ہیرے موتی، لعل جواہر!

نبی اکرمﷺحرا سے اتر کر سوئے قوم آئے تو مولانا حالی کے بقول‘ نسخۂ کیمیا ساتھ لائے۔ آپﷺ کی صدائے حق نے دنیا میں ایک ہلچل پیدا کر دی تھی۔ حالی نے اسے بجلی کا کڑکا بھی قرار دیا اور صوتِ ہادی سے بھی تعبیر کیا۔ بلاشبہ یہ بجلی کا کڑکا تھا خس و خاشاکِ باطل کے لیے اور یہ صوتِ ہادی تھی سلیم الفطرت روحوں کے لیے ۔ طرزِ کہن کے غلام اور آئینِ نو سے خائف سردارانِ قبائل ٹھٹھر کر رہ گئے۔ پھر بپھر کر حملہ آور ہوئے مگر تبدیلی کے خواہش مند نوجوان اور تازہ ہوا کے جھونکوں کو ترس جانے والے نفوسِ پاکیزہ یہ آواز سن کر متوجہ ہو گئے۔ پھر سوچ سمجھ کر حقیقت کو پا لیا۔ اتفاق ہے کہ عمر کی تقسیم کے لحاظ سے بھی کم عمر سبقت لے گئے اور معاشی و سماجی درجے کی مناسبت سے بھی غلام اور کنیزیں بازی جیت گئے۔ ہماری تاریخ گواہ ہے کہ نبیٔ صدق و صفاﷺ پر ابتدامیں ایمان لانے والے صحابہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں تھے۔
یہ عجیب حسنِ اتفاق ہے کہ ان نوجوانوں کے بزرگ اور رؤسائے قبائل آنحضورﷺ کے سخت دشمن اور خون کے پیاسے تھے ۔ ان سرداروں کا شروع میں خیال تھاکہ اسلام اس معاشرے میں جڑ نہ پکڑ سکے گا۔ بعد میں انہیں احساس ہواکہ روشنی پھیلتی جار ہی ہے تو وہ متحرک ہو گئے۔ وہ ظلم و تشدد، اپنی اندھی قوت اور جتھا بندی سے شمعِ حق کو گل کرنا چاہتے تھے مگر اللہ اپنے نور کو مکمل کرنے کا وعدہ کر چکا تھا۔ آنحضورﷺپر مکے میں قرآنِ مجید کی جو سورتیں نازل ہوئیں‘ ان میں کئی مقامات پر آنحضورﷺ، اہلِ ایمان اورجماعتِ مستضعفین کو یہ خوش خبری سنائی گئی ہے کہ کفار اپنی ساری قوت و ہیبت کے باوجود شکست خوردہ ہیں۔ بعض مقامات پر ان کی اس شکست خوردگی کو بصیغۂ مستقبل پیش گوئی کے طور بیان کیا گیاہے جبکہ بعض مقامات پر اسے ماضی کے صیغوں میں حتمی اور یقینی خبر کی حیثیت سے پیش کیا گیاہے۔
مکے میں صاحب ِعزیمت صحابہ حالات کی سنگینی کے باوجود اس بات میں ذرا برابر شک نہیں رکھتے تھے کہ کفر کی فوجیں اور نظریات شکستِ فاش سے دوچار ہو کررہیں گے۔ سورۃ الروم کی آیت نمبر 4 ضمناً اس موضوع کو بیان کرتی ہے جبکہ سورۃ صٓ کی آیت نمبر 11 میں اس بات کو بدیں الفاظ بیان کیا گیاہے ''یہ تو جتھوں میں سے ایک چھوٹا سا جتھا ہے جو اسی جگہ شکست کھانے والا ہے‘‘۔ سورۃ القمر میں بالفاظ صریح ارشاد فرمایا ''عنقریب یہ جتھا شکست کھا جائے گا اور یہ سب پیٹھ پھیر کر بھاگتے نظر آئیں گے‘‘۔( آیت نمبر 45)
جب کسی نظر یے کی مخالفت کرنے والے قائدین کے گھروں میں وہ نظریہ داخل ہو جائے، ان کی اولاد اور لواحقین اس کے دست و بازو بن جائیں تو پھر یہی کہا جاتاہے کہ یہ لوگ ہاری ہوئی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ان حالات میں ایسے جتھوں کی شکست نوشتۂ دیوار ہوتی ہے۔ صحابہ کرامؓ کی سیرت اس لحاظ سے بڑی دلچسپ ہے اور ایک دو نہیں سینکڑوں واقعات اوپر بیان کر دہ حقیقت کے ترجمان ہیں۔ لڑکوں کا توکیا کہنا‘ لڑکیاں بھی دعوتِ حق پر لبیک کہنے میں سبقت لے گئیں۔
قریش کے شعلہ بیان خطیبوں میں سہیل بن عمرو بہت معروف شخصیت تھی۔اسلام کے خلاف اس کی شعلہ نوائی لوگوں کے جذبات میں آگ بھڑکا دیتی تھی۔ اسی وجہ سے جنگِ بدر میں اس کے جنگی قیدی بننے کے بعد حضرت عمرؓ نے آنحضورﷺ کو مشورہ دیا تھاکہ اس خطیبِ آتش نوا کے دانت تڑوا دیے جائیں لیکن آنحضورﷺ نے نہ صرف اس تجویز کونامنظورکر دیا بلکہ فرمایا ''اے عمرؓ! کیا معلوم کہ کبھی اس کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ تم لوگوں کو سکون و اطمینان فراہم کر دیں‘‘۔ یہی سہیل بن عمرو وہ شخص ہے جس نے صلح حدیبیہ کے معاہدے میں حضور نبی اکرمﷺ کے مدِّ مقابل قریش کی نمایندگی کی تھی۔ اسی نے معاہدے میں لکھے گئے''محمدرسول اللہ‘‘کے الفاظ پر اعتراض کیا تھا اور ان الفاظ کو حذف کرا دیا تھا ۔
سہیل بن عمرو خوش قسمت انسان تھے کہ فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوگئے اور پھر تاریخِ اسلام میں شان دار کارنامے سر انجام دیے۔ جنگ یرموک میں جام شہادت نوش کیا ؛ تاہم ایک طویل عرصے تک انہوں نے اسلام کی شدید مخالفت کی تھی۔یہ بنو عبدالشمس کے رئیس تھے۔ ان کے فرزند عبداللہؓاور دختران سہلہؓبنتِ سہیل اور اُمِّ کلثومؓبنت سہیل کو یہ شرف حاصل ہے کہ وہ سابقو ن الاولون میں سے ہیں۔ ان کے بیٹے عاص بن سہیل المعروف ابو جندلؓ بھی صلح حدیبیہ سے ذرا قبل مسلمان ہو گئے تھے۔ قبولِ اسلام کی پاداش میں انہیں مکہ میں قید کر دیا گیا تھا اور یہ قید خانہ سے کسی طرح نکل بھاگنے میں کامیاب ہو گئے اور حدیبیہ کے مقام پر گرتے پڑتے آ پہنچے۔ اس وقت تک معاہدہ ہو چکا تھا، اس لیے آنحضورﷺ نے انہیں تسلی دی اور فرمایا کہ ہم معاہدے کے پابند ہیں، اس لیے تمہیں ساتھ نہیں لے جاسکتے ۔
سہیل بن عمرو کی بیٹی سہلہ کی زندگی کا ہر واقعہ بڑا ایمان افروز ہے۔ چھوٹی عمرہی میں ان کی شادی ہو گئی تھی۔ ان کے خاوند سردارِ قریش عتبہ بن ربیعہ کے بیٹے اور مشہور صحابی حضرت ابو حذیفہؓ تھے۔ ابو حذیفہؓ ابو سفیان کی بیوی ہند کے سگے بھائی بھی تھے۔ ابو حذیفہ اور سہلہ دونوں میاں بیوی نے جوانی میں کلمۂ توحیدسنتے ہی اسے قبول کر لیاحالانکہ دونوں کے خاندان بحیثیت مجموعی اور ان کے باپ بالخصوص اسلام کے کٹر دشمن تھے۔ دونوں میاں بیوی اس قدسی کارواں میں شریک تھے جو مکہ سے حبشہ کی جانب ہجرت کر گیا تھا۔ کچھ عرصہ بعد یہ حبشہ سے مکہ واپس آ گئے لیکن دوبارہ انہیں مکے کے کٹھن حالات کی وجہ سے ہجرت حبشہ کی مشکل منزلوں سے گزرنا پڑا۔ ان کے بیٹے اور آنحضورﷺ کے نوخیز صحابی محمدؓبن ابی حذیفہ کی پیدائش حبشہ ہی میں ہوئی تھی ۔
اس عظیم جوڑے کی ایک اور پہچان بلکہ اعزاز یہ ہے کہ عالی مقام صحابی اور حافظ قرآن حضرت سالمؓبن معقل ان کے غلام تھے۔ انہوں نے سالم کو آزاد کر کے اپنا بیٹا بنا لیا تھا اور سالم بھی اسی طرح ان سے منسوب تھے جس طرح زیدؓبن حارثہ آنحضورﷺ سے منسوب تھے۔ حضرت زید کوزید بن محمدؐاور حضرت سالمؓ کو سالم بن ابی حذیفہ کہا جاتا تھا۔ بعد میں جب متبنّٰی کی جاہلی رسم ختم کرنے کے لیے قرآن میں ممانعت آئی تو انہیں سالم مولیٰ ابی حذیفہ کہا جانے لگا۔ سالم ایسے شخص ہیں کہ جن کو آنحضورﷺکے حکم کے مطابق حضرت سہلہؓ نے اپنا دودھ پلایا، جس سے وہ ان کے رضاعی بیٹے بن گئے۔ حدیث میں وضاحت کی گئی ہے کہ یہ اجازت سب لوگوں کے لیے نہیں بلکہ یہ بالخصوص انیء کے لیے استثنا تھا۔ رضاعت بچپن ہی میں معتبر ہوتی ہے۔ یہ استثنا صحابہ کے اس گھرانے کو اللہ اور اس کے رسولﷺ کے ہاں بلند مقام کی وجہ سے خاص طور پر دیا گیا۔
حضرت ابو حذیفہؓ آنحضورﷺ کو بہت محبوب تھے ۔ اسی طرح حضرت سہلہؓ سے بھی آنحضورﷺ کو خاص تعلق خاطر تھا۔ اس حوالے سے کئی واقعات سیرت کی کتابوں میں منقول ہیں۔ اس خاندان کے غلام حضرت سالمؓ کا مقام و مرتبہ اس واقعہ سے معلوم ہو سکتاہے کہ حضرت عمرؓنے اپنی شہادت سے قبل فرمایا تھاکہ اگر سالم مولیٰ ابی حذیفہ زندہ ہوتے تو میں انہیں اپنا جانشین بنا دیتا۔ اس سے بھی بڑی ایک اور فضیلت یہ ہے کہ آنحضورﷺ نے ارشاد فرمایا '' قرآن کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے چار افراد کی جانب رخت ِ سفر باندھا کرو‘‘۔ان میں حضرت ابی بن کعبؓ، عبداللہؓ بن مسعود، معاذؓ بن جبل اور سالمؓبن معقل کے اسمائے گرامی ملتے ہیں۔بعض اور مواقع پر آنحضورﷺ نے دیگر صحابہ بالخصوص ابو موسیٰ اشعریؓ اور زیدؓ بن ثابت کا بھی تذکرہ فرمایا ہے۔
حضرت سہلہؓ نے جس گھر میں آنکھ کھولی اس میں اسلام اور پیغمبرِ اسلام کے خلاف بہت کچھ کہا سنا جاتا تھا ۔ علاوہ دیگر چیزوں کے‘ خاندانی عصبیت کو بھی خوب ابھارا جاتا تھا لیکن کمال ہے حضرت سہلہؓ اور ان کے بہن بھائیوں کا کہ انہوں نے یہ سارے بت پاش پاش کیے۔ دو مرتبہ حبشہ کی جانب ہجرت کی۔ پھر مکہ واپس آ کر عازمِ مدینہ ہوئے ۔ جنگ بدر میں ان دونوں میاں بیوی کے والد اور قریبی عزیز کفر کی صفوں میں قائدانہ کردار ادا کر رہے تھے اور یہ اسلام کی محبت سینے سے لگائے ان کے مد مقابل سینہ سپر تھے۔ بلاشبہ یہی لوگ روشنی کے مینار تھے ، انہی کے دم قدم سے راہِ عزیمت کے سنگِ میل قائم ہوئے اور ان کی آب و تاب اب تک باقی ہے۔ اللہ ہمیں بھی ان کے نقش پا پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
حضرت ابو حذیفہؓ نے ساری زندگی میدانِ جہاد میں گزاری۔ کفر کے پہلے معرکے‘ بدر میں وہ موجود تھے۔ اپنے باپ عتبہ بن ربیعہ کے مقابلے پر جانے کے لیے آنحضورﷺسے اجازت طلب کی مگر آپﷺ نے انہیں اجازت نہ دی۔ اس کے بعد بھی ہر معرکے میں مردانہ وار شریک رہے۔ مسیلمہ کذاب کے مقابلے پر شہید ہونے والے خوش قسمت شہدا میں وہ بھی شامل ہیں۔ مؤرخین بیان کرتے ہیں کہ حضرت سالمؓ نے بھی اسی معرکے میں شہادت پائی۔ ایمان افروز بات یہ ہے کہ حضرت ابو حذیفہؓ کے پائوں پر حضرت سالمؓ کا سر تھا۔ روحانی و رضاعی باپ اور بیٹے کا یہ تعلق، اللہ اللہ ! کیا عظیم لوگ تھے۔حضرت سہلہؓ کو ان دونوں کی شہادت سے بڑا صدمہ پہنچا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں