آنحضورﷺ کی تائید ونصرت اللہ نے اپنے ذمے لی تھی اور یہ وعدہ بھی فرمایا تھا: ''آپ اللہ کا پیغام پہنچانے کا حق ادا کریں اوربے فکر رہیں کہ) اللہ آپ کو لوگوں کے شر سے بچانے والا ہے۔‘‘ (المائدہ۵:۶۷)
غارِثور کے واقعات میں کبوتر اور مکڑی کا تذکرہ سب لوگوں کو معلوم ہے۔ یہ ظاہری اسباب اللہ کے حکم کے تابع ہوتے ہیں۔ وہ مسبب الاسباب ہے۔ وہ کسی کا محتاج نہیں‘ مخلوق محتاج ہے اور اسباب ظاہریہ کی مکلف ومجبوربھی۔ وہ جو کچھ کرنا چاہے وہی ہوتا ہے۔ اپنے نبیؐ سے اس کا وعدہ ہے کہ وہ اس کا محافظ ہے۔ اس نے غارِثور سے نکلنے کے بعد قدم قدم پر یوں حفاظت فرمائی کہ عقلِ انسانی دنگ رہ جاتی ہے۔ جو پکڑنے کے لیے آئے تھے‘ وہ نا صرف بے بس ہوگئے بلکہ انہیں نبی رحمتؐ نے بشارتیں بھی دیں۔ تاریخ کا یہ باب انتہائی ایمان افروز ہے۔
کئی طالع آزما آپؐ کی تلاش میں نکلے ہوئے تھے‘ جنہیں آپؐ کو زندہ یا مردہ پکڑ لینے کی صورت میں بڑے انعام کا لالچ تھا۔ انہی میں سے بنو مُدلج کا سردار سراقہ بن مالک بھی تھا۔ ماہر تیر انداز‘ مشہور شمشیر زن اور عرب کا مانا ہوا شاہ سوار مادی انعام کے لالچ میں سب کچھ بھول چکا تھا۔ اس کے نزدیک سو اونٹوں کی بڑی قیمت تھی۔ اسے جلد ہی معلوم ہو گیا کہ وہ جس کا تعاقب کر رہا ہے‘ اس کا رشتہ تو آسمان سے قائم ہے؛ اگرچہ اس کے قدم زمین پر ہیں۔ وہ مادی انعامات ہی نہیں‘ ربانی تحائف بھی تقسیم کرتا ہے۔ اس موقع پر سراقہ کے دل اور دماغ میں ایک کشمکش برپا تھی ‘جو ایسے مواقع پر ہمیشہ انسانوں کو پیش آیا کرتی ہے۔ اس کا دماغ اونٹوں کے لالچ میں مبتلا تھا‘ ساتھ یہ بھی سوچ رہا تھا کہ اس شخص سے مجھے کیا ملنا ہے‘ جو بے بسی کے عالم میں اپنے گھر سے نکال دیا گیا ہے‘ جبکہ اس کا دل اس جانب مائل تھا کہ اس عظیم شخص کو ایذا پہنچانا اس کے اپنے لیے نقصان دہ ثابت ہو گا۔
اس روز سراقہ اپنی برق رفتار گھوڑی عوذ پر سوار تھا۔ آنحضورؐ کا تعاقب کرتے ہوئے جب قریب پہنچا تو عجیب واقعہ پیش آیا‘ گھوڑی گھٹنوں کے بل زمین پر آگری۔ سراقہ نے گھوڑی کو اٹھایا‘ اس کی گردن پہ تھپکی دی اور پھر اس پر سوار ہو گیا۔ حضرت ابو بکر ؓ یہ منظر دیکھ رہے تھے اور آنحضورؐ سے دشمن کے خطرناک عزائم کا تذکرہ بھی کررہے تھے۔ صحیح بخاری کے مطابق آنحضورؐ نے فرمایا: ''اے اللہ! ہمیں اس کے شر سے محفوظ فرما۔‘‘ یہ مبارک الفاظ زبانِ رسالت مآب سے نکلے ہی تھے کہ ایک بار پھر سراقہ کی گھوڑی کے چاروں پائوں زمین میں دھنس گئے اور وہ بھی زمین پر آگرا۔ اب سراقہ کی آنکھیں کھلیں۔ دماغ پر دل غالب آ گیا اور وہ بے بسی سے پکار اٹھا: ''اے ابن عبدالمطلب ! مجھے معاف کر دیجیے اور جان کی امان عطا کر دیجیے‘‘۔
