاریخ گواہ ہے کہ اس کا صحن سیاست کے کمیشن ایجنٹوں کا راستہ بن گیا۔ خیال یہ تھا کہ ہمیشہ ایسا ہی رہے گا۔
ادارے افراد ہی سے تو بنتے ہیں۔ ہم نے بحیثیت قوم بے شمار ادارے بنائے مگر ان اداروں کو چلانے والے افراد ہمیں خال خال ہی ملے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ریاستی نظام کے ہر مرحلے پر اہلیت اور لیاقت کو باقاعدہ سازش کے ذریعے روک لیا جاتا ہے۔ جہاں کچھ نااہل نظام کی ہر چھلنی سے گزر کر اعلیٰ عہدوں پر پہنچ جائیں اس نظام سے خیر کی توقع وابستہ کرنے کے لیے چیتے کا جگر چاہیے جو مجھ میں نہیں۔ الیکشن کمیشن میں اگر کسی الف کو ممبر بنا دیا گیا اور کسی ب کو چیف بنا دیا گیا، تو مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا رہا کیونکہ سیاسیات کے طالب علم کے طور پر میرے لیے سبھی جسٹس سجاد جان تھے جو اس وقت سجدے میں گرے جب قیام کا وقت آیا۔ زیادہ ایمانداری یہ ہے کہ جب سکندر سلطان راجہ الیکشن کمیشن کے سربراہ بنے تو بھی کوئی تمنا جاگی نہ مزید مایوسی ہوئی‘ لیکن اب ان کے طرز عمل نے امیدوں کی لو بڑھا دی ہے۔
کراچی میں لندن والی ایم کیو ایم جو کچھ کیا کرتی تھی، وہ ڈسکہ الیکشن میں نجانے کس کس نے کیا۔ اگر الیکشن کمیشن یہ سب کچھ دیکھ کر بھی اس حلقے کے نتائج کا اعلان کر ڈالتا تو میرے جیسے چند لوگ چند روز چیختے چلاتے اور پھر اپنے کاموں میں لگ جاتے‘ مگر اب کی بار ایسا نہیں ہوا۔ ہم بھی وہی ہیں، پاکستان بھی وہی ہے، الیکشن لڑنے والے بھی وہی ہیں، الیکشن لڑنے کے طریقے بھی پرانے ہیں، الیکشن کمیشن بھی وہی ہے، سیاست کے الجبرا کی اس مساوات میں کچھ بدلا ہے تو بس الیکشن کمیشن کا سربراہ۔ مساوات کے اس رکن کو نکال دیں تو نتیجہ وہی نکلے گا جو ہمیشہ سے نکلتا آیا ہے، یعنی زوال کی گہرائیوں کی طرف ایک قدم اور۔ سکندر سلطان راجہ نے انیس فروری کو ہی الیکشن کمیشن کے اعلامیے میں بتا دیا تھا کہ عوام کے ووٹوں کی امانت میں خیانت کرنے والوں کو وہ چھوڑیں گے نہیں۔ بس اسی دن سے بات بنتی چلی گئی۔
ڈسکہ الیکشن کالعدم قرار دے کر انہوں نے بتا دیا ہے کہ پاکستان کے نظام میں ابھی جان باقی ہے۔ ابھی اتنا اندھیر نہیں مچاکہ پنجاب کا چیف سیکرٹری، آئی جی پولیس اور متعلقہ ضلعے کی انتظامیہ سیاسی حکومت کے ہاتھوں میں کھیلتے ہوئے دستور و قانون کو بالائے طاق رکھ دیں۔ الیکشن کالعدم قرار دے کر انہوں نے اپنے کام کا ایک حصہ مکمل کردیا۔ جن افسروں نے اس دن اپنا فرض ادا نہیں کیا انہیں کیفر کردار تک پہنچانا شاید ان کے کام کا مشکل ترین حصہ ہے۔ وہ اس لیے کہ وہ خود ایک اعلیٰ افسر رہ چکے ہیں اور دھاندلی کرنے والے بنیادی ملزم ان کی ماتحتی میں کام کرتے رہے ہیں۔ کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں ایک ڈی ایم جی (ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ) افسر دوسرے ڈی ایم جی افسر کو ملزم تو ٹھہرا لیتا ہے مگر مجرم نہیں ٹھہراتا۔ ہوسکتا ہے ایسا ہوتا ہو، مگر اب کی بار نجانے کیوں امید ہے کہ چوالیس برس پہلے جسٹس سجاد جان کی جو قضا نماز سکندر سلطان راجہ نے اب ادا کی ہے، وہ اپنی فرض نماز نہیں بھولیں گے۔
لاہور کے لوگوں کو یاد ہوگا کہ ایک پولیس کانسٹیبل نے جنرل پرویز مشرف کے عروج کے دور میں ایک بڑے صاحب کی گاڑی کو حسب قانون روکا اور معطل ہوگیا۔ یہ خبر جیسے ہی لوگوں تک پہنچی تو بڑا صاحب شہر میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہا اور وہ چھوٹا سا کانسٹیبل اتنا بڑا ہوگیا کہ لوگوں نے اسے اپنے گھروں میں مدعو کرکے عزت دینا شروع کردی۔ جسٹس افتخار چودھری کو عزت قانون کی سربلندی کے لیے ملی، جہاں وہ اپنی ذات کے اسیر بنے، دلوں سے اتر گئے اور اب ان کی خبر بھی کہیں نہیں ملتی۔ مطلب یہ کہ پاکستانی کسی ایک ایسے شخص کی تلاش میں ہیں جو صرف وہ کرے جو قانون کہتا ہے۔ اس تلاش میں کئی رہزن، رہبر بن گئے۔ اس لیے عام آدمی بھی محتاط ہے۔ سکندر سلطان راجہ سے امید تو بندھی ہے، مگر احتیاط کا دامن ہمارے ہاتھ سے ابھی نہیں چھوٹا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں