"HAC" (space) message & send to 7575

شہباز شریف کا اصل مسئلہ

پچھلے اتوار لاہور میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے دفتر میں وزیراعظم شہباز شریف صحافیوں کو بتا رہے تھے کہ ملک جن معاشی مشکلات کا شکار ہے ‘ ان سے نکلنے کے لیے غیر معمولی اقدامات کرنا ہوں گے۔ جب وہ مشکلات کی فہرست گنوا رہے تھے توان کی گفتگو سے یہ محسوس ہورہا تھا کہ بلا شبہ پاکستان کو اس وقت گمبھیر معاشی مسائل کا سامنا ہے لیکن حکومت ان سے نجات کا جو راستہ بھی اختیار کرتی ہے‘ وہ عمران خان نے بند کردیا ہے۔ مثال کے طور پر پٹرول کی قیمتیں ہی لے لیجیے‘ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ عمران خان نے اپنی حکومت جاتے دیکھ کر پٹرول کی قیمت کم کرکے نئی حکومت کے لیے ایسا جال بچھا دیا جس میں پھنس کر اب ہم پھڑپھڑا رہے ہیں۔ اس کے ساتھ سیاسی ماحول ایسا ہے کہ حکومت دوست ملکوں سے مدد کی درخواست کرتی ہے تو جواب میں پوچھا جاتا ہے کہ آپ کتنی دیر تک حکومت میں رہیں گے؟ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے دوست بھی پاکستان کے سیاسی حالات پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور زیادہ سے زیادہ چودہ مہینے کے لیے قائم اس حکومت کی مدد کرکے خود کو کسی فریق سے نتھی کرنے سے گریز کررہے ہیں۔ کسی نے پوچھا :آپ نے آتے ہی تیل کی قیمتیں کیوں نہ بڑھا دیں؟ وزیر اعظم نے کہا:اگر ہم ایسا کرتے تو عمران خان عوام کو بتا رہے ہوتے کہ دیکھو آپ کا خون چوسنے والے آگئے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ اگر تحریک انصاف کو واقعی غریبوں کی پروا ہوتی تو وہ اپنی حکومت کے ساڑھے تین سالوں میں کچھ کرتی ‘ جاتے جاتے پٹرول کی قیمتوں میں کمی کا مقصد دراصل آنے والی حکومت کو مشکل میں ڈالنے کے سوال کچھ نہیں تھا جبکہ پچھلی حکومت کو یہ بھی علم تھا کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں پانچ ہزار پانچ سو ارب روپے خسارے کا سامنا کرنا ہوگا۔ جب وزیر اعظم ملکی معیشت کی یہ پریشان کن تصویر ہمیں دکھا رہے تھے تو ایک سینئر صحافی نے انہیں مخاطب کرکے کہا:جناب اس کا مطلب یہ ہے کہ عمران خان جس سازش کا ذکر کرتے ہیں وہ ان کے خلاف نہیں بلکہ آپ کے خلاف ہوئی تاکہ آپ حکومت میں آکر کچھ نہ کرپائیں۔
وزیراعظم شہباز شریف کی گفتگو میں عمران خا ن کا تذکرہ اتنی بار اور اتنے تلخ لہجے میں ہوا کہ وہاں بیٹھے سبھی لوگوں کو معلوم ہو گیا کہ حکومت کا اصل مسئلہ معیشت نہیں عمران خان ہیں۔ اقتدار میں آنے سے پہلے شہباز شریف‘ آصف علی زرداری ‘ مولانا فضل الرحمن اور دیگر کو یقین تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت ختم ہوگئی تو اس کے بعد یہ جماعت تاش کے پتوں کی طرح بکھر جائے گی۔ عمران خان نے توقعات کے بالکل برعکس اس معاملے کو اسمبلیوں میں طے کرنے کے بجائے عوامی سیاست کے ذریعے نمٹانے کی جارحانہ حکمت عملی اپنا لی اور اپنے مخالفین کو ایک بیرونی سازش کا آلہ کار قرار دینا شروع کردیا۔ ابتدائی طور پر ان کے الزامات کو تسلیم کرنے والے کم تھے۔ اپنی حکومت کے آخری دو ہفتوں کے اندر انہوں نے اس الزام کو مکمل سیاسی بیانیے میں بدل ڈالا جو موجودہ سیاسی صورتحال کی غلط یا صحیح مکمل تشریح کرتا ہے۔ ان کی حکمت عملی ان کی حکومت تو نہیں بچا سکی مگر حکومت کے خاتمے کے اگلے دن یعنی دس اپریل کو ملک بھر کے شہروں میں جو ردعمل دیکھنے میں آیا اس نے بہت کچھ ہلا کر رکھ دیا۔انہوں نے صرف ایک مہینے کے اندر موجودہ حکومتی بندوبست پر اس قدر دباؤ ڈال دیا ہے کہ عمران خان سب سے بڑی سیاسی حقیقت لگنے لگے ہیں اور حکومت محض ایک گم ہوتا ہوا سایہ۔ نئی حکومت بار بار کوشش کرتی ہے کہ سیاسی بیانیے کو تحریک انصاف کی حکومتی کارکردگی تک محدود کیا جائے لیکن عمران خان نے بیرونی سازش یا مداخلت کو سیاسی مکالمے کا اہم ترین جزو بنا دیا ہے۔ ان کا بیانیہ دراصل باریک سوراخوں کا ایسا مضبوط جال ہے جس میں پھنس جانے والا جتنا چاہے تڑپ لے‘ اس سے نکل نہیں سکتا۔ ان کے لہجے کی شدت بتا رہی ہے کہ اب وہ کسی سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں نہ الیکشن کے سوا کسی درمیانی صورت کو قبول کرنے کے لیے۔