کیا خوب مقام ہے کہ اس بے بسی کے عالم میں بھی آپؐ کا ہاتھ اوپر ہے۔ آپؐ نے سراقہ کی درخواست پرسیدنا ابو بکر صدیقؓ اور بعض روایات کے مطابق اپنے دوسرے ہم راہی عامربن فہیرہؓ کو حکم دیا کہ وہ اسے آپؐ کی طرف سے امان لکھ دیں ۔امان لکھ دی گئی۔پروانہ عطا کرنے کے موقع پر آنحضورؐ نے سراقہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ''اے سراقہ! اس روز تیری کیا شان ہو گی ‘ جب کسریٰ کے سنہری کنگن تیرے ہاتھوں میں پہنائے جائیں گے۔ ‘‘ سراقہ یہ الفاظ سن کر حیرت سے سکتے میں آگیا اور متعجب ہو کر عرض کیا؛ ''کسریٰ کے کنگن میرے ہاتھوں میں؟‘‘ آپؐ نے فرمایا: ''ہاں! سراقہ یہ ہوکر رہے گا۔‘‘
سراقہ اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا تھا اور دل سے مان چکا تھا کہ یہ اللہ کے رسول برحق ہیں ‘مگر اس موقع پر زبان سے اس کا اقرار کیے بغیر امان نامہ ہاتھ میں لیے مودب انداز میں الوداع کہہ کر چلا گیا۔ واپس اپنے گھر (رابغ) کی طرف پلٹتے ہوئے اس نے سوچا کہ ابوجہل کو بھی اس منظر سے باخبر کر دیا جائے؛ چنانچہ مکہ کی طرف چل دیا اور دارالندوہ میں پہنچ کر اس نے سردارانِ قریش کے سامنے جو نقشہ کشی کی‘ اس کے چند اشعار (ترجمہ) ملاحظہ فرمایئے:
۱-''اے ابو الحکم (ابوجہل) ! خدا کی قسم‘ تو اگر وہ منظر دیکھتا جب میری سواری کے پائوں زمین میں دھنس گئے تھے تو...
۲-تو جان لیتا کہ محمدؐ اللہ کے سچے رسول ہیں اور ان کے پاس برہان موجود ہے۔ پھر تجھے اس بات میں کوئی شک نہ رہتا (بھلا سچے رسول کا) مقابلہ کون کر سکتا ہے۔
۳-تجھ پر لازم ہے کہ محمدؐ کے پیچھے لوگوں کو دوڑانے کی بجائے‘ انہیں اس کام سے روک دے۔ میں یقین سے کہتا ہوں کہ اس کا حکم اوراس کا جھنڈا سربلند ہو گا‘‘۔
ان اشعار سے یہ حقیقت بالکل واشگاف ہے کہ اسلام کی حقانیت اور رسولِ رحمتؐ کی صداقت‘ عرب کے بدو سردار کا دل فتح کر چکی تھی‘ مگر عملاً سراقہ کے قبولِ اسلام کی شہادت فتح مکہ کے بعد ہی ملتی ہے۔ آپ اندازہ کیجیے کہ بظاہر کیسی بے چارگی کا عالم ہے‘ لیکن دینِ حق کی کامیابی کا یقین محض جزیرہ نمائے عرب کی حد تک نہیں‘ دنیا کی سوپر طاقتوں کو ملیا میٹ کرنے اور ان کے پایۂ تخت پر اسلام کا جھنڈا لہرانے پر بھی محیط تھا۔ امان کے پروانے حکمران دیا کرتے ہیں اور لوگوں کو سونے کے کنگن بھی وہی بخش سکتے ہیں۔ آپ اندازہ کیجیے کہ نبی اکرمﷺ نے بظاہر نا امیدی کے اندھیروں میں بھی ایمان و یقین اور عزم و ہمت کی شمع ہمیشہ جلائے رکھی۔
اندھیرے اور روشنی کی کشمکش اتنی ہی پرانی ہے‘ جتنی انسانی تاریخ۔ یہ کشمکش ہر دور میں جاری رہی۔ تاریخ کا یہ محکم فیصلہ ہے کہ اس کشمکش میں ہمیشہ روشنی غالب آتی ہے۔ وہ دن بھی یادگار تھا جب مدائن فتح ہوا‘وہ اسی بات کا اعلان تھا کہ اندھیرے بھاگ گئے اور نور چھا گیا‘ باطل مٹ گیا اور حق آگیا۔ اس روز فاتح ایران سعد بن ابی وقاصؓ نے مالِ غنیمت میں کسریٰ کے سونے کے کنگن دیکھے تو ہجرت نبویؐ کے واقعات آنکھوں کے سامنے گھوم گئے۔ آقا کی پیش گوئی بھی یاد آگئی۔ جب مالِ غنیمت مدینہ پہنچا تو امیر المومنین عمر بن خطابؓ کی نظریں بھی ان سنہری کنگنوں پر جم گئیں۔ آقاؐ کا ارشاد بھی یاد آیا اور فرطِ عقیدت و تشکر سے آنکھیں بھی بھیگ گئیں۔ پھر حکم ہوا کہ سراقہ کو بلائو۔ حافظ ابن حجر اور حافظ ابن قیم جیسے ثقہ مورخین لکھتے ہیں کہ عمر بن الخطابؓ نے یہ کنگن سراقہؓ کے ہاتھوں میں پہنائے تو مدینہ طیبہ کی فضائیں اللہ کی کبریائی سے گونج اٹھیں۔
