اگلے روز وزیراعظم کے معاون خصوصی اور نوجوانوں کے لیے قرضہ سکیم کے سربراہ عثمان ڈار سے پوچھا: اب تک کتنے لوگ ہیں جو کاروبار کے لیے یہ قرضہ حاصل کر چکے ہیں۔ بڑے جوش سے بتانے لگے کہ اب تک آٹھ ارب روپے کے قرضے دس ہزار نوجوانوں کو دیے جا چکے ہیں۔ یہ بھی بتایا کہ گزشتہ سال کورونا کی وجہ سے نوجوانوں کو مناسب رفتار سے قرضے نہیں مل پائے‘ ورنہ اب تک بہت سے لوگ اپنا کاروبار بھی شروع کرچکے ہوتے۔ پوچھا، جنہیں قرض دے رہے ہیں ان کی مدد بھی کررہے ہیں یا نہیں؟ کہنے لگے: کرتو رہے ہیں انہیں قرض دے کر۔ عرض کیا: پاکستان میں تو کاروبارکا طریقہ دنیا سے جدا ہے، یہاں تو باقاعدہ مدد کرنے کی ضرورت ہے ورنہ تو یہ سب تباہ ہوجائیں گے اور پیسہ ڈوب جائے گا۔ جواب ملا: حبیب بھائی ہمارے نوجوان بڑے زبردست ہیں، آپ دیکھیے گا یہ کام چلا لیں گے۔ سیالکوٹ کے خوشحال کاروباری گھرانے کے لاڈلے نوجوان پر میں اپنی بات واضح نہ کرپایا کہ میں کس مدد کی بات کررہا ہوں۔ عثمان ڈار اگر خود بھی کاروبار کررہے ہوتے تو انہیں اچھی طرح علم ہوتا کہ مدد کسے کہتے ہیں۔ اب جبکہ حکومت نے بھی اصل بات سمجھانے کا بندوبست نہیں کررکھا اس لیے ایک پرانے ہوتے ہوئے صحافی کے طور پر میں اپنی ذمہ داری سمجھتا ہوں کہ نوجوانوں کو کاروبار کے اصل گُر بھی سمجھا دیے جائیں تاکہ اگلی نسل تک وہ علم پہنچ جائے جو ہم نے اس کوچہ و بازار میں سیکھا ہے۔
پہلا گُر یہ ہے کہ اگر آپ کے والد یا بھائیوں بہنوں میں سے کوئی اعلیٰ سرکاری افسر ہے توفوری طور پر کاروبار شروع کردیں۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کے پاس سرمایہ اور ہنر ہے یا نہیں۔ بس کوئی بھی کاروبار شروع کردیں وہ چل پڑے گا کیونکہ پاکستان کا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ اعلیٰ سرکاری افسروں کے بچے جس بھی کاروبار میں ہاتھ ڈالتے ہیں وہ پراسرار طور پر چلنے لگتا ہے۔ یہ کاروبارعام طور پر سرکار کو کسی شے کی فراہمی کا دعویٰ کرتے ہیں اور اگر کوئی نظر آنے والی چیز فراہم نہ بھی کریں تو ان کے لیے کنسلٹینسی یعنی مشاورت کے نام پرایسے ایسے دروازے کھل جاتے ہیں جن کا عام آدمی تصور بھی نہیں کرسکتا۔ یہ خوبصورت سے دفتر بنا کرمختلف سرکاری محکموں کو وہ باتیں بتا کر بھی پیسے کما لیتے ہیں جو انہیں پہلے سے ہی پتا ہوتی ہیں۔ اگر اس کاروبار کی سرپرستی کرنے والے اعلیٰ افسر کسی زیادہ مؤثر عہدے پر فائز ہوں تو نجی شعبے کی بڑی بڑی کمپنیاں بھی انہیں اپنا مشیر رکھ لیتی ہیں جس کے نتیجے میں مشیر اور کمپنی دونوں تیزی سے منافع کمانے لگتے ہیں۔
