کفار اور کھلے دشمنان وہ نقصان نہیں پہنچا سکتے جو منافقین کے ہاتھوں اہلِ ایمان کو ہر دور میں پہنچتے رہے ہیں۔ خود نبیٔ مہربانؐ کے دور میں آپ کو بھی ان لوگوں نے ہر طرح کی ایذائیں پہنچائیں۔ آپؐ نے ان کو زندگی کا حق دیا مگر کسی منصب پر ان کو آنے کا کبھی موقع نہ دیا۔ یہ سازشوں کے باوجود بے اثر ہو کر رہ گئے تھے۔ جب منافقین کے پاس اختیارات بھی ہوں تو پھر ان کے شر سے اہلِ ایمان کا بچنا ممکن نہیں ہوتا۔ آنحضورؐ کی سیرت کا یہ پہلو خاص طور پر قابلِ ذکر ہے کہ آپؐ نے مخلص اور دیانت دار لوگوں کو عزت دی اور ذمہ داریاں سونپیں۔ سیرت کا مطالعہ کیجیے تو مدینہ منورہ کی پوری زندگی میں آنحضورؐ کو چومکھی لڑائی لڑتے ہوئے پائیں گے۔ منافقین نے مدینہ منورہ میں باقاعدہ گٹھ جوڑ کے ذریعے اپنی ٹیم بنا رکھی تھی۔ وہ کفارو مشرکین اور اہلِ کتاب کے ساتھ ساز باز کرتے رہتے تھے اور اندرونی طور پر بھی فتنے اٹھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے۔ ہر غزوے میں انھوں نے اہلِ اسلام کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کی کوشش کی مگر ہر مرتبہ اللہ نے انھیں ناکام کیا۔ ایک واقعہ جسے عبد اللہ بن ابیّ اپنی ذہانت و فراست اور کامیاب حکمت عملی کے ثبوت میں پیش کیا کرتا تھا، غزوۂ احد ہے۔ اس نے مدینہ سے باہر نکل کر دشمن کا مقابلہ کرنے کی مخالفت کی تھی اور پھر بد نیتی کے ساتھ مدینہ سے آنحضورؐ کے ہمراہ میدانِ جنگ کی طرف نکلا بھی مگر تھوڑے ہی فاصلے سے اپنے تین سو ساتھیوں سمیت واپس پلٹ گیا۔ جنگ احد میں مسلمانوں کو جو زخم لگے تو اس نے ان پر خوشی کا اظہار کیا اور اپنی رائے اور فیصلے کے صائب ہونے کی دلیل دی حالانکہ اس زخم کی وجہ اس کی کوئی قابلیت نہیں تھی بلکہ تیر انداز صحابہ کی کمزوری اور غلط فیصلے کے نتیجے میں جنگ کا پانسہ پلٹا تھا۔
غزوۂ تبوک کے لیے جب آپؐ نکلے تو اس میں بھی عبد اللہ بن ابیّ نے ایسی ہی حرکت کی۔ فوج جب ثنیاۃ الوداع کے قریب پہنچی تو یہ اپنے ساتھیوں سمیت مدینہ واپس پلٹ گیا۔ اس نے کہا کہ یہ ایک غلط فیصلہ ہے اور رومی شہنشاہیت کا مقابلہ کرنا کسی کے بس میں نہیں۔ اس کے الفاظ جو تاریخ میں نقل کیے گئے ہیں، بہت زہریلے ہیں۔ اس نے کہا: یَحْسَبُ مُحَمّدٌ أَنَّ قِتَالَ بَنِی الأَصْفَر اللَّعِب پھر کہا وَاللّٰہِ لَکأَنِّیْ أَنظُرُ إِلٰی أَصْحَابِہٖ غَدًا مُقرَّنِیْنَ فِی الْحِبَالِ۔ یعنی محمد کا خیال ہے کہ رومیوں سے لڑائی لڑنا کھیل تماشا ہے۔ خدا کی قسم مجھے تو نظر آرہا ہے کہ کل اس کے ساتھی رومیوں کے ہاتھوں زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہوں گے۔ اس شخص کا خبثِ باطن بار بار ظاہر ہوتا رہا تھا مگر نبیٔ رحمتؐ حکمت کے تحت صبر و ضبط اور تحمل کا مظاہرہ فرماتے رہے۔ (مغازی للواقدی ج3، ص995-996)
غزوۂ تبوک ہی کے تناظر میں منافقین کے یہ الفاظ نقل کیے ہیں ''انھوں نے کہا کہ اس سخت گرمی میں نہ نکلو۔ ان سے کہو کہ جہنم کی آگ اس سے زیادہ گرم ہے، کاش انھیں اس کا شعور ہوتا۔ اب چاہیے کہ یہ لوگ ہنسنا کم کریں اور روئیں زیادہ، اس لیے کہ جو بدی یہ کماتے رہے ہیں اس کی جزا ایسی ہی ہے (کہ انھیں اس پر رونا چاہیے)۔‘‘ (التوبہ81-82:9)ابن ابیّ کے اپنے ساتھیوں کے ساتھ واپس چلے جانے پر آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ جو تمھارا ساتھ چھوڑ کر چلے گئے، تمھیں ان کی کوئی فکر نہیں ہونی چاہیے۔ فَقَدْ اَرَاحَکُمُ اللّٰہُ بِھِمْ اللہ نے تمھیں ان سے راحت و عافیت عطا فرمادی ہے۔ اس غزوے میں بھی ابن ابیّ کے واپس چلے جانے کے باوجود کچھ منافقین آنحضورؐ کے ساتھ رہے۔ راستے میں جہاں جہاں انھوں نے کوئی خباثت کی، اللہ نے وحی کے ذریعے اسے منکشف کر دیا۔ ( سیرۃ ابن ہشام مجموعہ 2-1، ص 523۔ مغازی للواقدی ج3،ص995-996)
منافقین نے آنحضورؐ کو قتل کرنے کا منصوبہ بھی بنایا۔ وہ آپؐ کو اپنے کسی ہتھیار سے شہید کرنے کے بجائے آپؐ کی اونٹنی کو خطرناک گھاٹی میں ڈرا بِدکا کر آپؐ کو کسی کھائی میں گرانا چاہتے تھے۔ واقدی کے مطابق ''ابو مرہ، مولیٰ عقیل کے حوالے سے یہ روایت بیان کی گئی کہ جب رسول اللہ ﷺ تبوک سے واپسی پر ایک پہاڑی راستے سے گزر رہے تھے تو منافقین نے آپؐ کو ایک گھاٹی سے نیچے گرانے کی سازش کی۔ جب رسول اللہ ﷺ اس گھاٹی پر پہنچے تو سازشی بھی آپؐ کے ساتھ چلنا چاہتے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیؐ کو ان کے ارادوں کی خبر دے دی۔ رسول اللہﷺ نے لوگوں کو حکم دیا کہ وہ گھاٹی کو عبور کرنے کی بجائے بطنِ وادی سے گزر جائیں کیونکہ وہ زیادہ آسان اور کشادہ راستہ ہے۔ اکثر لوگ تو اس راستے کی طرف مڑ گئے اور رسول اللہ ﷺ اپنی اونٹنی پر سوار گھاٹی کو عبور کرنے کے ارادے سے چل پڑے۔ (مغازی للواقدی ج3، ص1042)آپؐ نے حضرت عمار بن یاسرؓ کو حکم دیا کہ وہ اونٹنی کی نکیل پکڑ کر آگے آگے چلیں اور حضرت حذیفہ بن یمانؓ سے فرمایا کہ وہ اونٹنی کو پیچھے سے ہانکتے چلیں۔ جب رسول اللہ ﷺ گھاٹی کے بیچ میں پہنچے تو دیکھا کہ آپؐ کے پیچھے لوگ چلے آرہے ہیں۔ آپؐ ناراض ہوئے اور حضرت حذیفہؓ کو حکم دیا کہ ان لوگوں کو واپس لوٹا دیں۔ حضرت حذیفہؓ پیچھے پلٹے اور ان لوگوں کی سواریوں کے منہ پر لاٹھی سے ضربیں لگائیں اور انھیں پیچھے دھکیل دیا۔
ان لوگوں کو خیال گزرا کہ ان کی سازش آپؐ پر عیاں ہوگئی ہے چنانچہ وہ گھاٹی سے تیزی کے ساتھ نیچے اترے تاکہ جلد از جلد عامۃ الناس میں گھل مل جائیں اور کوئی انھیں پہچان نہ سکے۔ حضرت حذیفہؓ سازشیوں کو بھگانے کے بعدآپؐ کے پاس آئے اور حسبِ سابق اونٹنی کو ہانکنے لگے۔ آپؐ گھاٹی سے باہر نکلے ، قیام فرمایا اور لوگ بھی خیمہ زن ہوگئے۔ پھر آپؐ نے حضرت حذیفہؓ سے پوچھا: ''اے حذیفہؓ جن لوگوں کو تو نے گھاٹی سے پیچھے لوٹایا ان میں سے کسی کو پہچانتے ہو؟‘‘ انھوں نے عرض کیا: ''یا رسول اللہ ﷺ مَیں نے فلاں فلاں شخص کی سواری پہچان لی تھی مگر لوگوں نے ڈھاٹے باندھ رکھے تھے اور رات کی تاریکی میں میں انھیں اچھی طرح نہ دیکھ سکا۔‘‘ (البدایۃ والنھایۃ)۔
اوس کے سردار حضرت اُسید بن حضیرؓ کو سازش کی اطلاع ملی تو انھوں نے آپؐ کی خدمت میں عرض کیا کہ آپؐ حکم دیں کہ انصار کا ہر قبیلہ اپنے اس شخص کے قتل کی ذمہ داری لے جو سازش میں شریک تھا لیکن رسول کریم ﷺ نے درگزر کرنے کو ترجیح دی اور حضرت اسید بن حضیرؓ کی تجویز پر عمل نہ کیا۔ آپؐ نے فرمایا: ''اے ابو یحییٰ، اللہ نے میری حفاظت فرمائی ہے۔ ان لوگوں سے وہی نمٹ لے گا۔‘‘ انھوں نے پھر عرض کیا ''حضور اگر آپؐ پسند کریں تو مجھے ان کے متعلق آگاہ کردیں اور اس جگہ کو نہ چھوڑیں حتیٰ کہ میں ان کے سروں کو آپؐ کے پاس لے آئوں، خواہ وہ النبیت میں ہوں۔ میں آپؐ کو ان سے کفایت کروں گا اور آپؐ خزرج کے سردار کو حکم دیں اور جو آدمی اُن کی جانب سے ہوں گے وہ ان کے بارے میں آپؐ کو کفایت کرے گا۔ یا رسول اللہ ﷺ ایسے لوگوں کو کب تک ان کے حال پر چھوڑا جائے گا؟ ہم کب تک ان سے مداہنت برتیں گے حالانکہ آج وہ قلت اور ذلت میں ہیں اور اسلام نے اپنے قدم جما لیے ہیں۔ پس ان لوگوں میں سے کوئی باقی نہ رہنا چاہیے‘‘
رسول اللہ ﷺ نے حضرت اُسیدؓ سے فرمایا: ''میں پسند نہیں کرتا کہ لوگ کہیں کہ جب اس کے اور مشرکین کے درمیان جنگ ختم ہوگئی ہے تو محمدؐ نے اپنے ساتھیوں کو قتل کرنا شروع کر دیا ہے۔‘‘ حضرت اُسید نے عرض کیا: ''یا رسول اللہؐ ! یہ لوگ اصحاب نہیں ہیں۔‘‘ رسول اللہ ؐنے فرمایا:'' ہاں درجۂ صحابیت پر تو ہر گز نہیں مگر کیا وہ لا الہ الا اللہ کی شہادت کا اظہار نہیں کرتے؟‘‘ حضرت اُسید نے کہا: ''بے شک، لیکن ان کی کوئی شہادت نہیں ہے۔‘‘ آپؐ نے فرمایا: ''میں نے انہیں قتل کرنے سے منع کر دیا ہے۔ ان کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے اور اس کی سزا بڑی سخت ہوگی ‘‘منافقین کے بارے میں اللہ نے اپنے نبیؐ کو نام بنام بتا دیا۔ آپؐ نے حضرت حذیفہ کے سوا کسی کو نہ بتایا۔ پس جب آپؐ رحلت فرما گئے اور خلیفۂ اول کے بعد حضرت عمرؓ خلیفہ بنے تو جب کوئی شخص فوت ہوجاتا تو آپؓ خیال کرتے کہ یہ ان [منافق] لوگوں میں سے نہ ہو۔ آپؓ حضرت حذیفہؓ کو بلا کر اس کے جنازے پر چلنے کے لیے کہتے۔ اگر وہ آپؓ کے ساتھ چل پڑتے تو حضرت عمرؓ ان کے ساتھ جنازہ پڑھتے اور اگر وہ اپنا ہاتھ کھینچ لیتے تو آپؓ جنازہ پڑھنے کی بجائے ان کے ساتھ واپس آجاتے۔