اہلِ خیر کی سوچ اور اقدام
ہشام کی یہ باتیں سن کر زہیر نے کہا: اے ہشام! خدا تیرا بھلا کرے، تو نے بہت اچھی بات کہی ہے۔ میں فرد واحد ہوں، اکیلا کیا کرسکتا ہوں؟ خدا کی قسم اگر کوئی میرا ساتھ دینے والا ہوتا تو میں اس ظالمانہ معاہدے کی خلاف ورزی کے لیے کھڑا ہوجاتا۔ ہشام نے کہا: ''ساتھ دینے والا تو موجود ہے۔‘‘ زہیر نے پوچھا: ''کون‘‘؟ ہشام نے کہا: ''میں خود تمھارا ساتھ دوں گا۔‘‘ زہیرنے کہا: ''ہمیں کسی تیسرے شخص کو بھی ساتھ ملانا چاہیے۔‘‘ چنانچہ ہشام، مطعم بن عدی کے پاس گیا اور اس سے کہا: ''اے مطعم! کیا تم اس بات سے خوش ہوکہ عبدمناف کے دو خاندان ہلاک ہوجائیں اور تم ان کی ہلاکت کا تماشا دیکھتے رہو۔ قریش کے اس ظلم پر خاموشی اختیار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک دن یہی ظلم کا کوڑا تم پر بھی برسے گا۔‘‘
مطعم نے کہا: ''تیرا بھلا ہو۔ میں تنہا آدمی اس نازک مسئلے پر کیا کرسکتا ہوں؟‘‘ ہشام نے کہا: ''تم تنہا نہیں ہو میں تمھارے ساتھ ہوں۔‘‘ مطعم نے کہا: ''ٹھیک ہے مگر ہمیں ایک تیسرا آدمی بھی درکار ہے۔‘‘ ہشام نے کہا: ''تیسرا بھی موجود ہے اور وہ زہیر بن ابوامیہ ہے۔‘‘ یہ سن کر مطعم خوش ہوا مگر اس نے کہا: ''کام مشکل ہے ہمیں کوئی چوتھا آدمی بھی تلاش کرنا چاہیے۔‘‘
ہشام، مطعم کو اپنا ہم نوا بنانے کے بعد ابوالبختری بن ہشام کے پاس گیا اور اس سے بھی وہی بات کہی جو زہیر اور مطعم سے کہہ چکا تھا۔ پھر اس کو بتایا کہ زہیرا ور مطعم اس کی تجویز سے اتفاق کرچکے ہیں۔ ابوالبختری نے تجویز کو سراہا اور کہا: ''ہمیں ایک پانچواں ساتھی تلاش کرنا چاہیے۔‘‘ ہشام نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ چنانچہ وہ زمعہ بن الاسود بن المطلب بن اسد کے پاس گیا اور اس سے بنوہاشم کی قرابت داری کا ذکر کرکے حمایت طلب کی۔ اس نے کہا: ''کوئی اور بھی میرا ساتھ دے گا‘‘؟ ہشام نے کہا: ''ہاں‘‘ اور پھر سب کے نام اسے بتا دیے۔
مبارک اکٹھ اور معاہدہ ظلم کا خاتمہ
یہ سب لوگ حسب وعدہ رات کو مکہ کے بالائی حصوں میں حجون کے مقام پر جمع ہوئے اور سب نے اتفاق کیا کہ اس ظالمانہ معاہدے کو توڑ دیا جائے۔ زہیر نے کہا: ''میں پہل کروں گا۔‘‘ اگلی صبح وہ قریش کی مجلس میں آئے۔ زہیر نے بہترین پوشاک پہن رکھی تھی اور بہترین حُلّہ اپنے اوپر لے رکھا تھا۔ اس نے بیت اللہ کا سات مرتبہ طواف کیا، پھر لوگوں کی جانب متوجہ ہوکر کہا: ''اے مکہ والو! کیا ہم پیٹ بھر کر کھائیں اور بہترین لباس پہنیں اور بنوہاشم اور بنو مطلب بھوکوں مرجائیں۔ نہ ان کے ساتھ کوئی خریدوفروخت کرے اور نہ ان کی مدد کو کوئی آگے بڑھے۔ خدا کی قسم یہ ظلم ہے اور خدا کی قسم اس معاہدے کو پھاڑے بغیر میں چین نہ لوں گا۔‘‘
تائیدِ ربانی