مورخ اسلام السہیلی نے روض الانف میں لکھا ہے کہ اس موقع پر حضرت عمرؓ نے سراقہؓ سے مخاطب ہو کر یہ بھی فرمایا: ''اے سراقہ! اس اللہ کی حمد بیان کرو‘ جس نے یہ زیورات کسریٰ بن ہرمز سے چھین لیے‘ جو لوگوں کا خود ساختہ رب بنا بیٹھا تھا اور انہیں عرب کے بدو سراقہ بن مالک کے ہاتھوں میںپہنا دیا۔‘‘ سراقہ بھی خوش قسمت تھا کہ اس کی آنکھیں کھل گئیں‘ ورنہ دل و دماغ کی کشمکش میں لوگ دل کی آواز دبا دیتے ہیں اور عقل و خرد ‘ نفس و خود غرضی کے غلام بن جاتے ہیں اور انعام بانٹنے والا بھی عظیم ترین تھا‘ جس نے بے بسی کے عالم میں بھی خلقِ خدا کو انعامات سے نوازا۔
سراقہ کے علاوہ بنو اسلم کا نیزہ باز سردار بریدہ اسلمی تھا۔ اس کے ساتھ ستر دیگر لوگ بھی تھے۔ جب معجزاتِ نبوت دیکھے تو دل نذر کرنے کے سوا کوئی راستہ نظر نہ آیا۔ دوساتھی جو غار میں دشمن کے حملوں سے محفوظ ہونے کے لیے پناہ لیے ہوئے تھے‘ اپنی منزل پہ پہنچنے سے قبل ایک قافلے کی معیت میں جادۂ حق پر گامزن تھے۔ مورخین بیان کرتے ہیں کہ آنحضورﷺ نے بریدہ اسلمی کے جذبات کی بڑی قدر فرمائی۔ وہ و ادی الغمیم میں آپ سے ملے تھے‘ تاہم آپ نے ازراہِ احتیاط و حکمت ان سے فرمایا کہ وہ آپ کے ساتھ شریکِ سفر نہ ہوں؛ چنانچہ تعمیل حکم میں وہ اعلانِ وفا داری و اطاعت کرنے کے بعد واپس گھر چلے گئے اور بعد میں مدینہ میں خدمتِ اقدس میںحاضر ہو گئے۔
ادھر مدینہ میں اہلِ یثرب گھڑیاں گن رہے تھے کہ کب نورِنبوت سے آنکھیں ٹھنڈی کرنے کی ساعت سعید آتی ہے۔ جب انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور کٹھن راہوں کے پرعزم راہی منزل پہ آپہنچے تو فضاؤں میں خوشیاں اور دلوں میں جذباتِ ایمانی موجزن ہوگئے۔ ہر بڑا اور چھوٹا آج نغمہ سرا تھا۔ اہلِ توحید کی زبانوں پر تحمید وتقدیس بھی تھی اور نعت ِ رسولﷺ بھی۔ انصار کی بچیوں کے وہ والہانہ اشعار تاریخ میں جگمگانے اور اہلِ ایمان کو تاقیامت جذبہ ایمان سے سرشار کرنے کے لیے فضا میں عجیب سماں باندھ رہے تھے۔؎
طلع البدر علینا من ثنیات الوداع
وجب الشکر علینا مادعا للہ داع
ایہا المبعوث فینا جئت بالامر المطاع
''وداع کی گھاٹیوں سے چودھویں کا چاند آج ہمارے اوپر جلوہ فگن ہوگیا ہے۔ ہمارے اوپر اللہ کا شکر واجب ہوگیا ہے‘ اس نعمت پر جواللہ کو پکارنے والے نے ہم تک پہنچائی ہے۔ اے ہمارے درمیان مبعوث کیے گئے (نبی کامل) آپ وہ حکم اور شریعت لے کر آئے ہیں جس کی اطاعت فرض ہے۔‘‘