دوسرا گر، اگر آپ کے والد ماجد یا برادرمحترم کسی سرکاری محکمے میں کام نہیں کرتے تو پھر آپ کے پاس کافی مقدار میں پیسہ ہونا چاہیے۔ اتنا پیسہ کہ جس ضلع یا تحصیل میں آپ اپنا کاروبار جمانا چاہتے ہیں وہاں کے اعلیٰ افسرکیا چھوٹے سے چھوٹا اہلکار بھی خود کو آپ کا حصے دار سمجھے۔ اس طرح آپ کاروبار میں جلد ہی کامیابی کے جھنڈے گاڑنے لگیں گے۔ ہوسکتا ہے کہ بربنائے سرکاری عہدہ جو لوگ آپ کے حصے دار ہیں، انہیں دی جانے والی رقم کو بعض عاقبت نااندیش رشوت کہیں لیکن آپ کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیے۔ اس گر کو آزما کر دیکھیے آپ کو فوری طور پر سرکارکے ٹھیکے ملنا شروع ہوجائیں گے اور خوشحالی آپ کے دروازے دھڑدھڑانے لگے گی۔ اگرآپ ملک کی محبت میں ایمانداری سے سرکاری واجبات ادا کرنا چاہتے ہیں تو کاروبار نہ کریں، اچھے رہیں گے‘ کیونکہ آپ نے ایسا کرنا چاہا تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کا ہر اہلکار آپ پر چڑھ دوڑے گا۔ بجلی ‘ گیس کمپنی، بلدیہ، سوشل سکیورٹی، ماحولیات، انکم ٹیکس وغیرہ سب محکمے آپ کو کٹہرے میں کھڑا کرکے عبرت کا نشان بنا دیں گے۔ عین ممکن ہے کہ آپ اشتہاری قرار پاجائیں اور اس ملک سے دوڑجانے میں ہی اپنی عافیت سمجھیں۔ اس لیے جو آپ کو بتایا جارہا ہے اس پر من و عن عمل کریں، قوم کی خدمت کا جذبہ پالنے کی زیادہ ضرورت نہیں۔
تیسرا گر، یہ ان نوجوانوں کے لیے ہے جن کے والدین پہلے سے ہی کاروبار جما چکے ہیں اور اب نئی نسل اس کاروبار کی باگ ڈور سنبھال رہی ہے۔ یہ بچے عام طور پر والدین کی طرح تیزطرار نہیں ہوتے۔ اس لیے انہیں رہنمائی کی ضرورت بھی زیادہ ہے۔ درایں حالات یہ خاکسار اپنا فرض سمجھتا ہے کہ ان پر بھی اصلیت آشکار کردی جائے ۔ ایسے نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر نئے آنے والے سرکاری افسروں کو بالحاظ عمر دوست، بھائی یا انکل بنا لیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کے بزرگوں نے جن افسروں کی سرپرستی میں کام کیا تھا وہ اب ریٹائر ہو رہے ہیں اور آپ کے سامنے ابھی پہاڑ جیسی زندگی ہے۔ آج کل کے نئے سرکاری افسرتو بہت ہی چھوٹے چھوٹے فوائد پر پھسل جاتے ہیں۔ اس لیے آپ کومشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ مثال کے طور پر آپ کا خاندانی کاروبار تعمیرات کا ہے تو بغیر کرائے کا ایک آدھ فلیٹ یا مکان کافی ہے۔ جب یہی نوجوان افسر کچھ بڑا ہوجائے تو یہ اس کے نام ٹرانسفر کرادیں۔ وقتاً فوقتاً دعوتیں کرتے رہیں اور ان دعوتوں میں مہمانوں کے ذوق کا دھیان کرتے ہوئے مشروبات و ماکولات اور حاضرین کا انتظام کریں۔ یاد رکھیے اگرآپ نے اپنے آبائی پیسے کے زور پریہ نیٹ ورک بنا لیا تو زندگی بھر اسی طرح خوش رہیں گے جیسے آپ کے بڑے۔ ہاں، یاد آیا، سیاستدانوں کو مت بھولیے گا ان میں بھی اپنے انکل وغیرہ دریافت کیے رکھیں اور ان کی خدمت کرتے رہیں۔
