آصف علی زرداری اس نکتے پر یکسو ہیں کہ چلتے ہوئے جمہوری نظام کے اندر ہی امکانات کی دنیا آباد رہتی ہے۔ جہاں اس نظام کو دھکا لگے گا‘ سیاستدان کھیل سے باہرہو جائیں گے۔ اسی منطق پرعمل کرتے ہوئے سابق صدر نے اپنی جماعت کو اسمبلیوں سے اجتماعی استعفے دے کر نظام کو خطرے سے دوچار کرنے کے کھیل سے علیحدہ کرلیا ہے۔ اگر اسمبلیوں کی مدت پوری کرنے کیلئے ان کی غیر مشروط کمٹمنٹ نہ ہوتی تو 2014ء میں وہ تحریک انصاف کا ساتھ دے کر بہ آسانی حکومت میں آجاتے۔ اس وقت کئی قسم کی پیشکشیں ٹھکرا کروہ اسمبلی بچانے کیلئے نواز شریف کے ساتھ کھڑے ہونے کا فیصلہ کر گزرے اور اس پر ڈٹ گئے۔ ڈٹ جانے کی پاداش میں ہی انہیں اتنا تنگ کیا گیا کہ وہ 'اینٹ سے اینٹ‘ بجانے کا بیان دے بیٹھے۔ جس دن یہ بات ان کے منہ سے نکلی وہ تاریخ تھی 16 جون 2015ء یعنی عمران خان کا دھرنا ختم ہوچکا تھا اور نواز شریف حکومت کے سامنے راستہ بالکل ہموار تھا۔ اس بیان کے اگلے دن وزیراعظم نواز شریف سے زرداری کی ملاقات طے تھی لیکن چند ماہ پہلے کے احسان کا بدلہ اس طرح اترا کہ وزیراعظم ہاؤس نے ایک پریس ریلیز کے ذریعے زرداری کے اس بیان کی مذمت کی اور یہ ملاقات منسوخ کردی۔ اسی دن چند سینئر صحافیوں کی ملاقات وزیراعظم سے ہوئی تو ایک صحافی نے ان سے کہا:میاں صاحب! آپ نے اچھا نہیں کیا‘ یہ ملاقات اب کبھی نہیں ہو پائے گی۔ وزیراعظم خاموش رہے۔
آصف علی زرداری اس بیان کے دسویں دن دبئی چلے گئے اورڈیڑھ سال بعد اس وقت واپس آئے جب پاناما کی وجہ سے نواز شریف مشکل میں پھنس چکے تھے۔ اس زمانے میں بھی زرداری بہت کچھ کرسکتے تھے لیکن اسمبلیاں بچانے کیلئے انہوں نے خود کو محدود ہی رکھا۔ آخرمیں صرف اتنا کیا کہ بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت گرادی اورصادق سنجرانی کو چیئر مین سینیٹ بنوا دیا۔ اس کے بعد 2018 ء کا الیکشن ہوا توانہوں نے اسمبلی میں جا کریقین دلایا کہ وہ مفاہمت کے راستے پر ہی چلتے رہیں گے۔ حکومت نے ان کے ساتھ جو کچھ بھی کیا‘ وہ اسمبلی توڑنے کے راستے پر نہیں پڑے۔ پی ڈی ایم بناتے ہوئے بھی انہوں نے اسمبلیوں سے استعفوں کی مخالفت کی لیکن اتحاد قائم رکھنے کیلئے اسے آخری آپشن کے طور پر قبول کیا اور بڑی خوبصورتی سے نواز شریف کو ایک بار پھر نظام میں رہتے ہوئے سیاسی اہداف حاصل کرنے پر تیار کرلیا۔ یہ ماننا پڑے گا کہ سینیٹ اورضمنی انتخابات کی وجہ سے تحریک انصاف کی حکومت کو جتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا وہ استعفوں کی امکانی مشکل سے کہیں زیادہ تھیں۔
نظام کے چلتے رہنے پرجتنا پختہ یقین آصف علی زرداری کو ہے‘ اتنا ہی ان کی جماعت پیپلزپارٹی کو بھی ہے۔ اس کا اندازہ یوں لگائیے کہ پی ڈی ایم کے اعلامیے میں جب اجتماعی استعفوں کو ذکر آیا تو بلاول بھٹو زرداری سے ان کی پارٹی کے اجلاس میں پوچھا گیا کہ اب کیا پیپلزپارٹی مریم نواز کو وزیراعظم بنوانے کیلئے سرگرم ہے؟ آصف زرداری پارٹی کے اندر اس بے چینی سے پوری طرح آگاہ تھے۔ انہوں نے 27دسمبر تک انتظار کیا‘ یہ وہ تاریخ ہے جب مریم نواز لاڑکانہ پہنچیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے مزار پر جاکر فاتحہ خوانی کی اور جلسے میں بے نظیر بھٹو زندہ باد کے نعرے لگوائے۔ زرداری نے سیاسی انداز میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور ذوالفقار علی بھٹو پر نواز شریف کی طرف سے لگائے جانے والی سبھی الزامات کا حساب چکا دیا تھا۔ جنہیں 1988ء کی انتخابی مہم یاد ہے وہ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کہ پیپلزپارٹی کیلئے مریم نواز کا گڑھی خدابخش جانا کیا معنی رکھتا ہے۔27 دسمبر کے بعد آصف علی زرداری نے ایک ایک کرکے اپنی چالیں چلنا شروع کیں اور پی ڈی ایم سے ہر وہ بات منوا لی جو وہ چاہتے تھے۔
اسمبلیاں نہ توڑنا ایک اصول کے طور پر اپنی جگہ لیکن 2028 ء تک کے سیاسی نقشے میں بھی آصف علی زرداری یا پیپلزپارٹی وفاقی حکومت حاصل کرنے کے بارے میں نہیں سوچ رہے۔ پیپلزپارٹی کا حساب کتاب ہے کہ انہیں 2028 ء میں نہ صرف وفاق بلکہ پنجاب کی حکومت بھی ملے گی۔ اس ہدف کے حصول کیلئے ضروری ہے کہ یہ نظام بغیر کسی وقفے کے چلتا رہے۔ اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں اور اگر کوئی تبدیلی آنی ہے تو اسمبلیوں کے اندر رہتے ہوئے آئے۔ اس حکمت عملی کے درست ہونے پر پیپلزپارٹی کو اتنا یقین ہے کہ پی ڈی ایم کے ایک اجلاس میں جب نواز شریف نے کہا کہ نئے الیکشن میں اگر ان کی جماعت کو اکثریت ملتی ہے تو وزارت عظمیٰ کا فیصلہ پی ڈی ایم پر چھوڑ دیں گے۔ نوازشریف جب نہایت اخلاص کے ساتھ یہ کہہ رہے تھے تو اجلاس میں شامل پیپلزپارٹی کے سبھی لوگ مسکرا اٹھے۔ اتنی مخلصانہ پیشکش پر کسی ظالم نے اگلی بات تک نہ کی! زرداری کے علاوہ پاکستان کی ہیئت مقتدرہ بھی اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ جمہوری نظام کے چلنے میں ہی سب کی بقا ہے۔ اگرچہ مؤثر بلدیاتی نظام کی عدم موجودگی میں یہ ادھوری جمہوریت عوام کی خدمت نہیں کرسکتی لیکن دنیا میں پاکستان کی تھوڑی بہت عزت کی آخری وجہ یہی ٹوٹے پھوٹے جمہوری ادارے ہی رہ گئے ہیں۔ اس لیے وہ قوتیں جن کی شناخت ہی غیرجمہوری تھی اب اتنی ہی جمہوری ہیں جتنے ہمارے سیاستدان‘ یعنی اپنے اپنے مفادات کا حصول سبھی کو جمہوریت میں ہی نظر آتا ہے۔ ملک میں جمہوری اداروں کی حیثیت میں آنے والے استحکام کا اندازہ یوں لگائیے کہ گزشتہ ستمبر سے آج تک ہماری مقتدرہ نے سخت ترین تنقید برداشت کی لیکن اسمبلیوں کی مدت پوری کرنے پر کسی سمجھوتے کے آثارتک پیدا نہیں ہوئے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ زرداری کسی کے کہنے پر اس نظام کی حفاظت میں اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں بلکہ یہ ہے کہ اب جمہوریت کی باغبانی کیلئے وہ لوگ بھی تیار ہیں جنہیں اس چمن کا پھلنا پھولنا کبھی گوارا نہ تھا۔ یہ سودے بازی نہیں‘ خیالات کا اشتراک ہے جس کی وجہ سے آصف علی زرداری بھی موجودہ اسمبلیوں کے چلتے رہنے کے اتنے بڑے ضامن ہیں جتنا کوئی اور۔
نواز شریف کا مسئلہ زرداری سے الگ ہے۔اس نظام پر دباؤ ڈال کرانہیں وہ سب مل گیا ہے جس کی ضرورت انہیں 2023ء کے الیکشن میں پڑ سکتی ہے۔ اسمبلیوں کی باقی ماندہ سوا دو سال کی مدت میں تحریک انصاف کی حکومت دوسرا جنم لے کر بھی کچھ نہیں کرسکتی۔ اب گھسٹ گھسٹ کر اس نے دن پورے کرنے ہیں اور بس۔ رہی سہی کسر آئی ایم ایف سے معاہدے نے پوری کردی ہے کہ اب معاشی طور پر اپنا ایجنڈا آگے بڑھانے کے بجائے یہ صرف ایک معاشی ڈاکخانہ بن کر رہ جائے گی جو صدر دفتر سے آنے والی ہدایات کو یہاں لشتم پشتم نافذ کرتی ہے۔ ایسی نالائق حکومت دراصل ضمانت ہے کہ 2023 ء تک اگرمسلم لیگ (ن) کوئی بڑی غلطی نہیں کرتی تو اسے حکومت بھی مل جائے گی‘ مگر اس حکومت میں وزیراعظم ہوں گے شہباز شریف۔ شہباز شریف وزیراعظم بنتے ہیں تواس صورت میں مریم نواز کی پارٹی میں مرکزی حیثیت کو ٹھیس پہنچے گی جو نواز شریف کے ترتیب دیے ہوئے منصوبے سے میل نہیں کھاتی۔ اس لیے فوری طور پر اسمبلیوں کا ٹوٹنا ہی مریم نواز کے حق میں جاتا ہے کہ وہ اپنے جارحانہ اندازِ سیاست کے ساتھ الیکشن کے اکھاڑے میں اتر جائیں۔ اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ حالات میں اتنا تلاطم رہے کہ ان کی جماعت سکون کے ساتھ اگلی حکمت عملی کے بارے میں سوچ ہی نہ سکے۔ یہ سب کرتے ہوئے نواز شریف دو نکتے نظر انداز کیے دے رہے ہیں۔ پہلا یہ کہ مسلم لیگ (ن) بے شک ان کی بنائی ہوئی جماعت ہے لیکن بہرحال ایک سیاسی جماعت ہے جواندھادھند تقلیدنہیں کرسکتی‘ اور دوسرے یہ کہ دنیا کی تاریخ نے ان بادشاہوں کی ناکامی کی داستانوں سے بھری پڑی ہے جو ولی عہدی کی سیاست میں الجھے اور ٹھوکر کھا گئے۔ زرداری کی طاقت یہی ہے کہ انہیں ولی عہدی کی سیاست میں الجھنا پڑ رہا ہے نہ وہ تاریخ کو نظر انداز کرتے ہیں۔