قرآنِ مجید‘ انسانیت کے نام اللہ کا آخری پیغام ہے۔ اِس کتابِ ہدایت نے دُنیا میں جو انقلاب برپا کیا، اُس کی نظیر پوری انسانی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔ ایک پسماندہ قوم کو دُنیا کا حکمران بنا دیا۔ اخلاق سے عاری اور برائیوں میں گھرے ہوئے معاشرے کو ایک مثالی اور جنت نظیر معاشرے میں بدل کر رکھ دیا۔ دُنیا کے پسماندہ اور ٹھکرائے ہوئے لوگوں کو اِتنا بلند کر دیا کہ وہ پوری انسانیت کے امام، معلّم اور عالمی اندھیروں میں مشعل بردار بن کر نمودار ہوئے۔ یہ سارا انقلاب اِس وجہ سے آیاکہ اُن لوگوں نے قرآنِ مجید کو سنا، سمجھا، اُس پر ایمان لائے، اُس کے مطابق اپنے عمل کو ڈھالا اور اُس کے پیمانۂ خیر و شر کو اختیار کر کے ساری دُنیا کو اُس کے مطابق بدلنے اور ڈھالنے کی اَن تھک جدوجہد میں مشغول ہو گئے۔
قرآن دراصل آیا ہی اِس لیے ہے کہ اُسے دستورِ حیات بنایا جائے، اُس کی روشنی میں اپنی منزل اور راستہ متعین کیا جائے اور اُس کی راہ نمائی میں پوری زندگی کی ڈگر چلنے لگے۔ ہر شعبہ اُس کے نور سے منوّر ہو اور ہر فرد اُس کی روشنی کا سفیر بن جائے۔ صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حضور نبی کریمﷺ کے براہِ راست تربیت یافتہ تھے۔ صاحبِ قرآنﷺ خود چلتا پھرتا قرآن تھے اور آپﷺ کے صحابہ کرام ؓ آپ کے نقوشِ پا کے ترجمان اور امین۔ بعد کے ادوار میں بحیثیت مجموعی تو اُمت قرآنِ مجید سے جڑی رہی مگر اُس کے انقلابی پیغام سے عملاً رُوگردانی ہونے لگی۔ نظامِ زندگی قرآنی تعلیمات کے بجاے حکمرانوں کی اَنا کے گرد گھومنے لگا۔ قرآن فہمی کے لیے ہر دور میں ادارے تو بہرحال قائم رہے۔ علمی شخصیات، مضامینِ قرآن کو ہر زبان میں منتقل کرتی رہیں۔ تفاسیر کا بہترین مجموعہ، ہر دور ، ملک اور زبان میں تیار ہوتا رہا، جو اللہ کے فضل سے تا امروز روز افزوں ہے۔ امام غزالیؒ نے فرمایا تھا کہ دُنیا آخرت کی کھیتی ہے اور دین دُنیا کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ اقتدار اور دِین جڑواں ہیں۔ دِین اصل اور بنیاد ہے اور اقتدار اُس کا محافظ و پہرے دار ہے۔ جس کی اصل و بنیاد ہی نہ ہو وہ منہدم ہو جاتا ہے اور جس کا محافظ نہ ہو وہ ضائع ہو جاتا ہے۔
بدقسمتی سے قرآن کے احکام ، ملوکیت کے ادوار ہی سے ایوانِ اقتدار سے بے دخل کیے جاتے رہے تا آنکہ اُمت زوال کی آخری حدوں کو چھونے لگی۔ پھر طوائف الملوکی کا دور آیا اور زوال پذیری کے اِسی دور میں غیر ملکی استعمار ، عالمِ اسلام پر حملہ آور ہوا۔اُس نے ہر مسلم ملک پر اپنا نظام مسلط کیا۔ قرآنِ مجید مسجد و مکتب تک محدود ہو کر رہ گیا۔ بڑا المیہ یہ ہوا کہ قرآنِ مجید کو محض ایک کتابِ مقدس کے طور پر گھروں اور مساجد میں رکھ دیا گیا۔ اِس کے مفہوم سے لوگ نابلد ہوتے چلے گئے اور اس کی تعلیمات پر عمل کے بجائے اِسے جھاڑ پھونک کا ذریعہ بنا دیا گیا۔ اِس دور میں بھی مجددین اور مفسرین نے ہتھیار نہیں ڈالے، وہ مسلسل منہ زور طوفان کا مقابلہ کرتے رہے۔ اُنہوں نے ملت کو اس کی اصل کی طرف لانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور بلا تکان ویرانوں میں اذانیں دیتے رہے۔ اِس کے نتیجے میں ایک جانب قرآنِ حکیم کا پیغام زندہ رہا، دوسری جانب اِس کے انقلابی پیغام نے مسلم اقوام کو غلامی کا طوق اُتار پھینکنے کے جذبات سے بھی سرشار کر دیا۔ آزادی کی جتنی بھی تحریکیں مسلمان ملکوں میں اُٹھیں، اگرچہ وہ بعد میں استعمار ہی کے سانچے میں ڈھلی ہوئی شخصیات کو برسرِ اقتدار لانے کا ذریعہ بنیں مگر تحریکِ حریت کا بیج ڈالنے سے لے کر اس کے فروغ تک‘ اس میں قرآنِ عظیم الشان کے پیغامِ انقلاب کا بنیادی کردار رہا ہے۔
یہ ایک ایسا موضوع ہے کہ جس پر مستقل بالذات کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ ہمارا موضوع ذرا مختلف ہے، اس لیے ہم اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔قرآنِ مجید کے حفظ کا سلسلہ دورِ نبوی سے شروع ہوا اور یہ ان شاء اللہ قیامت کے دِن تک جاری رہے گا۔ صحابۂ کرامؓ میں بڑی تعداد حفاظ کی تھی۔ ماضی قریب کے بعض اداور میں حفظِ قرآن کا جذبہ ماند پڑا مگر آبِ حیات کا یہ سوتا خشک کبھی نہیں ہوا، گزشتہ صدی میں بعض دور رس نگاہ رکھنے والی شخصیات نے محسوس کیاکہ حفاظِ قرآن کی تعداد کم ہو رہی ہے تو اُنہوں نے اِس جانب خصوصی توجہ دی۔ جگہ جگہ حفظِ قرآن کے مکاتب اور مراکز قائم ہوئے۔ پاکستان کے ایک بزرگ صنعت کار محمد یوسف سیٹھی مرحوم نے راقم الحروف کو 1976ء میں کینیا میں بتایا تھا کہ اُنہوں نے تحفیظ کے مراکز قائم کرنے کے لیے جو منصوبہ بنایا ہے، اُس کا پس منظر یہ ہے کہ وہ 1950ء سے 1960ء کے عشروں میں عمرے کے لیے جب بھی سعودی عرب گئے تو ماہِ رمضان میں حرمین کے سوا دیگر اکثر مساجد میں اُنہوں نے دیکھا کہ یا تو تراویح میں چھوٹی سورتیں پڑھی جاتی تھیں یا امام ہاتھ میں قرآن پکڑ کر تلاوت کرتا تھا۔ رکوع میں جاتے ہوئے وہ قرآن کو نیچے چوبی بنچ پر رکھ دیتا اور سجدے سے اُٹھتے ہوئے پھر اُٹھا لیتا۔احناف کے لیے یہ بہت اچنبھے کی بات ہے ؛اگرچہ شوافع و حنابلہ کے ہاں یہ معیوب نہیں تھا۔ سیٹھی مرحوم کے بقول اِسی منظر نے اُن کو تحفیظ کے مراکز قائم کرنے کی ترغیب دی۔ اِس کے نتیجے میں مرحوم نے مختلف افریقی و ایشیائی ملکوں میں یہ مراکز قائم کرنے کے ساتھ سعودی عرب بلکہ مکہ مکرمہ میں بھی یہ مدارس دارالافتا کے تعاون سے قائم کیے۔ اِس عرصے میں اللہ نے عمومی طور پر بھی لوگوں کے دِلوں میں قرآن کی طرف رُجوع کا جذبہ پیدا فرما دیا۔
دورِ انحطاط میں حفظِ قرآن کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا تھا کہ ناکارہ اور معذور بچوں کو اِس طرف لگایا جاتا نیز معاشرے کے فقیر اور انتہائی پسماندہ طبقے ہی اپنے بچوں کو اِس کے لیے فارغ کرتے تھے، اب اِس کے برعکس یہ روایت چلی کہ کھاتے پیتے لوگ بھی اپنے بچوں کو حفظ کرانے لگے۔ ذہین بچے حفظِ قرآن کی برکت سے عصری تعلیم میں بھی شان دار کامیابیاں حاصل کرنے لگے تو یہ تحریک خود بخود معاشرے میں اثر و نفوذ کرنے لگی۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ معروف ترین جدید تعلیمی اداروں میں باقاعدہ یہ شعبہ قائم ہے اور نہایت کامیابی سے چل رہا ہے۔
گزشتہ نصف صدی سے یہ خوش گوار کیفیت دیکھنے میں آئی ہے کہ پچھلے اداور کے برعکس جب مسجدوں میں نمازِ تراویح میں قرآن سنانے والوں کی قلت ہوا کرتی تھی، اب مساجد کے مقابلے میں حفاظ کی تعداد کئی گنا زیادہ ہے۔ گھروں،سکولوں ،کالجوں ، بازاروں اور مارکیٹوں ، کھلے پارکوں اور میدانوں میں، غرض ہر جگہ نمازِ تراویح میں قرآن سنانے کا اہتمام ہونے لگا ہے۔یہ بڑی خوش آیند بات ہے۔ جس طرح حفظِ قرآن کے بارے میں انحطاط و ارتقا کی تصویر نظر آتی ہے، اِسی طرح فہمِ قرآن کے حوالے سے بھی ایک عجیب منظر سامنے آتا ہے۔ آج سے پچاس ساٹھ سال پہلے باستثناے چند‘ اکثر مساجد میں جہاں پورا قرآنِ مجید تراویح میں پڑھا جاتا تھا، اس بات کا کوئی اہتمام بلکہ تصور تک نہیں تھا کہ مفاہیمِ قرآن کو نمازیوں کے سامنے اُن کی اپنی زبان میں پیش کرنا بھی کوئی ضروری کام ہے۔ آج الحمد للہ اِس حوالے سے بھی صورتِ حال خاصی تبدیل ہو رہی ہے۔
قرآنِ مجید کے حقوق میں اس پر ایمان، اس کی تلاوت کا اہتمام، اسے حفظ کرنے کی کوشش، اس کے مفاہیم کو جاننا اور اس کے مطابق انفرادی و اجتماعی زندگی کو ڈھالنا سب چیزیں شامل ہیں۔ قرآن کا حقیقی نظام مدینہ کی اسلامی ریاست میں قائم کیا گیا تھا۔ اس کی برکات سے جزیرہ نمائے عرب کے صحرا نشین دنیا کے حکمران بنے۔ اسی نظام ربانی کی وجہ سے انسانیت کو اس کا مقام اور عزت حاصل ہوئی۔ آج قرآنِ مجید کی طرف لوگوں کا رجوع قابلِ تحسین ہے، مگر ایک لمحہ فکریہ ہے کہ کیا ہم قرآن کے نظامِ حیات کو اپنی ذاتی زندگی، اپنے معاشرے اور اپنے نظام حکومت میں عملاً نافذ کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں؟ قرآن کو طاقوں میں سجا کر رکھ دینا اور حلف کے طور پر اس کا نام لینا یا اسے سر پر اٹھانا اس کے ساتھ انصاف نہیں ہے۔ جب تک قرآنِ مجید ہمارے معاشروں میں نافذ نہیں ہوتا نہ دنیا کی عزت مل سکتی ہے اور نہ ہی آخرت کی کامیابی کا تصور کیا جا سکتا ہے۔
اللہ کا شکر ہے کہ دنیا بھر میں قرآنی نظام کو نافذ کرنے کے لیے اسلامی تحریکیں سرگرمِ عمل ہیں۔ یہ اس مقصد میں کامیاب ہوتی ہیں یا نہیں، اپنی جگہ یہ سوال بھی اہم ہے؛ تاہم حقیقت یہ ہے کہ جس شخص نے اپنی طرف سے مخلصانہ کوشش کی وہ اللہ کے ہاں سرخرو ہو جائے گا۔ ہر بندۂ مومن کو اس موضوع پر غوروخوض کرنا چاہیے۔
آخر میں ماہر القادری مرحوم کی نظم ''قرآن کی فریاد ‘‘ سے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں۔
طاقتوں میں سجایا جاتا ہوں، آنکھوں سے لگایا جاتا ہوں
تعویذ بنایا جاتا ہوں، دھو دھو کے پلایا جاتا ہوں
نیکی پہ بدی کا غلبہ ہے، سچائی سے بڑھ کر دھوکا ہے
اک بار ہنسایا جاتا ہوں، سو بار رلایا جاتا ہوں
یہ میری عقیدت کے دعوے، قانون پہ راضی غیروں کے
یوں بھی مجھے رسوا کرتے ہیں، ایسے بھی ستایا جاتا ہوں