علم وعمل کی بہترین مثال

تاریخ جدید میں جن شخصیات کے کردار نے اسلاف کی یادیں تازہ کی ہیں، ان میں مریم جمیلہ کا اسم گرامی بہت اہمیت کا حامل ہے۔ محترمہ مریم جمیلہ کا نام تو دورِ طالب علمی میں سنا تھا۔ پھر مولانا مودودیؒ کے ساتھ ان کی مراسلت نظر سے گزری تو خوشگوار حیرت ہوئی کہ امریکہ کے ایک یہودی خاندان کی چشم و چراغ نوجوان، اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون، تلاشِ حق کے لیے سرگرداں ہے۔ پھر معلوم ہوا کہ مریم جمیلہ ہجرت کرکے پاکستان آگئی ہیں اور یہیں مقیم ہونے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ اسی دوران وہ اسلام قبول کر چکی تھیں۔ یہ گزشتہ صدی کے ساتویں عشرے (۶۰کی دہائی) کی بات ہے۔ پھر یہ بھی معلوم ہوا کہ مریم جمیلہ کی شادی ہمارے محبوب راہ نما اور بزرگ و مشفق دوست جناب محمد یوسف خان صاحب کے ساتھ ہوگئی ہے۔ اس سے اور بھی خوشی ہوئی۔ قرآن مجید میں ایمان، ہجرت، جہاد اور راہ خدا میں اذیتوں کا تذکرہ اکثر ایک ساتھ ملتا ہے۔ اس خوش نصیب خاتونِ اسلام کو دیکھ کر مجھے وہ تمام آیات قرآنی یاد آجاتی تھیں۔ 
مریم جمیلہ صاحبہ اس عرصے میں مسلسل علمی کام کر رہی تھیں۔ ان کا مطالعہ انتہائی عمیق و وسیع تھا۔ مغرب و مشرق کی تمام تہذیبوں پر ان کی نظر تھی۔ ان کی کتابیں انگریزی زبان میں شائع ہونے لگیں تو پہلی بار ان کے اصل علمی مقام و مرتبے کا اندازہ ہوا۔ یہ ستر کی دہائی کی بات ہے کہ میں نے ان کی تمام کتابیں پڑھ لیں۔ حقیقت یہ ہے کہ میں نے ان سے اپنی تحریری و تقریری سرگرمیوں میں بہت استفادہ کیا۔ یہ دور میں نے افریقہ میں گزارا اور اس عرصے میں دنیا کے مختلف ممالک میں جانے اور علمی کانفرنسوں، مذاکروں اور مباحثوں میں شرکت کے مواقع ملے۔ مولانا مودودیؒ کے لٹریچر کے بعد انھی کتب سے زیادہ تر استفادہ کرکے بیشتر مذاکروں میں کچھ مفید شرکت اور گفت گو ممکن ہوسکی۔ 
تاریخ اسلام کے آغاز سے غیر مسلم آبادیوں میں اسلام کے متعلق تجسّس اور معلومات حاصل کرنے کی تحریک موجود رہی ہے۔ وسائل کی ترقی کے ساتھ اس تجسّس اور فکری سیاحت کا دائرہ بھی پھیلتا چلا گیا۔ اس کی وجہ سے کئی اعلیٰ پائے کی شخصیات مسلمان ہوئیں۔ یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ ان نو مسلموں میں جنھوں نے گزشتہ صدی میں اسلام قبول کیا، محترمہ مریم جمیلہ مرحومہ اس لحاظ سے امتیازی حیثیت رکھتی ہیں کہ انھوں نے قبول اسلام کے بعد اپنی زندگی مثالی انداز میں دین اسلام کی دعوت و تبلیغ میں بسر کی۔ انھوں نے اپنی تصنیفات میں اسلام کے بارے میں مستشرقین اور مغربی فکرو نظر سے مرعوب مسلمان دانشوروں کے مغالطوں اور اسلام کے بارے میں غلط تعبیرات کی تصحیح کو اپنی علمی تحقیق کا مرکز بنایا۔ وہ صحیح معنوں میں دفاع اسلام کی جدوجہد میں مصروف رہیں۔ میں انھیں غازیۂ ایمان (Defender of Faith)کہتا ہوں۔
مریم جمیلہ نے مغربی علوم عمرانیات کی لادینی بنیادوں، مغربی تہذیب و ثقافت کی تخریب کاری اور مغربی سیکولر افکارو نظریات کی ناپائداری کو نہایت ٹھوس علمی و عملی شواہد اور محکم استدلال کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کیا۔ مغربی تہذیب و ثقافت جن عقائد و نظریات پر مبنی ہے، محترمہ نے اس کا ابطال بھی مغربی احوال و ظروف اور تاریخی حقائق سے کیا ہے۔ مغربی معاشرے میں آنکھ کھولنے کی بدولت انھیں مغربی تہذیب کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اور مغربی لادینی نظریات کے مظاہر کا براہ راست مشاہدہ کیا، اس بنا پر ان کی مغرب پر زور دار تنقید، اپنے اندر ایسے حقائق رکھتی ہے جنھیں آسانی سے ردّ نہیں کیا جاسکتا۔ مغرب کے فلسفیوں، مادہ پرستانہ نظریات کے علم برداروں اور مختلف ازموںاور لادینی فکری تحریکوں کے بانیوں کی علمی بنیادوں کو منہدم کرنے میں محترمہ مریم جمیلہ نے نہایت قابل قدر تنقیدی لٹریچر فراہم کیا ہے۔ انھوں نے استعماری طاقتوں کی انسانیت کش یلغاروں، تہذیبی استیلاکی کاوشوں، عسکری خوں ریزیوں اور معاشی استحصال کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ مغربی نظام حیات اور حکمرانی کے ضابطے بنی نوع انسان کو امن و سکون نہیں دے سکتے۔ 
مریم جمیلہ کو مذاہب عالم کے تقابلی مطالعے کے بعد یقین حاصل ہوگیا کہ دین اسلام ہی سچا دین ہے اور یہی انسانوں کی دینی و اخروی نجات کا ضامن ہوسکتا ہے۔ اس یقین کے بعد انھوں نے دنیا میں مروجہ نظام حیات کے مظاہر پر نظر ڈالی تو انھیں معلوم ہوا کہ جس طرح مغرب اپنی اصل راہ سے ہٹ گیا ہے، اسی طرح اسلامی ممالک بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے فراہم کردہ صراط مستقیم سے منحرف ہو کر دنیا کے باطل نظاموں کے نرغے میں گرفتار ہیں۔ انھوں نے نہایت جچے تلے علمی انداز میں مسلمانوں کے حال اور ماضی قریب کے مفکرین کی قائدانہ لغزشوں کا محاکمہ کیا۔ اس سلسلے میں سر سید و طہٰ حسین سے لے کر عہد حاضر کے متجد دین تک کی فکری اور علمی ناہمواریوں پر گرفت کی اور مسلمانوں کو آگاہ کیا کہ یہ طبقہ مغرب کے علمی و سیاسی تسلط سے اس حد تک مرعوب ہے کہ دین اسلام کے بنیادی عقائد سے انحراف میں بھی انھیں کوئی باک نہیں۔ شام، مصر، ترکی، عراق اور دیگر مغرب زدہ مسلم مفکرین پر سخت تنقید کرتے ہوئے اسلام کی غلط تعبیروں پر مشتمل ان کے نظریات و افکار کو مسترد کر دیا۔ اس حوالے سے ان کی کتاب (Islam in Theory & Practice)بہت وقیع علمی دستاویز ہے۔ مسلمان ممالک میں مغربی تہذیب و ثقافت کی ترویج کو ہدف تنقید بناتے ہوئے مصنفہ نے مسلم امہ کو اصل اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی تلقین کی ہے۔ 
مریم جمیلہ نے اپنی دوسری کتاب (Islam & the West)میں بھی مغرب کا جرأت مندانہ اور مدلّل محاکمہ و محاسبہ کیا ہے اور اس حقیقت کو واضح کیا ہے کہ مغرب کا تہذیبی استیلا وقتی اور عارضی ہے، اس لیے امتِ مسلمہ کے لیے اس کا مقابلہ ممکن ہے بشرطیکہ انفرادی و اجتماعی، ہر سطح پر اسلام کی پائدار تہذیب اور ابدی حقائق کو لائحہ عمل بنایا جائے۔ مغربی تہذیب کا حقیقی چہرہ انھوں نے (Western Civilization Condemned by itself) میں خوب بے نقاب کیا ہے۔ اس کتاب کے مطالعہ سے قاری ''گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے‘‘ کی ضرب المثل کا مفہوم بخوبی سمجھ سکتا ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ اسلامی تہذیب مسلمانوں کے اسلام پر عمل پیرا ہونے سے متشکل ہوگی۔ لہٰذا امت مسلمہ کو شریعت اسلامیہ کے مطابق اپنے انفرادی اور اجتماعی معاملات کو روبہ عمل لانا ہوگاورنہ ادبار کی موجودہ صورتِ حال سے چھٹکارا ممکن نہ ہوگا۔ 
