"HAC" (space) message & send to 7575

سازشی خط کا سچ اور جھوٹ

دو دن پہلے وزیراعظم سے ہوئی صحافیوں کی ملاقات کیلئے اطلاع تین دن پہلے آئی تھی۔ اس اطلاع کے بعد میں یہ سمجھا کہ ان سے ملاقات میں سیاسی حالات پر گفتگو ہوگی، وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر اپنی حکمت عملی بتائی جائے گی اور پھر اس پر تبصرے تجزیے شروع ہو جائیں گے۔ اس ملاقات کیلئے جو وقت مقرر کیا تھا وہ دوپہر دو بجے تھا۔ اس سے پہلے وزیراعظم نے الیکٹرانک پاسپورٹ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرنا تھا۔ وزیراعظم ہاؤس کی طرف نکلنے سے پہلے میں ٹی وی پر یہی خطاب سن رہا تھا کہ اچانک انہوں نے اس مبینہ خط یا مراسلے پر بات شروع کردی جسے وہ ستائیس مارچ کے جلسے میں اپنے خلاف بیرونی سازش کے ثبوت کے طور پر لہرا چکے تھے۔ یکایک انہوں نے اعلان کردیا کہ میں نے ملک کے بہترین صحافیوں کو یہ خط دکھانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ ان کی یہ بات سنتے ہی وزیراعظم سے ملاقات کی غرض و غایت سمجھ آگئی۔ اپنا شمار ملک کے ''بہترین صحافیوں‘‘ میں پاکر مجھے کوئی خوش فہمی اس لیے نہیں ہوئی کہ بہترین صحافی ہونے کا فیصلہ حکمرانوں کے ہاتھ میں نہیں ہوتا بلکہ یہ اعزاز پڑھنے والوں، دیکھنے والوں اور سننے والوں کی طرف سے دیا جاتا ہے؛ البتہ تجسس اپنی آخری حدوں کو چھونے لگا کہ آخروہ خط کیسا ہوگا جس نے ملکی سیاست میں اتنا طوفان برپا کردیا ہے۔ وزیراعظم کی تقریر سن کرمیں وزیراعظم ہاؤس کی طرف چل پڑا لیکن وہاں پہنچ کر پتا چلا کہ ملاقات کا وقت ایک گھنٹہ آگے کردیا گیا ہے۔ میرا تجسس بھڑکنے لگا کہ آخریہ ملاقات مؤخر کیوں ہوئی ہے؟ ادھر ادھر فون گھمائے تو پتا چلا کہ ایوان وزیراعظم میں حکومت کے قانونی شہ دماغ اس بات پر غور کررہے ہیں کہ صحافیوں کو یہ خط دکھانے سے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی تو نہیں ہوگی۔ اس سوال کا ایک جواب یہ آیا کہ صحافیوں سے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت حلف اٹھوالیا جائے تاکہ یہ اس خط کے بارے میں کچھ بھی کہنے کی ذمہ داری خود لیں۔ اس پر اعتراض ہوا کہ اگر وہ حلف اٹھا لیں گے تو کچھ بول نہیں سکیں گے۔ اس سوال کا حتمی جواب ڈاکٹر بابر اعوان نے یہ تلاش کیا کہ صحافیوں سے پہلے یہ خط وفاقی کابینہ میں پیش کیا جائے اور پھر اس کے اندر درج معلومات کا کچھ حصہ اپنے لفظوں میں بتا دیا جائے جبکہ کسی بھی شخص یا ملک کا نام ہرگز ہرگز نہ لیا جائے۔ جب تک یہ فیصلہ اور اس پر عملدرآمد ہوا، ہمیں وزیراعظم سے ملاقات کیلئے انتظار کرتے دوگھنٹے ہوچلے تھے۔ اس دوران کئی ایک ٹی وی چینلز پر یہ خبر بھی نشر ہوگئی کہ وزیراعظم نے صحافیوں سے ملاقات منسوخ کردی ہے۔ ہمیں اپنے چینلوں کے فون آنا شروع ہو گئے۔ حکومتی لوگوں سے پوچھنا شروع کیا تو انہوں نے اس خبر کی کوئی تردید نہیں کی۔ ابھی یہ پوچھ تاچھ چل ہی رہی تھی کہ وزیراعظم کے سٹاف کا ایک افسر ہمیں وزیراعظم کے پاس لے جانے کیلئے آگیا۔
اس ملاقات میں کس نے کیا بتایا‘ یہ سب آف دی ریکارڈ ہے یعنی پیشہ ورانہ اصول کے مطابق میں کوئی نام آپ کو نہیں بتا سکتا۔ جیسے ہی ہم کمرۂ ملاقات میں داخل ہوئے وزیراعظم نے ایک وفاقی وزیر کو بلانے کے لیے کہا۔ وہ فوری طور پر کمرے میں آگئے تو وزیراعظم نے انہیں بولنے کے لیے کہا۔ متعلقہ وزیر نے ہاتھ میں پکڑی فائل کھولی اور فضا میں چند سیکنڈ کیلئے بلند کرکے اس میں لگا ایک کاغذ ہمیں دکھایا اور کہا، یہ ہے وہ خط جو لفظ بہ لفظ وفاقی کابینہ کو پڑھ کر سنایا جاچکا ہے اس لیے اس کی حیثیت اب محض ایک سفارتکار کی خفیہ ڈائری کی نہیں بلکہ ایک سرکاری دستاویز کی ہے۔ چونکہ اسے باقاعدہ طور پر خفیہ قرار دیا گیا ہے اس لیے اس کو چھونے اور پڑھنے کے لیے حکومت کا اعلیٰ عہدیدار ہونا ضروری ہے۔ ظاہر ہے صحافی تو کوئی سرکاری اہلکار ہوتا نہیں اس لیے ہم میں سے کوئی بھی اسے پڑھ نہیں سکتا تھا۔ اس کے بعد وزیر موصوف گویا ہوئے تو ہم سب حیرت زدہ ہو کر انہیں سنتے رہے۔ یہ درست ہے کہ آج کی دنیا میں کسی سرکاری دستاویز کو چھپانا ممکن نہیں رہا‘ اس لیے ہم سب کو اس کے بارے میں بہت کچھ پتا تھا‘ لیکن یہ سب اڑتی پھرتی افواہیں تھیں۔ اب ہمارے سامنے اصل خبر آرہی تھی۔ ہمیں جو بتایا گیا اس کے پانچ بنیادی نکات تھے:
