افغان طالبان یہ ثابت کرچکے کہ افغانستان میں تنظیم اور اسلحے کی طاقت ان کے سوا کسی کے پاس نہیں۔ اسی طاقت سے وہ تضاد جنم لیتا ہے جس کا اب انہیں سامنا ہے۔ تضاد یہ ہے کہ یہ طاقت صرف اس وقت تک مؤثر تھی جب تک امریکا کی صورت میں ایک دشمن ان کے سامنے تھا۔ دشمن بھی وہ کیسا تھاکہ جو افغانستان اس نے طالبان سے لیا‘ اس سے کئی سوگنا بہتر حالت میں انہیں واپس کرکے چلا گیا ہے۔ طورخم سے لے کر آمو دریا تک اور پنجشیر سے قندھار تک ہر جگہ امریکہ کی زیرنگرانی ہونے والی ترقی کے نشان ثبت ہیں۔ ہروہ راستہ جس پر چل کر کابل پہنچا جاسکتا ہے، امریکہ کا بنوایا ہوا ہے۔ بجلی کی وہ روشنی جس میں بیٹھ کرطالبان کاروبارِ حکومت چلا رہے ہیں، امریکہ کی مہیا کردہ ہے۔ سکول، یونیورسٹیاں، کالج، ادارے حتیٰ کہ مقبروں کی نئی عمارتیں تک امریکہ یا اس کے دوستوں کی بنوائی ہوئی ہیں۔ نتیجہ اس ترقی کا یہ ہے کہ اگر طالبان امریکہ، حامد کرزئی یا اشرف غنی کو یہ طعنہ نہیں دے سکتے کہ انہوں نے ملک میں کچھ سنوارا نہیں۔ اگروہ کہیں کہ افغان فوج کو مضبوط نہیں کیا تو پھر اعتراض اٹھے گاکہ فوج کی اسی کمزوری نے آپ کو بغیر خون خرابے کے اقتدار تک پہنچنے دیا۔ یہ ایسی عجیب و غریب صورتحال ہے کہ طالبان‘ جنہوں نے بیس برس تک امریکہ کے خلاف مزاحمت کی، اسے دشمن نہیں کہہ سکتے۔ اپنی مشکلات کی ذمہ داری سابق حکومتوں پر عائد نہیں کرسکتے۔ اپنی بے پناہ طاقت کواپنے ہی عوام کے خلاف استعمال نہیں کرسکتے لیکن اس طاقت سے کسی کوایک وقت کی روٹی بھی نہیں دے سکتے۔ حالات کچھ ایسے ہیں کہ طالبان حکومت سنبھالنے کے پہلے دن سے کارکردگی دکھانے کے دباؤ میں ہیں اورہر گزرتے دن کے ساتھ یہ دباؤ بڑھتا چلا جارہا ہے۔ ان کی حکومت کو کسی مسلح مخالفت کا خطرہ ہوتا توشاید کارکردگی کا دباؤ ان پراس قدر شدید نہ ہوتا لیکن مسلح مخالفت نہ ہونے کی وجہ سے ان سے ایسا کوئی بیانیہ مرتب نہیں ہو پا رہا جس کے ذریعے وہ لوگوں کو سمجھا سکیں کہ وہ آخراقتدار میں آئے کیوں ہیں اورلوگ کیوں ان کی وجہ سے مشکلات برداشت کریں؟ کسی بھی سیاسی مخالفت کے عدم وجود نے ان کیلئے ایسی پیچیدگی پیدا کردی ہے جس سے نکلنا طالبان کیلئے کافی مشکل ہوگا۔
افغان طالبان کا دوسرا مسئلہ پاکستان ہے۔ ایسا نہیں کہ پاکستان ان کیلئے کوئی مشکلات پیدا کررہا ہے بلکہ یہ مسئلہ اس لیے ہے کہ انہیں ملک کے اندراور باہر پاکستان سے نتھی کیا جارہا ہے۔ ان کے مخالفین یہ پروپیگنڈا تواتر سے کر رہے ہیں کہ پاکستان کی مدد کے بغیرطالبان اقتدار میں نہیں آسکتے تھے۔ یہ سیاسی بیانیہ اگر ان کے خلاف جڑ پکڑ جاتا ہے توان کیلئے شمال اور شمال مغرب کے فارسی بولنے والے صوبوں میں حکومت کرنا مشکل ہوجائے گا۔ ان کی اس مشکل کی کچھ ذمہ داری ہم پر یعنی پاکستان پر بھی ہے کیونکہ ہم طالبان کے ساتھ اپنے تعلق کوکوئی سیاسی شکل نہیں دے پارہے۔ جب تک وہ ایک خالص عسکری قوت تھے، ان کے ساتھ تعلقات میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کا کردار اہم تھا۔ اب وہ ایک سیاسی قوت کے طور پر ابھرنے کی کوشش کررہے ہیں، اس لیے انٹیلی جنس ایجنسیوں سے دوری ان کی ضرورت ہے۔ اپنی اس ضرورت کا احساس وہ ڈھکے چھپے الفاظ میں پاکستان کودلا چکے ہیں لیکن ہماری طرف سے ابھی تک ایسا کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیاکہ ان کے ساتھ تعلق کو سیاسی دائرے میں لایا جائے۔ اگر ہم انہیں بدستور ایک عسکری قوت کے طورپر قومی سلامتی کے اداروں کے ذریعے چلانے کی کوشش کرتے رہے تووہ دن دور نہیں جب وہ اپنی داخلی سیاسی ضرورت کے تحت ہم سے فاصلہ اختیار کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔
ان کا تیسرا مسئلہ افغان شہریوں کیلئے پڑوسیوں اور بالخصوص پاکستان سے رعایت حاصل کرنے کا ہے۔ پاکستان کے ساتھ تعلق کا وہ بوجھ تو اٹھا رہے ہیں لیکن پاکستان انہیں وہ سیاسی، سماجی اور اقتصادی رعایت دینے کیلئے تیار نہیں جس کا وہ خود کو حقدار سمجھتے ہیں‘ اور یہ رعایت ہے طورخم بارڈر پر آزادانہ آمدورفت۔ پاکستان 2016 سے پاک افغان سرحد کو خاردار باڑ لگا کر بند کرچکا ہے۔ ہمارے نقطہ نظر سے یہ ہمارا حق ہے کہ اپنی سرحدوں کو محفوظ بنائیں لیکن افغانوں کا خیال بالکل الگ ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان نے باڑ لگاکر دراصل ان پر پشاور اور کوئٹہ کی منڈیوں کے راستے بند کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے مریضوں اور طالب علموں کو بھی مشکل میں ڈال دیا ہے۔ ایمانداری کی بات ہے افغانستان جاکر یہ احساس ہوتا ہے کہ طورخم کے بارڈر پر آزادانہ آمدورفت ہمارے لیے شاید ایک انتظامی فیصلہ ہوتا ہے لیکن افغانستان کیلئے ایک انسانی المیہ بن جاتا ہے۔ اس کے اثرات کی شدت کا اندازہ یوں لگائیے کہ میں نے افغان طورخم سے لے کر کابل تک جتنے بھی لوگوں سے ملاقات کی، ہر ایک نے اپنے اپنے انداز میں پوچھا: طورخم کب کھلے گا۔ پاکستانیوں کے نزدیک طورخم کھلنے کا مطلب سامان تجارت کی آمدورفت ہے مگر افغانوں کے نزدیک طورخم کھلنے کا مطلب عام آدمی کی بغیر ویزاپیدل آمدورفت ہے۔
یہ کافی پیچیدہ سوال ہے کہ ہمیں یہ بارڈر بغیر کاغذات کے پیدل آمدورفت کیلئے کھولنا چاہیے یا نہیں؟ لیکن اس سوال کے کسی حتمی جواب تک ہم چند اقدامات کرکے افغانوں کی زندگی ضروری آسان کرسکتے ہیں مثلاً ہم ایک سال کا ویزہ دینے کے بجائے پانچ سال کا ویزہ جاری کریں، ویزے کے ساتھ طورخم بارڈر کو چوبیس گھنٹے کیلئے کھلا رکھیں، ساٹھ سال سے زائد کے شہریوں کیلئے ویزے کا انتظام طورخم پر ہی کردیں، اٹھارہ سال سے زائد کی تمام خواتین کیلئے یہی سہولت فراہم کردیں، جس کا ویزہ ختم ہوچکا ہو اس کی تجدید طورخم بارڈر پر ہی کردیں، پشاور سے جلال آباد بس سروس شروع کریں اور بس کے ذریعے جانے والوں کی امیگریشن آسان بنا دی جائے۔ ان اقدامات کے علاوہ آخری حد تک دستاویزی آمدورفت کو آسان بنانے کی مسلسل کوشش کی جائے۔ ہمارے اس طرح کے اقدامات جہاں افغانستان میں پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا ختم کرنے میں معاون ہوں گے وہیں طالبان حکومت کے لیے بھی کچھ آسانیاں پیدا ہوں گی۔
افغانستان کے انتظامی، اقتصادی اور سیاسی مسائل اپنی جگہ لیکن وہاں کے بچے کھچے دانشوروں سے بات کرکے یہ احساس بڑی شدت سے ہوتا ہے کہ افغانستان اپنی شناخت کے بحران سے دوچار ہے۔ اس کی تاریخ تضادات سے پُر ہے۔ اس کی واحد پہچان یہ ہے کہ اس پر فلاں فلاں نے حملہ کیا، لیکن کسی دشمن یا اردگرد کے ملکوں کی مداخلت کے بغیر یہ ملک کیا ہے، اس کا اندازہ کسی کو نہیں۔ میں نے کئی لوگوں سے پوچھا کہ اب آنے والا امن برقرار رہتا ہے تو افغانستان کیا صورت اختیار کرے گا؟ کوئی بھی اس سوال کا جواب نہیں دے سکا، حتیٰ کہ سابقہ اور موجودہ حکمران طبقے کے لوگ بھی اس سوال کے جواب میں کچھ نہیں کہہ پائے۔ بہترین شناخت تو وہی ہوگی جس کی خواہش افغانستان کے اندر سے پھوٹے، لیکن اس کی مخصوص جغرافیائی حیثیت اور تاریخ کا تقاضا ہے کہ پاکستان سمیت وسطی ایشیا کے سبھی دانشور سوچیں کہ افغانستان کی نئی صورت کیا ہوگی۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ افغانستان کی سرحدوں سے ہماری سرحدیں ملتی ہیں، اس کے ماضی سے ہمارا ماضی منسلک ہے اور اس کے مستقبل سے ہمارا مستقبل جڑا ہے۔