مریم جمیلہ نے معاصر علمی شخصیتوں کے لٹریچر کا دقّتِ نظر سے مطالعہ کیا ہے۔ سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ سے ان کی مراسلت سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھیں سید مودودی سے مکالمہ اور مراسلت کے بعد اور ان کے لٹریچر کے مطالعے سے، اپنے افکار و خیالات میں یکسوئی حاصل کرنے میں مقابلتاً زیادہ مدد ملی ہے۔ ان کے نزدیک شریعت اسلامیہ کی تعلیمات اتنی معقول اور مبرہن ہیں کہ کوئی دانش مند آدمی شاذ ہی ان سے آنکھیں بند کرسکتا ہے۔ محترمہ مریم جمیلہ اپنی جوانی میں پردے کی اس قدر پابند تھیں کہ قبولِ اسلام کے بعد کسی غیر محرم نے ان کا چہرہ نہیں دیکھا تھا۔ وہ محض سکارف یا عمومی نقاب نہیں بلکہ مکمل برقع پہنا کرتی تھیں۔ برقع میں ملبوس ان کی محجوب تصویر بھی ان کی کتب کے اندرونی ٹائٹل پر چھپا کرتی تھی۔ اس دور میں محترم محمد یوسف خان صاحب کے ہاں جانے کا موقع ملتا تو ''آپا‘‘ سے یوسف صاحب کے ہمراہ پردے میں ملاقات اور تبادلۂ خیالات ہوا کرتا تھا۔ اب جبکہ مریم جمیلہ قرآن کی اصطلاح ''القواعد‘‘ (سورہ النور) کے مطابق بڑھاپے میں داخل ہوگئیں تو پہلے والا پردہ نہیں کرتی تھیں۔ اس وقت عمر ۷۶سال کے لگ بھگ تھی۔ ان دنوں ہمارا خان صاحب کے گھر آنا جانا ہوتا تو خان صاحب اور آپا ایک صوفے پر بیٹھ جاتے ا ور ہم ان کے سامنے بیٹھ کر تبادلۂ خیالات کرتے۔ 
مریم جمیلہ اردو اور پنجابی کے چند جملے ہی بولتی اور سمجھتی تھیں۔ اسی طرح خان صاحب بھی انگریزی میں محدود اظہارِ خیال کر سکتے تھے مگر دونوں میاں بیوی کو ایک دوسرے سے بات چیت کرنے اور مفہوم سمجھنے سمجھانے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی تھی۔ یوسف خان صاحب کی فیملی کی خواتین، ان کے بچے بلکہ خود مریم جمیلہ کے بچے بھی انھیں ''آپا‘‘ کہہ کر پکارتے تھے۔ سو ہم بھی انھیں آپا ہی کہا کرتے تھے۔ واضح رہے کہ یوسف خان صاحب کی پہلی اہلیہ مرحومہ نے اپنے بچوں کے علاوہ مریم جمیلہ کے بچوں کو بھی خود پالا پوسا اور یہ مثال شاید دنیا میں انوکھی اور واحد مثال ہی ہوگی کہ خان صاحب کے پہلے اور پچھلے تمام بچے خان صاحب کی پہلی بیوی کو ''امی‘‘ اور مریم جمیلہ کو ''آپا‘‘ کہا کرتے تھے۔ آپا ایک عظیم کردار تھا۔ ان کی علمی کاوشوں پر ملت اسلامیہ آج انھیں خراج تحسین پیش کرتی ہے کہ انھوں نے اسلام قبول کرکے دین اسلام کی دعوت و تبلیغ کے لئے اپنی زندگی وقف رکھی۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے کہ ان کی زندگی سلف صالحین کی مثال تھی۔ (آمین) 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں