عمران خان سے بطور وزیراعظم جب کبھی ملاقات ہوئی تو کسی نہ کسی نے ان سے عثمان بزدار کے حوالے سے ضرور پوچھا۔ انہوں نے ہر دفعہ ایک ہی جواب دیا 'عثمان بزدار ایک بہترین وزیر اعلیٰ ہیں‘۔ میں نے یہ سوال ماضی میں کبھی نہیں کیا کیونکہ میری ہمیشہ سے یہ رائے تھی کہ بزدار کو ہٹانے کے بعد پنجاب تحریک انصاف کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ دودن پہلے لاہور میں کچھ صحافیوں کے ساتھ ان کی ملاقات میں بھی یہی سوال اٹھا کہ آخر عثمان بزدار ہی کیوں؟ عمران خان کے سامنے شاہ محمود قریشی بیٹھے تھے، انہوں نے سابق وزیرخارجہ کی طرف دیکھا، ایک لمحے کیلئے خاموش ہوئے پھر کہا، ''دوہزار اٹھارہ میں پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لیے ہمارے امیدوار شاہ محمود قریشی تھے، جب انہیں صوبائی اسمبلی کا الیکشن ہروا دیا گیا تو پھر کوئی ایسا نہ رہا جسے پنجاب اسمبلی کا اعتماد کا ووٹ مل سکے۔ عثمان بزدار واحد آدمی تھے جو کسی گروپ سے منسلک نہیں تھے‘ اس لیے ان پرپارٹی کے سبھی گروپوں نے اعتماد کا اظہار کردیا‘‘۔ عمران خان یوں بول رہے تھے جیسے کوئی کہانی سنا رہے ہوں لیکن مجھے رہ رہ کر خیال آرہا تھا کہ شاید اپنی صفائی میں کہہ رہے ہیں۔ انہوں نے بات جاری رکھی اور کہا، ''عثمان بزدار دراصل عارضی بندوبست کے طور پر لائے گئے تھے۔ ان کے انتخاب کے بعد مصیبت یہ بن گئی کہ جب بھی انہیں بدلنے کیلئے متبادل کی بات ہوتی تو کوئی گروپ متبادل کے بجائے بزدارکی حمایت میں تن کر کھڑا ہوجاتا۔ دوہزار انیس میں ایک موقع ایسا بھی آیا تھا جب علیم خان کو وزیراعلیٰ بنانے کی تیاری ہوگئی تھی مگراگلے دن ہی انہیں گرفتار کرلیا گیا‘‘۔ میں پوچھنے ہی والا تھاکہ علیم خان کی گرفتاری کا فیصلہ کس کا تھا کہ سابق وزیراعظم خود ہی بول پڑے، ''علیم خان کو میں نے گرفتار نہیں کرایا تھا چاہے وہ الزام مجھ پر ہی لگاتے رہیں لیکن انہیں گرفتار 'کسی‘ اور نے کرایا تھا‘‘۔ عمران خان کے بقول جب مرکز میں ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی تو ایک بار پھر علیم خان کو وزیراعلیٰ بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ فیصلہ علیم خان کو سنانے کیلئے فون کیا جانے لگا تو وہ ٹی وی پر یہ اعلان کرتے دکھائی دیئے کہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ کیلئے حمزہ شہباز کی حمایت کریں گے۔ یہ اعلان سن کر فون رکھ دیا گیا اور پرویز الٰہی امیدوار بن گئے۔ پرویزالٰہی کی وزارت اعلیٰ کیلئے کچھ مشترکہ دوستوں نے ذمہ داری اٹھائی تھی جن کا چودھری خاندان کے ساتھ بھائیوں والا تعلق تھا۔ ان بھائیوں نے عین موقع پر برادرانِ یوسف کا کردار ادا کیا اور چودھری پرویز الٰہی تنہا رہ گئے‘‘۔
جہانگیر خان ترین اور علیم خان سے اختلافات کے بارے میں بات ہوئی تو عمران خان نے جو کچھ بتایا، اس سے یہ مطلب اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ان دونوں نے کچھ ایسا کیا ہے جو دراصل بدعنوانی کی زمرے میں آتا ہے۔ ایک کے بارے میں انہیں یقین ہے کہ انہوں نے اپنے حکومتی اثرورسوخ کو چینی کی قیمتیں اوپر نیچے کرنے کیلئے استعمال کیا۔ اس اونچ نیچ سے اتنے پیسے کمائے گئے جو کئی نسلوں کیلئے کافی ہیں۔ دوسرے کے بارے میں وہ بڑے اعتماد سے ایک ایسی زمین کی بات کرتے ہیں جو اگرسرکاری قواعد و ضوابط سے گزر جائے تو اس کی مالیت دو سو ارب روپے ہو سکتی ہے۔ چونکہ یہ زمین اصل میں سرکار کی ملکیت ہے اور قانونی طور پر بیچی یا خریدی نہیں جا سکتی، مگر اس کا خریدار اسے ہر قیمت پر قانونی قرار دلوانا چاہتا ہے۔ یہ دونوں معاملات ہی دراصل آزمودہ دوستوں سے علیحدگی کی وجہ بنے۔ ایک موقع پر 'کسی‘ نے عمران خان کو مشورہ دیا تھاکہ ان سے صلح کرلی جائے کیونکہ وہ آپ کے پرانے دوست ہیں۔ کہنے والے کو جواب ملا، ''اگر میرے دوستوں نے میری سیاسی مدد اس لیے کی تھی کہ وہ غیرقانونی کام کرسکیں تو اس سے کہیں بہترتھا کہ میں حکومت میں ہی نہ آتا‘‘۔ اس جواب کے بعد کہنے والے خاموش ہوگئے مگر انہوں نے اپنی کوششیں جاری رکھیں جس کے نتیجے میں جہانگیر ترین اور علیم خان کو کچھ رعایتیں مل گئیں۔