1۔ یہ خط کسی سفارت کار کا تجزیہ نہیں بلکہ ایک ایسی ملاقات کا سرکاری ریکارڈ ہے جو پاکستان سے باہر کسی ملک میں ہوئی۔ اس ملاقات کا مقصد پاکستان کے نمائندے کو متعلقہ ملک کے اعلیٰ ترین سرکاری ادارے کا فیصلہ بتانا تھا۔
2۔ اس ملاقات میں پاکستانی نمائندے کو بتایا گیا کہ وہ ملک پاکستان کی روس اور یوکرین کے حوالے سے پالیسی کو پاکستان کی پالیسی نہیں بلکہ انفرادی طور پر وزیراعظم عمران خان کی پالیسی سمجھتا ہے۔ اس پر پاکستانی نمائندے نے دوسرے ملک کے نمائندے پر واضح کیا کہ یہ پالیسی وزیراعظم کی ذاتی نہیں بلکہ پاکستان کے تمام اداروں سے مشاورت کے بعد بنائی گئی ہے لیکن دوسرے ملک کے نمائندے نے یہ موقف تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔
3۔ دوسرے ملک کے نمائندے نے پاکستانی نمائندے کو کہا کہ جب تک آپ کے وزیراعظم اپنے عہدے پر فائز ہیں، پاکستان کے ساتھ معاملات آگے نہیں بڑھ سکتے۔
4۔ اگر عمران خان تحریک عدم اعتماد کے بعد بھی وزیراعظم رہتے ہیں تو معاملات درست نہیں ہونگے اور پاکستان کو اس کا نقصان برداشت کرنا پڑیگا۔
5۔ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی تو نئی حکومت سے بات چیت بھی ہوگی اور تمام تصفیہ طلب امور پر پیشرفت بھی ہوگی۔
جب یہ پانچ نکات ہمیں بتائے گئے تو یقین جانیے وہاں موجود سبھی لوگوں کا پہلا احساس توہین کا تھا۔ کوئی بھی ملک خواہ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو یہ حق نہیں رکھتا کہ وہ کسی دوسرے ملک سے معاملات طے کرنے کے لیے حکومت کی تبدیلی کی شرط رکھ دے۔ یہ بالکل ایسی ہی بات ہے کہ پاکستان بھارت سے مذاکرات کے لیے یہ شرط رکھ دے کہ بی جے پی کی حکومت ہٹا کر کانگریس کی حکومت بنائی جائے۔ دنیا کے ہر جمہوری ملک میں پالیسیاں اور حکومتیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں، دوسرے ملکوں کے ساتھ تعلقات میں اتار چڑھاؤ بھی آتا رہتا ہے، مذاکرات چلتے بھی رہتے ہیں، رک بھی جاتے ہیں لیکن کسی ملک سے حکومت کی تبدیلی کے مطالبے کا سیدھا مطلب تو یہ ہے کہ تم برضا و رغبت اپنے آپ کو ہمارے حوالے کر دو اور غلام بن کر رہو۔ یہ رویہ تو شاید دنیا کا کمزور ترین ملک بھی برداشت نہیں کرسکتا چہ جائیکہ پاکستان جیسے ایٹمی قوت کے حامل ملک سے یہ مطالبہ کردیا جائے۔ حکومت میں تبدیلی کے اس مطالبے کے پس منظر میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو دیکھا جائے تو صورتحال تشویشناک دکھائی دیتی ہے۔
صحافیوں سے ملاقات کے اگلے روز یہ خط قومی سلامتی کونسل میں بھی پیش کردیا گیا جس میں مسلح افواج کے سربراہان بھی شامل ہیں‘ یعنی اب یہ خط صرف وزارت خارجہ کا ریکارڈ نہیں رہا بلکہ ریاست پاکستان کے سبھی اداروں کے ریکارڈ کا حصہ بن گیا ہے۔ اگر وزیراعظم نے اس کے بارے میں ایک شمہ بھی جھوٹ بولا ہے تو اب وہ چھپ نہیں سکے گا اور اگر یہ سب کچھ سچ ہے تو عمران خان وزیر اعظم رہیں نہ رہیں اس خط کا جواب ان کے بعد آنے والوں کو ہر روز دینا پڑے گا۔ بلا شبہ ہر کسی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس خط کو سچ مانے یا جھوٹ، اسے عمران خان کا سیاسی حربہ قرار دے یا جعلی سمجھے۔ آج کی حقیقت یہ ہے کہ یہ خط بھی موجود ہے اور ہمارے سیاسی حالات میں اس کا کچھ نہ کچھ عمل دخل بھی نظر آتا ہے۔ اور ہاں ایک بار پھر عرض ہے کہ اب یہ خط محض وزیر اعظم عمران خان کا سیاسی موقف نہیں رہا، بلکہ ریاست پاکستان کے سرکاری ریکارڈ پر نقش ہوچکا ہے، جسے جتنا چاہیں کھرچ لیں، یہ مٹے گا نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں