گزشتہ صدی کے عظیم محقق و مصنف ، شاعر و ادیب اور مجاہد و مبلغ جناب ولید الاعظمی (عراقی) کی معجزات پر ایک عظیم تالیف ہے۔ انھوں نے اس کا نام المعجزات المحمدیہ رکھا تھا۔ ہم اس کا اردو ترجمہ معجزات سرور عالمؐ کے نام سے اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کر چکے ہیں۔ فاضل مولف نے دیباچے میں اس کتاب کی تالیف و تصنیف کا پس منظر بہت مؤثر اور پیارے انداز میں پیش کیا ہے۔ اس کے ایک ایک لفظ سے عقیدت و محبت کی خوشبو آتی ہے۔ سیرت نبویؐ پر قلم اٹھانے یا زبان کھولنے کے لیے اولین شرط ہی عقیدت و محبت اور ادب و احترام ہے بقول اقبال: باخدا دیوانگی بھی چل سکتی ہے مگر با محمدؐ ہوشیار و محتاط رہنا پڑتا ہے۔ ''باخدا دیوانہ باش وبا محمدؐ ہوشیار‘‘۔
معجزات محمدؐ پر بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ بعض بڑی ضخیم ہیں اور بعض مختصر۔ علامہ شبلی مرحوم اور سید محمدسلیمان ندوی مرحوم نے اپنی معرکہ آرا کتاب سیرۃ النبیؐ کی جلد سوم پوری کی پوری دلائل و معجزات نبوت کے لیے وقف کی ہے۔ یہ ندوی صاحب کی کاوش ہے ۔ اس مجلد کے ۸۶۸ صفحات ہیں۔ سید مرحوم نے جس عالمانہ تحقیق اور احتیاط سے سیرۃ النبیؐ لکھی ہے وہ انھی کا خاصہ ہے۔ ان کی سیرۃ النبیؐ بچپن سے میری جلیس و رہنما رہی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے کئی مرتبہ تنہائی میں خصوصاً رمضان شریف کی راتوں کو اس کتاب کا ایسی کیفیت میں مطالعہ کیا ہے کہ آنکھوں سے مسلسل آنسو جاری رہتے تھے، اور ایک ناقابل فراموش لذت اور کیفیت سے دل و دماغ مالا مال ہو جاتا تھا۔ مجھے آج تک وہ لمحات یاد ہیں۔
معجزے کے بارے میں یہ بنیادی امور سمجھ لینے کے بعد آیئے اب غزوۂ خندق کے دوران رونما ہونے والے چند معجزات کا مختصر تذکرہ پڑھ لیں۔ یہ معجزات ہم نے من و عن معجزات سرور عالمؐ سے منتخب کیے ہیں۔ ہر معجزے کے آخر میں بنیادی ماخذ کے حوالہ جات درج ہیں۔
ابن اسحاق بیان کرتے ہیں کہ غزوۂ خندق کے موقع پر خندق کھودتے ہوئے کئی واقعات ایسے رونما ہوئے جو سراسر عبرت اور رسول اﷲؐ کی نبوت کی تصدیق کرنے والے تھے۔ صحابہ کرامؓ نے ان واقعات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔
جابر بن عبداﷲؐ کہا کرتے تھے کہ خندق کی کھدائی کے دوران ایک جگہ چٹان کا سخت پتھر آ گیا جو ٹوٹتا نہ تھا۔ صحابہؓ نے حضور اکرمؐ سے اس کی شکایت کی۔ آپ نے فرمایا کہ کسی برتن میں پانی ڈال کر لاؤ۔ آپ نے اس پانی میں پھونک ماری۔ اس کے بعد آپ دیر تک اﷲ تعالیٰ سے دعا مانگتے رہے۔ دعا سے فارغ ہو کر آپ نے وہ پانی پتھر کے اوپر ڈال دیا۔ حاضرین میں سے کسی صحابی نے بیان کیا ہے۔ ''اس ذات کی قسم جس نے محمد ؐ کو نبیٔ برحق بنا کر بھیجا ہے۔ وہ پتھر دیکھتے ہی دیکھتے ریت کی طرح نرم ہو گیا۔ کدال اور ہتھیار اس سے ٹکرا کر نہ اچھلتے تھے اور نہ ٹوٹتے تھے۔‘‘ (سیرۃ ابن ہشام قسم ثانی ۲۱۷، صحیح البخاری جلد پنجم ۱۳۸، المغازی للواقدی جلد دوم ۴۵۲، البدایۃ والنہایۃ، ج۱، ص۷۲۵-۷۲۶)
سعید بن مینا کے حوالے سے ابن اسحاق نے بیان کیا ہے کہ غزوۂ خندق کے دوران نعمان بن بشیرؓ کی بہن اور حضرت بشیر بن سعدؓ کی بیٹی کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا۔ وہ کہتی ہیں کہ میری والدہ عمرہ بنت رواحہ نے مجھے بلایا اور کہا :''ننھی جاؤ یہ کھجوریں اپنے باپ اور ماموں عبداﷲ بن رواحہ کو دے آؤ۔‘‘ ایک کپڑے میں مٹھی بھر کھجوریں لے کر میں خندق کی جانب گئی۔ یہی میرے ابواور ماموں کا دوپہر کا کھانا تھا۔ میں اپنے والد اور ماموں کو تلاش کر رہی تھی کہ ایک جگہ آنحضورؐ نے مجھے دیکھ لیا۔ آپ نے فرمایا :''بیٹی ادھر آؤ۔ یہ تمھارے پاس کیا ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا: ''یا رسول اﷲؐ یہ کھجوریں ہیں جو میری والدہ نے دے کر بھیجی ہیں کہ ان سے میرے والد اور ماموں پیٹ کی آگ بجھا لیں۔‘‘
آپ نے فرمایا :''لاؤ یہ مجھے دے دو۔‘‘ میں نے کھجوریں حضور اکرمؐ کے ہاتھوں میں ڈال دیں۔ آپ کے ہاتھ ان سے پوری طرح نہ بھرنے پائے۔ بہرحال آپ نے حکم دیا کہ دستر خوان بچھایا جائے اور دستر خوان بچھ جانے کے بعد آپ نے کھجوریں اس پر بکھیر دیں۔ پھر آپ نے کسی کو حکم دیا کہ سب لوگوں کو کھانے کے لیے بلا لیں۔
بنت بشیر کہتی ہیں کہ اہل خندق دستر خوان پر جمع ہو گئے اور کھانے لگے۔ ایک جماعت کھا کر اٹھ جاتی اور دوسرے لوگ آ کر کھانے لگتے یہاں تک کہ سب اہل خندق سیر ہو کر کھا چکے مگر کھجوریں ختم نہ ہوئیں۔ بخدا دستر خوان کے اطراف میں ابھی تک کھجوریں موجود تھیں جو کناروں سے گری پڑی تھیں۔‘‘ (سیرۃ ابن ہشام القسم الثانی ۲۱۷، المغازی للواقدی جلد دوم ۴۶۷، البدایۃ والنہایۃ، ج۱، طبع دارِ ابن حزم، بیروت، ص۷۲۶)
ابن اسحاق سعید بن میناؓ اور جابر بن عبداﷲؓ کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ حضرت جابر بن عبداﷲؓ حضور اکرمؐ کے ساتھ خندق کی کھدائی میں مشغول تھے۔ وہ خود بیان کرتے ہیں کہ ان کے پاس ایک چھوٹی سی لاغر بکری تھی۔ انھوں نے سوچا کہ حضور اکرمؐ کافی دنوں سے بھوکے ہیں کیوں نہ یہ بکری ذبح کرکے حضورؐ کی ضیافت کا اہتمام کیا جائے۔
وہ مزید بیان کرتے ہیں :''میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ آٹا گوندھ لے۔ چنانچہ اس نے آٹا گوندھ کر روٹیاں پکائیں۔ میں نے بکری ذبح کی اور حضور اکرمؐ کی خاطر ہم نے گوشت بھون لیا۔ جب شام ہوئی اور حضور اکرمؐ خندق سے گھر کی جانب جانے لگے تو میں نے عرض کیا کہ ''اے اﷲ کے رسولؐ ہمارے پاس ایک بکری تھی۔ آج ہم نے اسے ذبح کیا ہے اور روٹی بھی پکائی ہے۔ آپ ہمارے گھر تشریف لا کر ہمیں شرف میزبانی بخشیں۔ میرا ارادہ تو صرف حضورؐ ہی کو مدعو کرنے کا تھا مگر جوں ہی میں نے دعوت دی آپ نے قبول فرمائی اور کسی پکارنے والے کو کہا کہ سب لوگوں کو پکار کر کہہ دو کہ جابر بن عبداﷲؓ کے گھر پہنچ جائیں۔
میں نے دل میں اِنَّا لِلّٰہِ پڑھا کیونکہ طعام تو بہت ہی قلیل تھا۔ بہرحال حضور اکرمؐ صحابہ کی جماعت کے ساتھ میرے گھر میں داخل ہوئے اور بیٹھ گئے۔ ہم نے کھانا آپ کے سامنے لا کر رکھ دیا۔آپؐ نے اﷲ کا نام لیا، برکت کی دعا کی اور کھانا کھایا۔ لوگ باری باری کھانا کھانے کے لیے آتے رہے اور سیر ہو کر کھاتے رہے۔ کئی نشستوں میں لوگوں نے کھانا کھایا، یہاں تک کہ جملہ اہل خندق کا پیٹ بھر گیا۔ (سیرۃ ابن ہشام قسم ثانی ۲۱۷، صحیح البخاری جلد چہارم ۹۰ جلد پنجم ۱۳۸۔ صحیح مسلم جلد ۱۳ ص ۲۱۶، سنن البیہقی جلد ہفتم ۲۷۴)
حضرت سلمان فارسیؓ کی شخصیت بہت عظیم ہے۔ قبولِ اسلام کے لیے انھوں نے جن مشکل منزلوں کو عبور کیا وہ تاریخ کا ایمان افروز ورق ہے۔ غزوۂ خندق کے موقع پر خندق کھودنے کی تجویز انھوں نے ہی پیش کی تھی جسے آنحضورؐ نے بہت پسند فرمایا۔ ابن اسحاق نے حضرت سلمان فارسیؓ کی زبان سے یہ واقعہ بیان کیا ہے۔ وہ مصنف حلبی نے بھی اپنی کتاب میں لکھا ہے۔ اس کے مطابق حضرت سلمانؓ نے کہا : ''خندق کی کھدائی کے دوران میں ایک سخت چٹان آ گئی۔ میں نے اسے توڑنے کی کوشش کی مگر کامیابی نہ ہوئی۔ رسول اﷲؐ مجھ سے قریب ہی کھدائی میں مصروف تھے۔ جب آپؐ نے صورت حال دیکھی تو میری مدد کو تشریف لائے اور کدال پکڑ لی۔ آپؐ نے پتھر پر ضرب لگائی تو کدال کے نیچے سے بجلی کا شعلہ نکلا پھر دوسری ضرب سے ایسا ہی شعلہ نکلا۔ تیسری ضرب لگی تو بھی بجلی کی سی چمک پیدا ہوئی اور چٹان ٹوٹ گئی۔میں نے عرض کیا: ''میرے ماں باپ آپؐ پر قربان، یا رسول اﷲ جب آپ ضرب لگا رہے تھے تو کدال کے نیچے میں نے شعلے اٹھتے ہوئے دیکھے۔ یہ شعلے کیسے تھے؟‘‘
آپؐ نے فرمایا: ''سلمان، کیا واقعی تم نے یہ شعلے دیکھے ہیں؟‘‘
میں نے اثبات میں جواب دیا تو حضورؐ نے فرمایا: پہلی ضرب پر جو شعلہ نکلا تو اس سے اﷲ تعالیٰ نے یمن پر مجھے فتح عطا کی۔ دوسرے شعلے پر میرے لیے اﷲ تعالیٰ نے شام کی فتح کا راستہ ہموار کر دیا اور تیسرے شعلے پر اﷲ تعالیٰ نے مشرق کے ممالک کی فتح میرے لیے مقدر فرما دی۔ حضرت سلمانؓ کی رفعت شان کی وجہ سے ان کو مہاجرین اپنے میں سے شمار کرتے تھے اور انصار انھیں اپنا فرد قرار دیتے تھے۔ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے سنا تو فرمایا: سلمان منا اہل البیت۔ سلمان ہم میں سے ہے یعنی میرے اہلِ بیت میں سے ہے۔ اس اعزاز پر شاعر نے کہا:
لقد رقی سلمان بعد رقہ
منزلۃ شامخۃ البنیان
وکیف لا والمصطفی قد عدہ
من اہل بیتہ العظیم الشان
سلمانؓ بلندی کے درجات پہ درجات طے کرتا چلا گیا۔ اس کا مقام عظیم اور شان مسلّم ہے۔
اور ایسا کیوں نہ ہو جب کہ مصطفیؐ نے اسے اپنے عالی مقام وعظیم الشان اہلِ بیت میں شمار کیا ہے۔ (السیرۃ الحلبیۃ، ج۲، دارالکتب العلمیہ بیروت، ص۴۲۰)
ابن اسحاق مزید بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے ثقہ راویوں کی زبانی حضرت ابوہریرہؓ کی یہ روایت سنی ہے کہ حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کے دور خلافت میں ہونے والی ہر فتح پر وہ کہا کرتے تھے: ''جتنے علاقے بھی چاہو فتح کرتے جاؤ۔ خدا یہ فتوحات مبارک کرے۔ مدینہ سے لے کر اقصائے عالم تک اور آج کے دن سے یوم قیامت تک جتنے علاقوں پر بھی تم فتوحات کے پرچم لہراؤ گے ان سب کا حال اﷲ تعالیٰ نے اپنے محبوب پیغمبر کو بتا دیا تھا۔ مالک ارض و سماء نے ان علاقوں کی چابیاں اپنے نبی کو عطا فرما دی تھیں۔‘‘ (سیرۃ ابن ہشام قسم ثانی، ص۲۱۹)