عمران خان کو اگر اپنی کسی غلطی کا شدت سے احساس ہے تو وہ دوہزار اٹھارہ کے الیکشن کے بعد حکومت بنانا ہے۔ انہیں بار بار یہ احساس تنگ کررہا ہے کہ انہوں نے 'کسی‘ پر بھروسا کرکے حکومت آخر بنائی ہی کیوں۔ وہ کہہ رہے تھے کہ ساڑھے تین سال کی حکومت ان کی زندگی کا تلخ ترین تجربہ رہی کیونکہ اتحادیوں نے ان کا جینا دوبھر کیے رکھا۔ پنجاب میں چودھری پرویز الٰہی ان کے منصوبوں پر پانی پھیر رہے تھے اور وفاق میں یہی کام دیگر اتحادی کررہے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ کسی وقت اسمبلی توڑکر الیکشن کرا دیں لیکن بگڑی ہوئی معیشت، کورونا اور دنیا بھر میں مہنگائی کی شدید ترین لہر نے انہیں یہ قدم نہیں اٹھانے دیا۔ وہ معیشت کی طرف توجہ کرتے تھے تو گورننس بگڑنے لگتی اور گورننس پر توجہ دیتے اتحادیوں کے نخرے آڑے آجاتے۔ ایک مخلوط حکومت نے انہیں تجربے کی جس بھٹی سے گزارا ہے، یہ اس کا نتیجہ ہے کہ عمران خان اب چاہتے ہیں کہ انہیں واضح اکثریت کے ساتھ حکومت ملے اور وہ بیّن ترجیحات کے ساتھ ریاست اور معاشرے میں وہ بنیادی تبدیلیاں کر گزریں جس کا خواب وہ خود دیکھتے ہیں اور دکھاتے ہیں۔
عمران خان کے مطابق انہیں حکومت میں رہ کر ایک اہم تجربہ یہ بھی ہواکہ شریف خاندان کی طویل حکومت کی وجہ سے بیوروکریسی کا ایک بڑا حصہ دراصل اسی خاندان کے مفادات کا محافظ ہے۔ بیوروکریسی کا یہی حصہ دراصل کسی دوسری حکومت کو چلنے نہیں دیتا۔ جو لوگ بیوروکریسی کے نون گروپ کا حصہ نہیں وہ اتنے خوفزدہ رہتے ہیں کہ وہ اس خاندان کے کارناموں کی تفتیش بھی ٹھیک سے نہیں کرسکتے۔ اس خوف کی وجہ یہ ہے کہ پرویز مشرف کے دور میں جن افسروں نے شریف خاندان کی تفتیش کرنے کی کوشش کی، انہیں نون لیگ کی حکومت کے دور میں تنگ کیا گیا۔ بیوروکریسی کے بارے میں عمران خان کا مشاہدہ کہیے یا بدگمانی، وہ اپنے تجربے سے یہی سمجھے ہیں کہ آئندہ اگر انہیں حکومت کا موقع ملتا ہے تو وہ کوئی ایسی ٹیم ترتیب دیں گے جو ان کی ترجیحات اور ایجنڈے کے مطابق ریاست کا کاروبار چلائے۔
اس ملاقات سے پہلے میں یہ سمجھ رہا تھا کہ عمران خان شاید غصے کا شکار ہوں گے۔ ان سے ملنے کے بعد غصے کا تاثر تو بالکل زائل ہوجاتا ہے۔ وہ ایسے سیاستدان کے طور پر نظرآئے جس کی نظر مستقبل پر ہے اور حکومت کے آنے جانے کے تجربے نے انہیں اس سے کہیں مختلف بنا دیا ہے جو وہ دوہزار اٹھارہ میں تھے۔ وہ ہاتھ کی انگلیوں پر گن کر بتا رہے تھے کہ آئندہ وہ کیا کیا کام کرنا چاہتے ہیں اوران کے منصوبوں پر عملدرآمد کی کیا صورت ہوگی۔ میں نے ان سے پوچھا: یہ جوآپ بار بار نام لیے بغیر، 'کسی نے کہا‘، 'دوست کام نہ آئے‘، 'کسی نے جھوٹ بولا‘ کہتے ہیں، آخر نام کیوں نہیں لیتے؟ ان کے چہرے پر ناراضی کا ایک رنگ سا آکر گزرا اور ساتھ ہی ہنس کر کہا، 'میں اس ملک کا وزیراعظم رہا ہوں، میں نے سب کچھ جانتے بوجھتے بہت سے لوگوں کے جھوٹ برداشت کیے ہیں۔ میں اپنے ملک کیلئے اب بھی خاموش ہی رہنا چاہتا ہوں‘۔ اس کے بعد انہوں نے کچھ بتایا لیکن میری ہمت نہیں کہ میں لکھ دوں یا بول دوں۔ عمران خان بطور سابق وزیراعظم اپنی ذمہ داری کی وجہ خاموش رہنا چاہتے ہیں تو میں اپنی کم مائیگی کی وجہ سے خاموشی میں ہی عافیت محسوس کرتا ہوں۔ ہاں میں اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ ان کے ساتھ کسی نے جو بھی اچھائی یا برائی کی ہے، وہ اسے اچھی طرح جانتے ہیں۔