چوتھا گر تو سب سے اہم ہے اوروہ ہے کاروبار کی نوعیت کے بارے میں۔ یاد رکھیے کہ آپ نے کوئی کارخانہ نہیں لگانا۔ اگرچہ پاکستان کو مینوفیکچرنگ کی ضرورت ہے لیکن آپ نے ایسا ہرگز ہرگز نہیں سوچنا کیونکہ جیسے ہی آپ کچھ بنانے لگیں گے پاکستان میں ساری کی ساری سرکاری مشینری آپ کو برباد کرنے چل پڑے گی۔ ہاں اگرکوئی کارخانہ لگانا ہے تو دھاگا بنانے کی مل، گاڑیوں کا اسمبلنگ پلانٹ، شوگر مل، کھاد کا کارخانہ، آئل ریفائنری وغیرہ لگائیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح ماضی میں پٹرول پمپ، راشن ڈپو، گاڑیوں کے روٹ پرمٹ اور منڈیوں کے ٹھیکے وغیرہ حکومت و ریاست کے اپنوں کوملا کرتے تھے اب اسی طرح ان کارخانوں کے اجازت نامے دیے جاتے ہیں۔ ان کارخانوں کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ حکومت انہیں سبسڈی دیتی ہے، ٹیکس معاف کرتی ہے اور لوٹ کھسوٹ کا پورا موقع فراہم کرتی ہے۔ آپ کو کاروبار آتا ہے یا نہیں پاکستان میں اس طرح کے کارخانے لگانے میں آپ کو نقصان ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ عام آدمی کے ٹیکس سے بھی آپ کے خرچے پورے کیے جائیں گے۔ میری بات کو اگر آپ مذاق سمجھ رہے ہیں تو اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے (یو این ڈی پی) کی رپورٹ پڑھ لیں جو بتاتی ہے کہ پاکستان میں ہر سال ساڑھے سترہ ارب ڈالر یعنی دوہزار ارب روپے سے زائد رقم انہی شعبوں سے وابستہ اداروں کو مختلف مدوں میں عوام کے ٹیکسوں میں سے دی جاتی ہے۔ اس طرح کے کاروبار بھلا دنیا میں کہاں ہوتا ہے۔ اگر آپ کو یہ کام مشکل لگتا ہے تو اپنے چند سرکاری انکلوں کی مدد سے ریئل اسٹیٹ کا کام شروع کردیں۔ یاد رکھیے پاکستان میں کاروبار سرکار کی کھلم کھلا مدد کے بغیر نہیں ہوسکتا اور اگر آپ کو یہ مدد میسر آگئی تو پھر آپ وہ کام بھی نہایت کامیابی کے ساتھ کرسکتے ہیں جو قانون کی کتابوں میں غلط قرار پاتا ہے۔
میرے بتائے ہوئے طریقے کو ہنسی میں اڑاکر اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ قرضہ لے کرواقعی کچھ کرسکتے ہیں تو پھر میں آپ سے ہمدردی کے سوا کچھ نہیں کرسکتا۔ اگرسرکار دربار میں آپ کو کوئی رسوخ نہیں تو فوری طور پر جس سے لیا ہے قرضہ واپس کریں اور کوئی نوکری ڈھونڈ لیں۔ اگر آپ کو کاروبار میں آسانیاں پیدا کرنے والی تقریروں پر بھروسا ہے تواس کا مطلب ہے آپ نے برباد ہونا ہی ہونا ہے ۔ اس بارے میں یہ خاکسار کچھ نہیں کرسکتا۔ وما علینا الاالبلاغ