سیاست اور معیشت کا باہمی تعلق آج کی دنیا میں کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ان دونوں میں سے کسی ایک کی خرابی دوسرے کو تبا ہ کردیتی ہے۔ پچھلی تین صدیوں میں انسانوں نے جمہوریت پوری طرح سیکھی ہو یا نہ سیکھی ہو مگر یہ ضرورسیکھ لیا ہے کہ معیشت درست رکھنے کے لیے حکومتی نظام کو سیاسی ابہا م سے پاک رکھنا چاہیے۔ پاکستان میں کوئی مانے نہ مانے ہمیں ایک سیاسی ابہام کا سامنا ہے۔ ایک طرف ایسی حکومت ہے جو بظاہر دستور کے تمام تقاضے پورے کرتے ہوئے وجود میں آئی ہے مگر اس کے پاس کام کرنے کے لیے پانچ سال کے بجائے صرف پندرہ مہینے ہیں۔ دوسری طرف پارلیمنٹ کی سب سے بڑی پارٹی ہے جو چھوٹے چھوٹے اتحادیوں کے ساتھ چھوڑ جانے کی وجہ سے حکومت سے نکال دی گئی ہے۔ بظاہر دستوری طور پر اس بندوبست میں کوئی کمی نظر نہیں آتی لیکن یہ سب کچھ سیاسی حقائق کے ساتھ میل نہیں کھاتا اور یہیں سے سیاسی ابہام پیدا ہورہا ہے۔ ہم اپنے دوست ملکوں کو جو چاہے سمجھانے کی کوشش کرتے رہیں‘ جو کچھ پاکستان میں ہورہا ہے وہ اسے سیاسی بے یقینی سے ہی تعبیر کریں گے اور بے یقینی کے اس ماحول میں اپنے دستوری جواز پر اصرار کرنے والی نئی حکومت کی مدد کے لیے کوئی آگے نہیں آئے گا۔
وزیر اعظم شہباز شریف سے صحافیوں نے سوال جواب کرنا شروع کیے تو انہیں کہنا پڑا کہ مجھے حکومت میں آئے صرف انتیس دن ہوئے ہیں‘ حساب کتاب پچھلے ساڑھے تین سالوں کا بھی ہونا ہے۔ ان کی بات مان لی جاتی اگر انہوں نے الیکشن جیت کر حکومت بنائی ہوتی۔ مسئلہ یہ ہے کہ پچھلے ساڑھے تین برسوں میں شہبازشریف اور ان کے اتحادیوں نے مہنگائی کو عمران خان کی نااہلی اور نالائقی سے جوڑ کر اپنا سیاسی موقف تشکیل دیا تھا جبکہ عمران خان مہنگائی کا سبب عالمی قیمتوں کو قرار دیا کرتے تھے۔ آج شہباز شریف حکومت میں آکر جب مہنگائی کا تعلق عالمی منڈی سے جوڑتے ہیں تو ان کے موقف میں وہ تضاد پیدا ہوجاتا ہے جس کا فائدہ عمران خان اٹھا رہے ہیں۔ویسے یہ ایک درست سوال ہے کہ اگر سابقہ حکومت کی طرح موجودہ حکومت بھی عالمی منڈیوں کے ہاتھوں مجبور ہے تو پھر حکومت میں تبدیلی کرنے کا فائدہ کیا ہوا؟ جب اس سوال کا مکمل جواب نہیں ملتا تو نہ صرف سیاسی بے چینی پیدا ہوتی ہے بلکہ دنیا بھی پاکستان کو سیاسی عدم استحکام کا شکار ملک سمجھنے لگتی ہے‘ یعنی ایسا ملک جہاں سیاسی تبدیلیاں محض اس وجہ سے آجاتی ہیں کہ وزیراعظم کی شکل کسی کو پسند نہیں۔ ظاہر ہے جہاں سیاسی عدم استحکام ہو‘ وہاں معیشت کا استحکام خواب و خیال سے زیادہ کچھ نہیں۔
جن دنوں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی منظوری کی کوششیں ہورہی تھی‘ اسلام آباد کی ایک بیٹھک میں مسلم لیگ (ن) کے چند اراکینِ قومی اسمبلی سے میری ملاقات ہوئی۔ ان میں سے ایک کے سوا سبھی اراکین مجھے بتا رہے تھے اگر عمران خان کی حکومت گر اکر مسلم لیگ (ن) اقتدار میں آگئی تو اسے عالمی مہنگائی کا بوجھ اٹھانا پڑے گا اس بوجھ کے ساتھ ہم الیکشن نہیں جیت سکیں گے۔صرف ایک کا خیال تھا کہ عمران خان کی حکومت گرا کر مسلم لیگ (ن) کو فائدہ ہوگا۔ وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کے بعد اگلے روز ہی میں اسلام آباد چلا گیا۔ وہاں اتفاق سے دوبارہ انہی اراکینِ اسمبلی سے ملاقات ہوگئی۔ اب کی بار وہ صاحب جو عمران خان کی حکومت گرانے کے لیے ہر حد تک جانے کے لیے تیار تھے‘ کچھ بجھے ہوئے نظر آئے۔ میں نے آزردگی کی وجہ پوچھی تو کہنے لگے: ہم بری طرح پھنس گئے ہیں‘ ہم سے حکومت ‘ معیشت اور عمران خان کچھ بھی نہیں سنبھل رہا۔ میں نے پوچھا : پھر یہ کیوں کیا تھا؟ بولے: ہمیں پتا ہی نہیں تھا کہ عمران خان اتنا بڑا مسئلہ بن جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں