نبی محترمؐ کی ولادت اور رحلت دونوں ماہِ ربیع الاول میں ہوئیں۔ آپ کی 63سالہ حیاتِ عارضی ابتلا وآزمائش، جدوجہد اور محنت، کامیابی و کامرانی کا حسین امتزاج ہے۔ آپؐ کے ساتھ تمام صحابہ و صحابیات نے بھی خود کو رضائے الٰہی اور حصولِ جنت کے لیے وقف کردیا تھا۔ ہم محض عقیدت کا دعویٰ کرتے ہیں صحابہؓ نے اطاعت کا نمونہ بن کر دکھا دیا۔ نبی اکرمﷺنے ارشاد فرمایا کہ اللہ کا سودا بہت مہنگا ہے اور جان لو کہ اللہ کا سودا جنت ہے۔ ظاہر ہے کہ جتنی کوئی چیز قیمتی ہوگی، اتنی ہی مہنگی بھی ہوگی۔ جنت میں ایک کوڑا رکھنے کی جگہ دنیا و مافیہا سے بہتر ہے۔ نبی اکرمﷺاور آپؐ کے صحابہؓ نے زندگی بھر جومشکلات برداشت کیں، وہ جنت ہی کی خاطر تھیں۔ دنیا کی کامیابیاں تو اللہ کی طرف سے ایک بونس تھا۔ آپؐ کی حیاتِ طیبہ میں تبوک کا معرکہ مشکل ترین تھا۔ قرآن پاک نے بھی اسے غزوۂ عسرۃقرار دیا ہے۔ اللہ نے حکم دیا: ''نکلو[اللہ کی راہ میں]، خواہ ہلکے ہو یا بوجھل، اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ، یہ تمھارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو ‘‘ (توبہ9:41)۔صحابیات نے جہاد کے لیے چندہ دینے میں ایسی مثالیں قائم کیں کہ جو تاقیامت یادگار رہیں گی۔ انھوں نے اپنے زیورات اتار کے آنحضورؐ کی خدمت میں بھجوا دیے اور کئی خواتین یہ کہتی ہوئی سنی گئیں کہ ہمارا اصل زیور تو اسلام ہے۔ اگر اسلام کو کوئی گزند پہنچے اور ہم اپنے زیور سنبھال کر بیٹھی رہیں تو تف ہے ہمارے ایمان پر۔
مال دار صحابہ نے اپنا مال بے دریغ اللہ کے راستے میں پیش کیا مگر مفلس و غریب صحابہ بھی پیچھے نہ رہے۔ قبیلہ بنو اسلم سے تعلق رکھنے والی صحابیہ حضرت ام سنانؓ بیان فرماتی ہیں کہ جب آنحضورؐ نے غزوۂ تبوک کے لیے مالی امداد کی اپیل کی تو بہت سی عورتوں نے جن کے پاس کچھ نقدی تھی، ساری نقدی اللہ کے راستے میں لٹا دی۔ جن کے پاس اس وقت نقد رقم نہ تھی، انھوں نے اپنے زیورات پیش کر دیے۔ آنحضورؐ نے خواتین سے فرمایا کہ وہ عائشہ صدیقہؓ کے گھر میں آکر اپنی اعانتیں جمع کروائیں۔ سیدہ عائشہؓ کے گھر میں ایک چادر بچھا دی گئی تھی۔ حضرت ام سنانؓ کہتی ہیں کہ جب میں گھر میں داخل ہوئی تو دیکھا کہ اس چادر پر ہاتھی دانت اور سونے ، چاندی کے زیورات کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ ہاتھوں کے کنگن اور بازو بند بھی تھے، پائوں کی پازیبیں، کانوں کی بالیاں اور انگوٹھیاں بھی تھیں۔ اگرچہ مدینہ منورہ میں معاشی حالات خاصے پریشان کن تھے مگر اہلِ ایمان کا جذبۂ انفاق پورے جوبن پر تھا۔