ابن اسحاق بیان کرتے ہیں کہ اس معاہدے کا کاتب منصور بن عکرمہ تھا، جس کا ہاتھ معاہدہ لکھنے کے بعد شل ہوگیا تھا۔ ابن ہشام نے بیان کیا ہے کہ کئی اہلِ علم کہتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جناب ابوطالب سے کہا: ''چچا جان ظلم کے معاہدے کو اللہ تعالیٰ نے ختم کردیا ہے، اس کے ہر لفظ کو دیمک نے چاٹ لیا ہے۔ سوائے اللہ کے ناموں کے جو اس معاہدے میں لکھے گئے تھے۔ ظلم، قطع رحمی اور بہتان کا خاتمہ ہوگیا ہے۔‘‘جناب ابوطالب نے پوچھا: ''کیا تیرے رب نے تجھے اس کی خبر دی ہے؟‘‘ آپؐ نے فرمایا: ''ہاں۔‘‘ جناب ابوطالب نے کہا: ''بخدا تمھارے پاس کوئی نہیں آیا جو ایسی خبر لاتا، اس لیے یقینا تمھیں یہ خبر خدا ہی نے دی ہے۔‘‘
اس کے بعد جناب ابوطالب گھاٹی سے نکلے اور قریش کے پاس آئے۔ ان کو مخاطب کرکے فرمایا: ''اے قریش کے لوگو! میرے بھتیجے نے مجھے بتایا ہے کہ تمھارا صحیفہ دیمک نے چاٹ کر صاف کردیا ہے۔ ذرا مجھے بھی تو وہ دکھاؤ، اگر وہ واقعی دیمک کی نذر ہوچکا ہے جیسا کہ میرے بھتیجے نے کہا ہے تو پھر تم اپنے مقاطعہ پر نظرثانی کرکے اس ظلم سے ہاتھ کھینچ لو اور اگر میرے بھتیجے نے جھوٹ کہا ہے تو میں اسے تمھارے حوالے کردوں گا۔‘‘ جناب ابوطالب نے اگرچہ کلمہ نہ پڑھا، مگر ان کے بہت سے اقدام اور بیانات سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اور اللہ کے ساتھ براہِ راست تعلق کا وہ مکمل یقین رکھتے تھے۔ ان کا یہ بیان بھی بغیر کسی ابہام کے یہی ثابت کرتا ہے کہ انھیں اپنے بھتیجے کی بات کا سوفیصد یقین تھا۔
جناب ابوطالب کی بات سن کر سردارانِ قریش نے کہا: ''یہ بہت اچھی بات ہے ہم تمھاری اس تجویز سے متفق ہیں۔‘‘ پھر انھوں نے خانہ کعبہ میں لٹکے ہوئے اس معاہدے کو دیکھا تو وہ بالکل اسی حالت میں تھا جس حالت کا ذکر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا سے کیا تھا۔ ''خوئے بدرابہانہ بسیار‘‘کے مصداق ، اب بجائے اس کے کہ ان کفار کو شرم آتی وہ الٹے بگڑ گئے اور شرارت پر آمادہ ہوگئے۔ اس موقع پر وہ پانچوں افراد اٹھ کھڑے ہوئے اور اعلان کردیا: ''اس معاہدے کو ہم قبول نہیں کرتے، نہ ہم اس کی پابندی کریں گے۔‘‘ اس طرح معاہدۂ قریش ختم ہوگیا۔ اب شعبِ ابی طالب میں محصور تمام لوگ باہر نکل آئے اور ان ظالموں کے سامنے شہر میں رہایش پذیر ہوگئے۔ (سیرۃ ابن ہشام، القسم الاول، ص355-350، البدایۃ والنہایۃ، ج۱، طبع دارِ ابن حزم، بیروت، ص514-513، السیرۃ الحلبیۃ، ج۱، دارلکتب علمیہ بیروت، ص476-475)
رحمۃٌ للعالمین
فتح مکہ کے موقع پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ میں داخل ہو رہے تھے تو نوجوان انصاری صحابی حضرت جابر بن عبداللہؓ کی سواری بھی آپؐ کی سواری کے ساتھ چل رہی تھی۔ مکہ کی ایک گھاٹی کے قریب پہنچے تو آنحضورؐ نے اپنی اونٹنی کو روک لیا اور ٹکٹکی باندھ کر ایک جانب دیکھنے لگے۔ پھر حضرت جابرؓ سے فرمایا ''جابرؓ تم جانتے ہو ، یہ کون سی جگہ ہے؟‘‘ انھوں نے عرض کیا : ''یا رسول اللہ میں تو نہیں جانتا‘‘۔ آپؐ نے فرمایا:''یہ شعب ابی طالب ہے، یہاں میں، میرے صحابہؓ اور میرے خاندان کے لوگ تین سال تک مقید رکھے گئے۔ ہمیں کھانے پینے کی کوئی چیز نہیں ملتی تھی۔ ماؤں کی چھاتیوں سے دودھ خشک ہوگیا تھا۔ معصوم بچے بھوک پیاس سے بلبلاتے، مگر ظالموں کے دل پر کوئی اثر نہ ہوتا۔ ‘‘ حضرت جابرؓ سوچنے لگے کہ پھر آج مکہ والوں کی خیر نہیں، مگر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے تو سب کو معاف کر دیا۔ یہ تھا حسن خلق ، جس کے بارے میں اللہ نے ارشاد فرمایا: ''اور ہم نے تو تمھیں تمام جہان کے لوگوں کے حق میں رحمت بنا کر بھیجا ہے۔‘‘(سورۃ الانبیاء21:107)
امت مسلمہ کے مظلومین کو صبر کے ساتھ ان حالات کا مقابلہ کرنا چاہیے اور مسلمان حکمرانوں کو گونگے بہرے بننے کے بجائے اپنا اسلامی فرض ادا کرنا چاہیے۔ قرآن پاک میں اللہ نے ارشاد فرمایا ہے کہ مشکلات کے بعد آسانیاں بھی آتی ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ ان شاء اللہ ظلم کی یہ سیارہ رات ختم ہوگی اور حق و انصاف کا سپیدۂ سحر نمودار ہوگا۔ ''پس بے شک ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔ بے شک ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔‘‘ (سورۃ انشراح94:6,5)
شب گریزاں ہوگی آخر جلوۂ خورشید سے
یہ چمن معمور ہوگا نغمۂ توحید سے
شعب ابی طالب کے واقعہ میں کئی دروس پنہاں ہیں۔ جن اہل مکہ نے اپنے کفر کے باوجود حق و انصاف کے لیے آواز بلند کی تھی، کیا آج کے مسلمان حکمرانوں کو ان سے کوئی سبق نہیں ملتا۔ وہ تو غیر مسلم تھے پھر بھی ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ مسلمان حکمران تو اللہ رسول کو ماننے والے ہیں اور اللہ کا حکم سب کو معلوم ہے انما المومنون اخوۃ یعنی مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، وہ اس پر ظلم نہیں ڈھاتا، نہ اسے بے یارومددگار چھوڑتا ہے اور نہ ہی اسے دشمن کے حوالے کرتا ہے۔ آج مسلمان مسلمان کا خون گرا رہا ہے۔ ہنود و یہود اور صہیونی و صلیبی تو ہمارے دشمن ہیں، ان کا کیا گلہ۔ سب سے زیادہ دکھ اس بات پر ہوتا ہے کہ خود مسلمان بھی دشمن کی سازشوں کے تحت اپنے مسلمان بھائیوں کے خلاف محاذ آرائی پر تلے بیٹھے ہیں۔ یہ سلامتی کا راستہ نہیں ہے۔ علامہ اقبال نے کہا تھا ؎
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستاں والو
تمھاری داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
آج اقبال زندہ ہوتے تو ساری ملت اسلامیہ کو مخاطب کرکے یہی پیغام دیتے۔ اے کاش ترکی کے حکمرانوں کی طرح دیگر مسلمان ملکوں کے حکمران بھی اُمت کا درد محسوس کریں اور باہمی اتحاد سے اپنے اندرونی اختلافات کو بھی دور کریں اور غیر مسلموں کے مظالم کا بھی مداوا کریں۔