دو دن پہلے چند صحافی دوست ایک افطاری پر اکٹھے تھے۔ افطار کے بعد سب چائے کیلئے بیٹھے تو اچانک ایک دوست نے مجھے مخاطب کرکے حکم دیا، ''مجھے ذرا وہ والی ویڈیو تو بھیج دینا‘‘۔ میں اس حکم پر حیران ہواکہ میری تو ان سے کسی ویڈیو پر کوئی بات نہیں ہوئی اور جس طرح انہوں نے برسر مجلس 'وہ والی‘ کے الفاظ پرزور دیا تھا، اس کی وجہ سے مجھے کچھ خجالت بھی ہوئی۔ مجھے ان کا حکم گراں گزرا مگر میں نے بغیر کوئی احتجاج کیے ان سے ویڈیو کی تفصیل چاہی تو انہوں نے فرمایا، 'وہی عمران خان والی‘۔ اب مجھے اپنی بے خبری پر تعجب ہواکہ عمران خان کے بارے میں کوئی ویڈیو گردش کررہی ہے اور مجھے پتا ہی نہیں۔ میں نے ان سے گزارش کی کہ مجھے اس ویڈیوکے بارے میں مزید کچھ بتائیں۔ ان کے مطابق عمران خان کی کوئی ایسی ویڈیو آچکی ہے جو ان کی شخصیت کیلئے بڑی نقصان دہ ہو سکتی ہے۔ بات ہوئی توپتا چلا کہ اس مجلس میں سوائے میرے سبھی لوگوں کو ایک ایسی ویڈیو کے بارے میں کچھ نہ کچھ پتا تھا جواب تک کسی نے نہیں دیکھی تھی؛ البتہ اس کے ہونے کا سب کو یقین تھا۔ اس مجلس میں مسلم لیگ (ن) کے دو جید کارکن بھی موجود تھے۔ وہ اس ویڈیو کو دیکھے بغیر ہی اس پریقین کیے ہوئے تھے۔ جب انہیں ہم صحافیوں سے بھی مطلوبہ ویڈیو نہ مل سکی تو کچھ مایوس ہوگئے۔ یہ بات ختم ہوئی تو گفتگو کا رخ الیکشن کمیشن میں تحریک انصاف کے فارن فنڈنگ کیس کی طرف مڑگیا۔ وہاں موجود کئی لوگوں کا خیال تھاکہ فارن فنڈنگ کیس سے تحریک انصاف پر پابندی لگ جائے گی، امکانی طور پر عمران خان گرفتار ہوجائیں گے اور تبدیلی کا سلسلہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے رک جائے گا۔
اس مجلس کا احوال سن کرآپ کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ غلط یا صحیح فارن فنڈنگ اور پراسرار ویڈیوز کے چرچے اب گلی محلے تک پہنچ چکے ہیں۔ اس حوالے سے خود عمران خان بھی ایک سے زیادہ بار کہہ چکے ہیں کہ فارن فنڈنگ اور جھوٹی سچی ویڈیوز یا آڈیوز کا سہارا لے کر انہیں بدنام کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ مخالفین یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ اس طرح کی کوئی چیز سامنے آئے تووہ تحریک انصاف کی انتخابی قوت کو اٹھنے سے پہلے ہی تباہ کردیں۔ لوگوں کے ذہن میں عمران خان کے حوالے سے اور کچھ نہیں تو شک ہی ڈال دیں، ان کے کردار پر سوالیہ نشان کھڑے کردیں یا کچھ بھی ایسا کریں کہ وہ آئندہ الیکشن لڑنے کے قابل نہ رہیں۔ توشہ خانہ کے تحائف، ہیلی کاپٹر پر بنی گالہ سے وزیراعظم ہاؤس آنا جانا، فارن فنڈنگ‘ سب اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ سیاسیات اور تاریخ کے ایک طالب علم کے طور پر میں یہ سب دیکھ رہا ہوں تو مجھے انیس سو اٹھاسی کے الیکشن یاد آتے ہیں۔