حضرت عثمان بن عفانؓ آنحضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اشرفیوں سے بھری ہوئی ایک تھیلی آپ کے سامنے ڈھیر کر دی۔ یہ ایک ہزار اشرفی تھی، جو غزوۂ تبوک کے لیے ذوالنورینؓ نے پیش کی۔ آنحضورؐ اشرفیوں کو پکڑ کر خوشی سے الٹ پلٹ کر رہے تھے اور دعا فرما رہے تھے: اے اللہ تو عثمان سے راضی اور خوش ہوجا بلاشبہ اس نے مجھے خوش کر دیا ہے۔ حضرت عثمانؓ کو آپؐ نے جب مزید ترغیب دی تو انھوں نے عرض کیا: ''یا رسول اللہﷺمیں ایک سو اونٹ سازوسامان کے ساتھ جہاد کے لیے پیش کرتا ہوں۔‘‘ آپؐ بہت خوش ہوئے اور فرمایا: ''اللہ تجھے برکت دے۔‘‘ آپؐ مزید ترغیب دیتے رہے اور حضرت عثمانؓ مزید اونٹ پیش کرتے رہے۔ روایات کے مطابق تین سو سے آٹھ سو تک ان اونٹوں کی تعداد بیان کی گئی ہے۔ آنحضورؐ مسجد سے باہر نکلے اور اونٹوں کی گردنوں پر ہاتھ پھیرنے لگے۔ آپؐ مسلسل کہے جارہے تھے کہ عثمان نے اتنا بڑا کارِ خیر کیا ہے کہ اللہ کی طرف سے اس کے لیے جنت کا وعدہ ہے۔ وہ جو عمل بھی کرے گا، اس کا کوئی مواخذہ نہیں ہوگا۔ (البدایۃ والنھایۃ)
حضرت عمر فاروقؓ نے اپنی ساری دولت کا نصف اللہ کے راستے میں پیش کر دیا۔ یارِ غار حضرت ابوبکر صدیقؓ نے گھر کا سارا اثاثہ لا کر پیش کر دیا۔ جب پوچھا گیا کہ گھر میں کیا چھوڑا ہے تو عرض کیا: '' اللہ اور اللہ کے رسول کی محبت۔‘‘ حضرت عبدالرحمان بن عوفؓ نے سونے چاندی اور درہم و دینار کی تھیلیاں لا کر پیش کیں۔ جب اللہ کے رسولؐ نے پوچھا کہ کتنے دینار اور کتنا سونا ہے تو عرض کیا: '' یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ مجھے بے حساب دیتا ہے، مجھے اس بات سے شرم آتی ہے کہ میں اس کے راستے میں گن گن کر دوں۔ میں نے تو بغیر گنے اور بغیر تولے اللہ کی راہ میں یہ حصہ پیش کر دیا ہے۔‘‘ آپؐ بہت خوش ہوئے اور فرمانے لگے: اللہ تیرے دیے ہوئے میں بھی برکت عطا فرمائے اور جو تو نے پیچھے گھر میں چھوڑا ہے اللہ اس میں بھی برکت دے۔ (تفسیر ابن کثیر سورۃ توبہ )
حضرت طلحہ بن عبید اللہؓ، حضرت عباس بن عبد المطلبؓ ، حضرت سعد بن عبادہؓ اور حضرت محمد بن مسلمہؓ انصاری سبھی صحابہ نے دل کھول کر مال پیش کیا اور رسول اللہ نے ان سب کی تعریف کی اور ان کی مغفرت کی دعائیں بھی کیں۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کا کارنامہ اتنا بلند ہے کہ خود آنحضورؐ نے بھی ان کی قربانی کی مثال دیکھی تو آپؐ عش عش کر اٹھے اور آپؐ نے جب حضرت ابوبکرؓ سے کہا کہ کچھ اہل و عیال کے لیے بھی چھوڑا ہوتا تو انھوں نے عرض کیا کہ اہل و عیال کے لیے اللہ اور رسول کی محبت چھوڑ آیا ہوں، جو ان کے لیے کافی ہے۔ علامہ اقبالؒ نے بانگِ درا میں صدیقؓ کے عنوان کے تحت جو نظم لکھی ہے، اس کے آخری اشعار دیکھیے :
بولے حضورؐ چاہیے فکرِ عیال بھی
کہنے لگا وہ عشق و محبت کا رازدار
اے تجھ سے دیدۂ مہ وانجم فروغ گیر
اے تیری ذات باعثِ تکوینِ روزگار
پروانے کو چراغ ہے، بلبل کو پھول بس
صدیق کے لیے ہے خدا کا رسولؐ بس
ایک صحابی حضرت ابو عقیلؓ کے بارے میں مؤرخین نے لکھا ہے کہ جب انھوں نے اللہ تعالیٰ کا یہ حکم سنا کہ ہلکے ہو یا بھاری ہر حال میں اللہ کے راستے میں جہاد کے لیے نکلو اور جان و مال دونوں پیش کرو تو حضرت ابو عقیلؓ نے سوچا کہ جان تو پیش کر دیں گے مگر مال تو ان کے پاس ہے ہی نہیں۔ بلاشبہ ان کے لیے رخصت موجود تھی، تاہم یہ لوگ اصحابِ عزیمت تھے۔ وہ آنحضورؐ کے حکم پر عمل کرنے کے لیے تدبیر سوچنے لگے۔ رات کو کسی یہودی کے ساتھ ایک معاملہ طے کیا اور اس کے باغ کو سیراب کرنے کے لیے رات بھر پانی کے ڈول کھینچتے رہے۔ صبح انھیں معاہدے کے مطابق کچھ کھجوریں ملیں تو آدھی کھجوریں اپنے اہل و عیال کو دے کر باقی آدھی آنحضورؐ کی خدمت میں لے آئے۔ جب آنحضورؐ کی خدمت میں یہ کھجوریں پیش کیں تو آپؐ نے پوچھا کہ ابو عقیل یہ کھجوریں کہاں سے لائے ہو؟ عرض کیا: ''یا رسول اللہﷺمیں نے رات بھر مزدوری کی اور صبح مجھے کچھ کھجوریں ملیں تو آدھی اپنے بال بچوں کو دے آیا ہوں اور آدھی آپؐ کی خدمت میں پیش کر دی ہیں۔‘‘ نبی اکرمؐ نے سونے چاندی کے ڈھیر پر ان کھجوروں کو بکھیر دیا اور فرمایا کہ اللہ اور اللہ کے رسول کی نظروں میں یہ کھجوریں سونے چاندی کے ڈھیر سے بھی قیمتی ہیں۔ حضرت ابو عقیلؓ کا نام امام ابن کثیر نے حباب بن عبد اللہ بن ثعلبہ بیان کیا ہے۔ تاریخ میں ان کا نام عبد الرحمان بھی بیان ہوا ہے۔ (تفسیر ابن کثیر سورۃ التوبہ 9:80-79)
بلاشبہ اللہ رب العالمین کے نزدیک مال و دولت اور اس کی مقدار و پیمانے کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ وہ تو ہر چیز سے غنی ہے اور اسے اپنے بندوں کا خلوص و تقویٰ درکار ہے۔ وہ فرماتا ہے: ''نہ ان [جانوروں] کے گوشت اللہ کو پہنچتے ہیں نہ خون، مگر اسے تمھارا تقویٰ پہنچتا ہے۔ اس نے ان کو تمھارے لیے اس طرح مسخر کیا ہے تاکہ اس کی بخشی ہوئی ہدایت پر تم اس کی تکبیر کرو۔ اور اے نبیؐ، بشارت دے دے نیکو کار لوگوں کو‘‘ (الحج22:37)۔اخلاص کے ساتھ پیش کی ہوئی رقم اور مال خواہ تھوڑا ہو یا زیادہ، اللہ کی نظروں میں قیمتی اور وقیع ہے۔ اگر اخلاص نہ ہو تو رقم خواہ بڑی ہو یا چھوٹی بے وزن اور بے وقعت ہوجاتی ہے۔ پھر کم اور زیادہ کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ عموماً لوگ اس کے تعین میں ٹھوکریں کھا جاتے ہیں۔ اگر ایک آدمی کے پاس کل سرمایہ سو روپیہ ہے اور وہ اس میں سے پچاس روپے راہِ خدا میں دے دیتا ہے تو گویا اس نے اپنی موجود پونجی کا نصف یعنی پچاس فیصد راہِ خدا میں خرچ کر دیا۔ اس کے مقابلے میں ایک آدمی کے پاس ایک کروڑ روپیہ ہے اور وہ اس میں سے دس لاکھ دے دیتا ہے تو یہ بے شک ایک بڑی خطیر رقم ہے مگر اس نے محض دس فیصد دیا ہے جو پچاس فیصد سے بہت کم ہے۔
ماہِ ربیع الاول ایک پیغام دیتا ہے، بہت کم لوگ اسے سنتے ہیں اور اس سے بھی کم اس کا مثبت جواب دیتے ہیں۔ اپنا جائزہ لینے سے ہی گتھی سلجھ سکتی ہے۔