اس زمانے میں یہ سب کچھ محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف ہوا تھا۔ اس وقت پاکستان کے معاشرتی حالات آج سے کلیتاً مختلف تھے۔ ضیاالحق کے من مانے اقدامات نے معاشرے میں ایک خاص طرح کی سختی پیدا کررکھی تھی۔ جیسے آج خواتین بڑے آرام سے جینز پہنتی ہیں، موٹر سائیکل چلارہی ہیں اس وقت یہ سوچنا بھی محال تھا۔ اس ماحول میں خاتون کے حکمران ہونے کی بحث، محترمہ کی نوجوانی کی تصویریں، محترمہ نصرت بھٹو کی کسی دعوت کی تصویریں، ذوالفقار علی بھٹو کے بیانات میں سے کچھ فقرے جو سیاق و سباق سے الگ کرکے نکالے گئے تھے، عالمی طاقتوں سے محترمہ کے تعلقات کی کہانیاں اور ان سب سے بڑھ کر غلاظت میں لتھڑے ہوئے نعرے پیپلزپارٹی کے خلاف الیکشن کمپین کا مواد تھے۔ یہ انتخابات نومبر میں ہوئے تھے اور ستمبر میں بلاول بھٹو پیدا ہوئے تھے، یعنی اس عرصے میں محترمہ زچگی کے آخری مراحل سے گزر رہی تھیں‘ لیکن ان کے خلاف پاکستان کی تاریخ کی یہ غلیظ ترین مہم اسی طرح جاری رہی۔ جنہوں نے وہ زمانہ دیکھ رکھا ہے مجھے یقین ہے کہ آج انہیں اس مہم میں محترمہ اور پیپلزپارٹی کے خلاف لگائے گئے نعرے دہرانے کو کہا جائے تو کوئی دہرا نہ سکے۔ اس مہم کے علاوہ اسٹیبلشمنٹ کا بنایا ہوا اسلامی جمہوری اتحاد اس زمانے کی کنگزپارٹی تھا اور ریاستی سطح پر اسے ہرطرح کی مدد میسر تھی بلکہ اس سے زیادہ مدد کیا ہوگی کہ خود نواز شریف پنجاب میں نگران وزیراعلیٰ بھی تھے اورپیپلزپارٹی کے خلاف الیکشن بھی لڑرہے تھے۔ یہ سب کچھ ہونے کے باوجود بے نظیر بھٹو الیکشن جیت کر حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئیں۔ ان کی حکومت بدعنوان، نااہل اور قومی سلامتی کیلئے خطرہ قرار دے کرختم بھی کی گئی، پھر سے الزامات دہرائے گئے لیکن وہ دوبارہ اقتدار میں آگئیں۔
نواز شریف کے ساتھ بھی بہت کچھ ہوا مگر اتنا نہیں جتنا محترمہ کے ساتھ ہوا۔ ان پر کرپشن کے الزامات ایک تواتر سے لگتے رہے۔ ان کی پہلی حکومت کرپشن کی فرد جرم پرہی نکالی گئی۔ 1999 میں ان کی دوسری حکومت ختم ہوئی تو لاہورمیں ان کے گھروں سے ایسی ایسی اشیا برآمد کرا کر دکھائی گئیں کہ اب ان کا کوئی ذکر بھی کرے تو گھن آئے۔ وہ جلا وطن ہوئے تو کچھ عرصے بعد لاہور ایئرپورٹ کے افتتاح کیلئے جنرل پرویز مشرف کے ساتھ اس وقت کے وزیر خزانہ شوکت عزیز بھی آئے۔ میں نے شوکت عزیز سے نواز شریف اور محترمہ کی وطن واپسی کے بارے میں پوچھا تو وہ ہنس کر بولے: ان کی کہانی ختم سمجھو۔ ہم دونوں ایئرپورٹ کے اندر ہی جنرل پرویز مشرف کے عین پیچھے چل رہے تھے۔ جب شوکت عزیز نے بلند آواز سے کہا، ''ان کی کہانی ختم سمجھو‘‘ تو جنرل مشرف نے پیچھے گردن موڑی اور ہنس کے پوچھا، ''شوکت کس کی کہانی ختم ہوگئی‘‘۔ شوکت عزیز نے میری طرف دیکھ کر کہا، ''صدر صاحب سے پوچھو‘‘۔ میں نے اپنا سوال دہرا دیا تو جنرل مشرف نے ایک زوردار قہقہہ لگایا اور کہا، ''اب وہ کبھی نہیں آئیں گے، وہ ماضی کا قصہ ہیں‘‘۔ کچھ عرصے بعد ہم نے محترمہ اور پھر نواز شریف کو وطن آتے بھی دیکھا اور جنرل مشرف کو جاتے بھی۔
عمران خان پاکستانی تاریخ کے پہلے شخص نہیں جن پر الزامات لگ رہے ہیں یا لگانے کی تیاری ہورہی ہے۔ کسی بھی تجربہ کار صحافی سے پوچھ لیجیے‘ وہ ایسے الزامات کی فہرست مہیا کردے گا جو آئندہ کچھ عرصے میں ان پر لگائے جائیں گے۔ اس فہرست کے حصول کیلئے اسے کسی احتسابی دفترنہیں جانا پڑے گا بلکہ وہ اپنی یادداشت کے سہارے ہی اسے تیار کرلے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت سے نکالے جانے والوں پر الزامات کبھی نہیں بدلے اوراکثر اوقات تو الزام لگانے والے بھی نہیں بدلے۔ تھوڑی زور زبردستی کرکے یہ الزام ثابت بھی کردیے جاتے ہیں لیکن وقت بدلتا ہے اور سب کچھ بدل جاتا ہے۔ پاکستانیوں نے انیس سو ترانوے میں جناب آصف علی زرداری کوجیل سے نکل کراس نگران کابینہ میں وزیر بنتے بھی دیکھا جس کی نگرانی میں کرائے گئے الیکشن میں محترمہ بے نظیر بھٹو دوسری بار وزیراعظم بنی تھیں۔ اتنا پیچھے جانے کی بھی کیا ضرورت ہے، ابھی دیکھ لیجیے کہ منی لانڈرنگ، کرپشن اور نجانے کس کس الزام کے پھندے سے نکل کر شہباز شریف وزیراعظم بن گئے ہیں، حمزہ شہباز پنجاب کے وزیراعلیٰ منتخب ہوچکے ہیں، آصف علی زرداری دوبارہ حکمرانوں میں سے ایک ہیں۔
پاکستان میں الزامات کی کہانی نئی نہیں۔ یہاں مقبول سیاستدانوں پر غیرمسلم ہونے سے لے کر بدعنوانی تک کچھ بھی الزام لگ سکتا ہے۔ عمران خان پر بھی یہ سارے الزام ایک ایک کرکے لگیں گے کیونکہ الزام لگانے والے یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ وقت بدل چکا ہے۔ عمران خان کی سیاست اس نفسیاتی حد سے کہیں آگے نکل چکی ہے جہاں کوئی الزام اس کا کچھ بگاڑ سکتا ہے۔ ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا بندوبست کرنے والوں کو اپنی کامیابی کے بعد شکست کا احساس ہوا ہے۔ اب ان کے پاس اس کے سوا کوئی حربہ نہیں بچا کہ وہ پرانے الزامات لے کرمیدان میں آجائیں۔ انہیں تو کوئی یہ سمجھانے والا بھی نہیں کہ فی الحال فارن فنڈنگ کیس ہو یا کوئی آڈیو ویڈیو، عمران خان کا کچھ بگڑنے والا نہیں۔ ابھی تو عمران خان کے اٹھائے ہوئے سوالوں کے جواب ہی دینا پڑیں گے۔